ارون دھتی پر مقدمہ

عثمان دموہی  اتوار 30 جون 2024

مودی کی ڈکٹیٹر شپ ، اقلیتوں و دلتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کے خلاف ارون دھتی رائے نے شروع سے ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ حالانکہ اس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے وہ ایک سماجی اور انسانی حقوق کی سچی اور متحرک علمبردارکے طور پر پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے۔ بھارت میں منعقدہ حالیہ انتخابات میں ارون دھتی نے مودی کی نفرت کی پالیسی کے خلاف بلا خوف و خطر آواز بلند کی تھی۔

حالیہ الیکشن میں وہ ایک بڑی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ’’ اس بار چار سو پار ‘‘ کا نعرہ لگا رہا تھا مگر اسے اس کی خواہش کے مطابق چار سو نشستیں ملنے کے بجائے صرف 230 پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ الیکشن میں شکست کا بدلہ لینے کے لیے اب اس نے خود پر اور اپنی پارٹی بی جے پی پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے۔ اس کا سب سے پہلا شکار ارون دھتی رائے بنی ہیں۔ ان پر چودہ سال قبل کشمیریوں کے حق میں دیے گئے بیان کو بہانہ بنا کر اس پر ملک سے غداری کرنے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے جرم میں مقدمہ چلانے کے لیے دہلی کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل وی کے سکسینا سے اجازت طلب کی تھی۔

گورنر نے بی جے پی کی درخواست کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ارون دھتی رائے اور ان کے ساتھ شیخ شوکت حسین پر UAPA کے تحت مقدمہ چلانے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ مقدمہ دراصل 2010 میں بی جے پی کے ایک رہنما نے دائرکیا تھا۔ اس ایف آئی آر کو دہلی کے ایک تھانے میں چودہ سال قبل دائر کیا گیا تھا اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی تحریک آزادی عروج پر تھی۔

ادھر بھارتی حکومت کشمیریوں کو آزادی سے روکنے کے لیے ان پر طرح طرح کے ظلم کے پہاڑ توڑ رہی تھی مگر کشمیریوں کی تحریک روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی تھی۔ پوری دنیا کے اخباروں میں کشمیریوں کی تحریک اور ان پر بھارتی فوج کے ڈھائے گئے مظالم کی خبریں چھپ رہی تھیں۔ ادھر بھارت میں کسی بھی شخص میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ بھارتی حکومت کی کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کر سکتا اور بھارت کے کشمیر کو زبردستی اپنے نقشے میں شامل کرنے پر اعتراض یا کوئی بیان دے سکتا۔ یہ ارون دھتی کی ہمت تھی کہ اس نے بھارتی حکومت کو سلامتی کونسل میں پاس کی گئی کشمیر سے متعلق قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے جموں کشمیر پر بھارتی قبضے کو ناجائز قرار دیا اور بھارت سرکار کو مشورہ دیا کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود اختیاری دے۔

انھیں یہ حق دیا جائے کہ وہ آیا پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں یا پھر بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ارون دھتی نے بھارتی حکومت کو کشمیریوں پر ظلم و ستم بند کرنے اور بھارتی فوجوں کو کشمیر سے واپس بلانے کا بھی مشورہ دیا تھا۔ اس بیان پر بھارتی حکومت نے سخت نوٹس لیا تھا اور حکومتی اخبار اور ٹی وی چینلز نے اس کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی مگر ارون دھتی کسی بھی ٹرولنگ اور دھمکی سے ذرا خوف زدہ نہیں ہوئی اور اپنے بیان پر چٹان کی طرح ڈٹی رہی۔

ارون دھتی بھارتی مسلمانوں پر مودی حکومت کی نفرتی پالیسی کے بھی سخت خلاف ہے وہ گاہے بگاہے اس سلسلے میں بھی آواز اٹھاتی رہتی ہے۔ مودی کے خلاف بھارتی اخباروں میں اس کے کئی مضامین شایع ہو چکے ہیں، عالمی اخبارات میں بھی اسی موضوع پر مضامین شایع ہوئے ہیں اور عالمی چینلز پر اس نے بات بھی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جس طرح ہٹلر نے یہودیوں کے خلاف سخت نفرت پھیلائی تھی اور پھر ان پر ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ توڑے تھے کہ جو عالمی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ آج کے یہودی ہٹلر کے اسی ظلم و ستم کی بنیاد پر خود کو قابل رحم خیال کرتے ہیں۔ ان کی اسی قابل رحم حالت پر ترس کھا کر ہی امریکا اور برطانیہ نے ان بے وطن در در کی ٹھوکریں کھانے والوں کو اسرائیل جیسی آزاد مملکت عطا کردی تھی مگر نیتن یاہو کے ظالمانہ رویے نے یہودیوں کو ظالم قوم بنا دیا ہے۔ اب تو یہ خیال کیا جانے لگا ہے کہ جتنا ظلم ہٹلر نے یہودیوں پر نہیں ڈھایا ہوگا اس سے کئی گنا زیادہ ظلم فلسطینی مسلمانوں پر ڈھایا جا رہا ہے۔ دراصل مودی نے بھی ہٹلر کی پالیسی کو اپنا کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہوا ہے مگر مسلمانوں اور یہودیوں میں بہت فرق ہے۔

ارون دھتی بھارت کو ایک مذہبی ملک بنانے کے بجائے گاندھی اور نہرو کے فلسفے کے مطابق ایک سیکولر ملک برقرار رکھنے کی حامی ہے، وہ خود بھی سیکولر نظریات کی حامل ہے۔ وہ دنیا میں امن و امان قائم رکھنے، انسانی حقوق کا احترام کرنے اور بھارت میں تمام قوموں کو یکساں مواقع اور انصاف فراہم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، وہ مختلف عالمی تنظیموں کی رکن ہے، وہ کئی کتابوں کی مصنف ہے۔ ان میں آزادی، کشمیردا کیس، دی کاسٹ آف لونگ، منسٹری آف آٹ موسٹ ہیپی نیس شامل ہیں مگر اس کی سب سے کامیاب اور مقبول کتاب ’’ گاڈ آف اسمال تھنگ‘‘ ہے، اس ناول پر اسے عالمی ایوارڈ مل چکا ہے۔

اسے لینن پرائز بھی مل چکا ہے۔ وہ 1961 میں آسام کے شہر شیلانگ میں پیدا ہوئی تھی مگر شامی کرسچن باپ سے والدہ کی علیحدگی کے بعد اپنی والدہ کے آبائی صوبے کیرالہ منتقل ہوگئی تھی جہاں اس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی بعد میں وہ دہلی چلی گئی جہاں اس نے اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ اس کی کشمیر پر لکھی گئی کتاب کشمیریوں کے کیس کی مکمل داستان ہے۔ اس کتاب کے ذریعے اس نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کر کے کشمیریوں پر بڑا احسان کیا ہے۔ مودی آرایس ایس کی مسلم کش اور توسیع پسندانہ پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔ وہ مسلمانوں کا مخالف ہے جس کی مثال اس بات سے دی جاسکتی ہے کہ اس کی موجودہ کابینہ میں کوئی مسلمان وزیر نہیں ہے حالانکہ اس کابینہ میں وزیروں کی تعداد 75 ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔