ایک اور دوست رخصت ہوا (دوسرا حصہ)

زاہدہ حنا  اتوار 30 جون 2024
zahedahina@gmail.com

[email protected]

کرامت علی نے اپنی زندگی کے ابتدائی دورکے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس دورکے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ بچوں کی تعلیم و تربیت کو اپنی زندگی کا سب سے اہم فرض تصورکیا کرتے تھے۔ اب دور بدل گیا ہے تعلیم، تجارت اور پیسہ کمانے کا پرکشش ذریعہ بن چکی ہے۔

کرامت علی بتاتے ہیں ’’ میں 1951  میں کراچی آیا۔ یہاں پاک کالونی کے علاقے میں ایک اسکول تھا، اس میں مجھے داخلہ دلوا دیا گیا، میں اس وقت دوسری جماعت میں تھا، کراچی میں اپنی بہن کے ساتھ رہا کوئی اگلے پانچ سال۔ پرائمری کے بعد ہائی اسکول میں داخلہ لیا، لالوکھیت میں ایک انجمن اسلامیہ اسکول تھا وہاں میرا داخل ہوا لیکن جب میں ساتویں کلاس میں تھا تو میں واپس ملتان چلا گیا۔

پھر وہیں سے اسکول شروع کیا اور میٹرک کیا۔ میں اچھا طالب علم تھا، ہم لوگ کلاس میں دو تین لوگ تھے جو فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ آتے تھے۔ اچھی کارکرگی کی وجہ سے ہم لوگوں کو کوئی فیس نہیں دینی پڑتی تھی۔ ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر کو بڑا شوق تھا کہ ان کے اسکول کے بچے اچھے نمبر لے کر پاس ہوں، وہ بڑے شوق سے انعام کے طور چیزیں بانٹتے تھے۔

اسکولوں کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کے زیادہ سے زیادہ طلبہ میٹرک امتحان میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوں۔ اسکولوں کے درمیان مقابلہ رہتا تھا۔ امتحانوں سے قبل تین چار مہینے جو آخری ہوتے تھے، ان میں اسکول بڑی محنت کرواتے تھے ۔ امتحان ہوا  1960 میں تو اس میں ہم فرسٹ کلاس میں پاس ہوگئے۔ میرے خیال میں تو یہ جو کالونی ٹیکسٹائل مل والے تھے انھوں نے اسکالر شپ رکھی ہوئی تھی جو ورکرز وہاں کام کرتے تھے ان کے بچے جو اچھے نمبروں کے ساتھ پاس ہوتے تھے وہ ان کو اسکالر شپ دیتے تھے چنانچہ اس کے لیے میرے والد نے درخواست دے دی کیونکہ وہ خود تو میرے کالج کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے تھے، بہرحال مجھے اسکالر شپ مل گئی چنانچہ وہیں میں کالج میں چلا گیا۔ وہیں 1962 میں جب کہ میں سیکنڈ ائیر میں تھا پہلی بار میرا سیاست سے واسطہ پڑا۔

ایوب خان نے اسٹوڈنٹس یونینوں پر بھی پابندی لگائی ہوئی تھی لیکن پھر جب  1962  میں انھوں نے سویلین حکومت کا لبادہ اوڑھ لیا تو یونینوں پر سے پابندی بھی ہٹانی پڑی۔ ملتان میں توکسی کوکچھ پتہ نہیں ہوتا تھا، اسٹوڈنٹس یونین وغیرہ کا۔ لہٰذا یک دن جب ہم کالج گئے تو گیٹ سے باہر عجیب و غریب حلیے کے دس بارہ اجنبی لوگ بیٹھے تھے۔ ہم لوگوں نے پوچھا کہ کون ہیں آپ لوگ؟ کیوں بیٹھے ہیں یہاں؟ انھوں نے بتایا کہ وہ بھی طالب علم ہیں اور وہ کراچی سے شہر بدر کردیے گئے ہیں۔ وہاں سے سکھرگئے تو سکھر سے بھی انھیں نکال دیا گیا پھر بہاول پورگئے اور وہاں سے بھی نکال دیے گئے تو اب وہ ملتان پہنچے ہیں۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ ہم آپ کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟ تو انھوں نے کہا کہ آپ لوگ ہمارے حق کے لیے ہڑتال کریں یعنی یہ کہ ہمیں ملتان سے نہیں نکالا جائے گا۔ ہم لوگوں کو تو ہڑتال کا پتہ نہیں تھا، ہم نے کہا کہ کیا کرنا ہے ؟تو انھوں نے کہا کہ چھٹی کرنی ہے کالج کی اور سب کو باہر نکالیں تو پھر ہم بات چیت کریں گے ۔ خیر ہم نے پھر کالج کی جو گھنٹی ہوتی ہے وہ بجائی۔ کافی لوگ باہر نکلے ۔ یہ کالج ہمارا جو تھا وہ ملتان کورٹ کے بالکل سامنے تھا۔ ہم نے کہا کہ آپ لوگوں میں سے کوئی بات کرے تو ان میں علی مختار رضوی صاحب بہت اچھے مقرر تھے ان کو ہم نے ٹریفک والے چوراہے پر کھڑا کیا اور انھوں نے تقریر شروع کی ۔ وہ بہت ہی زبردست مقرر تھے۔ ہم لوگوں نے ایسی تقریرکبھی نہیں سنی تھی۔ انھوں نے پورا بتایا کہ کیا ہوا کراچی میں اور کیا ایشو تھا، اس دوران کچھ پولیس والے آگئے اور انھوں نے علی مختار کو وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی تو ا س کی چھتری کی لکڑی کی نوک سے انھیں چوٹ لگ گئی اور خون نکل آیا۔ ہم لوگوں نے انسپکٹر صاحب کی خوب پٹائی لگائی پھر پولیس والے وہاں سے چلے گئے۔

قصور گردیزی صاحب ہوتے تھے ملتان میں وہ بائیں بازو کی سیاست میں ایک بہت اہم شخصیت تھے ہم ان سے پہلے تو ان کی شخصیت کو نہیں جانتے تھے کیونکہ اس عرصے میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی جو ایوب خان کا مارشل لا لگنے کے فوراً بعد لگادی گئی تھی ہم لوگ قصور صاحب سے بھی ملے پہلی بار اس زمانے میں ہمارے اسکول سے پہلے تھوڑے ہی فاصلے پر ان کا گھر تھا پھر جب تک یہ کراچی بدر طلبا وہاں مقیم رہے تو ہم لوگ روز ان لوگوں سے ملتے تھے یہ کوئی تقریباً بارہ لوگ تھے علی مختار، معراج محمد خان، فتح یاب علی خان ، نفیس صدیقی ‘ باقر عسکری وغیرہ لیکن جن کا تاثر ہم لوگوں پر زیادہ گہرا تھا، وہ ایک تو علی مختار رضوی تھے ایک معراج محمد خان تھے اور جوہر حسین، جوہر حسین چونکہ ان سب میں بلند قامت تھے یہ ہم لوگوں کو زیادہ یاد تھے دوسروں کے مقابلے میں۔

ایک ہفتے کے بعد پھر ان کے جو کراچی سے شہر بدری کے احکام جاری ہوئے تھے وہ واپس لے لیے گئے تو پھر ملتان سے یہ واپس آگئے۔ گویا ایک طرح سے ہمارا تعارف اسٹوڈنٹس موومنٹ کے ساتھ ان لوگوں کی شہر بدری کے حوالے سے ہوا پھر 1962 ہی میں پابندی ہٹ گئی تو کالج کی طلبا یونینیں بحال ہوگئیں ہمارے ہاں این ایس ایف وغیرہ تو نہیں تھی لیکن جب الیکشن ہوا تو پھر ہم لوگوں نے حصہ لیا ایک صاحب تھے محمود نواز بابر وہ بعد میں ٹریڈ یونین میں بھی آئے پیپلز پارٹی کے شروع میں جو لوگ تھے معراج وغیرہ یہ ان کے ساتھ بھی تھے وہ یہاں بعد میں آئے تھے لاء کرنے وہ ہماری یونین میں نائب صدر منتخب ہوئے تھے ہم لوگوں نے ان کے لیے مہم چلائی کالج میں ہماری یونین بنی تو تھوڑا سا اس وقت یونین کا ہمیں پتہ چل گیا۔

1963 میں میں واپس کراچی آگیا کیونکہ کالج میں جو ہے اس زمانے میں حاضری کا بڑا سنجیدہ مسئلہ ہوا کرتا تھا۔ کچھ لوگوں کا ایک گروپ تھا جو ٹیچروں کو تنگ کرتا تھا ہمارے انگلش کے ایک ٹیچر تھے ان کی کلاس میں ہم لوگ ضرور جاتے تھے، لیکن ان کو تنگ کرنا ہوتا تھا تو انھوں نے یہ کیا کہ مسلسل مجھے غیر حاضر مارک کرتے رہے سو جب امتحان کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ ہماری حاضریاں کم ہیں۔

ہم پرنسپل کے پاس گئے چونکہ میں کالج کی ٹیم سے فٹبال کھیلتا تھا توکچھ لیکچروں کی رعایت ہوجاتی تھی اسپورٹس مین کو چنانچہ جب میں گیا پرنسپل کے پاس تو انھوں نے رجسٹر منگوایا اورکہا کہ آپ تو اس میں ایک دن بھی نہیں گئے میں نے کہا کہ اس میں تو میں ضرور جاتا تھا کیونکہ اس میں ہم تنگ کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اب ہم کچھ نہیں کرسکتے بس آپ سپلیمنٹری میں بیٹھیے، اس پر میں نے کہا یہ تو بہت ہی غلط طریقہ کار ہے۔ میں نے کہا کہ اب میں نہیں بیٹھوں گا امتحان میں۔ میں نے اپنے والدین سے کہا کہ اب میں کام کروں گا ،میں نے نہیں پڑھنا ہے۔ انھوں نے کہا، اچھا ٹھیک ہے، تم کراچی جاؤ اورکام کرو ۔ یہاں کراچی میں ایک فیکٹری میں میرے بہنوئی کام کرتے تھے ایک کزن تھے تو میں کراچی آگیا اور فیصلہ کیا کہ میں فیکٹری میں کام کروں گا چنانچہ میں نے فیکٹری میں کام شروع کردیا۔ ایک سال میں نے نہیں پڑھا فیکٹری میں اپرنٹس کے طور پر مینول کام کرتا تھا وہ مجھے ویسے بھی اچھا لگتا تھا۔    (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔