سسٹم اور عوامی نمایندے

ایڈیٹوریل  اتوار 30 جون 2024
(فوٹو: فائل)

(فوٹو: فائل)

وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز مختلف مواقع پر ملک کی معاشی صورت حال، امن وامان اور صوبوں کے مسائل کے حوالے سے باتیں کی ہیں، میڈیا کے مطابق وزیراعظم نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے گفتگو کی، اس دوران انھوں نے کہا کہ بجٹ اجلاس میں حکومت، اتحادی ارکان اور حزب اختلاف نے بھرپور حصہ لیا، ہم نے پوری کوشش کی کہ عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیں، فیڈرل بجٹ میں تنخواہ دار طبقے، پنشنرز اور مزدوروں کو ریلیف دیا ہے، صحت، تعلیم، زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا ہے کہ ایسا ممکن نہیں کہ غریب ٹیکس دے اور اشرافیہ کو ٹیکس مراعات دی جائیں۔

وزیراعظم کی یہ بات درست ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ غریب ٹیکس دے اور اشرافیہ کو ٹیکس مراعات دی جاتی رہیں۔ موجودہ حکومت کی معاشی ترجیحات اس کے بجٹ سے عیاں ہو رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سی ٹیکس اصلاحات اور نئے ٹیکس قوانین سامنے آتے ہیں جن کے ذریعے اشرافیہ کا وہ حصہ جو ٹیکس نیٹ سے باہر ہے یا مکمل ٹیکس ادا نہیں کر رہا، اس سے پورا ٹیکس وصول کیا جا سکے۔

میڈیا نے یہ بھی بتایا ہے کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے کہا کہ 2010 میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت خیبرپختونخوا کو 590 ارب روپے دیے گئے کیونکہ اس صوبے کے عوام دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں اور انھوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، اس کے باوجود وہاں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) تاحال مکمل نہیں ہو سکا۔ بہرحال خیبرپختونخوا چونکہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ لگتا ہے، اس لیے یہ صوبہ دہشت گردوں کا سب سے پہلے مقابلہ کرتا ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتوں کی ترجیحات اور قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے بات ضرور ہونی چاہیے۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے مالی اور انتظامی معاملات میں بڑی حد تک خودمختار ہو چکے ہیں لیکن دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں صوبائی سول سیکیورٹی ایجنسیوں کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ اگر خیبرپختونخوا پولیس، سی ٹی ڈی اور ان اداروں کا انٹیلی جنس سسٹم دہشت گردوں پر گرفت نہیں کر سکا تو باقی صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی سول سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی ان کو ملنے والے بجٹ کے مطابق نہیں ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ خیبرپختوتنخوا کی حکومت کو سیکیورٹی معاملات میں زیرو ٹالرنس پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ خیبرپختونخوا پولیس کو پنجاب پولیس کے معیار اور لیول پر ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے، پولیس کے انٹیلی جنس سسٹم کو فول پروف بنانا بھی صوبائی حکومت اور پولیس کے اعلیٰ افسران کی ذمے داری ہے۔

میڈیا پر بتایا گیا ہے کہ گزشتہ روز وزیراعظم میاں شہباز شریف کی زیر صدارت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے امور پر اہم اجلاس ہوا ہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملکی معیشت میں ایف بی آر کا کلیدی کردار ہے۔ انھوں نے ہدایت کی کہ ایف بی آر کے مختلف عدالتوں اور ٹریبونلز میں زیرالتوا کیسز کے حوالے سے بہترین وکلاء کی خدمات حاصل کی جائیں ۔ انھوں نے ہدایت کی کہ ٹیکس سے متعلق مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے ان لینڈ ریونیو ایپیلیٹ ٹریبونلز کے ساتھ کسٹمز ایپیلیٹ ٹریبیونلز کا قیام بھی عمل میں لایا جائے۔

پاکستان میں ٹیکس سسٹم اور ٹیکس قوانین میں غیرمعمولی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ایسے بہت سے سیکٹرز ہیں، جنھیں ٹیکسوں میں رعایت دی گئی ہے یا انھیں ٹیکس استثنیٰ دیا گیا ہے۔ ان سیکٹرز کی پراگریس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ نجی کمرشل تعلیمی اداروں، نجی کمرشل اسپتالوں، وقف اداروں، خیراتی اور فلاحی اداروں کو مختلف قسم کی ٹیکس سہولیات پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ نجی شعبے میں جو تعلیمی ادارے، اسپتال اور لیبارٹریز کام کر رہی ہیں، وہ ایک طرح کا کاروبار ہے۔

ریاست اور حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام کرنے والے نجی اداروں کے لیے جو قانون بنا رکھا ہے، اس کے تحت وہ اپنی فیسیں اور معاوضے آزادانہ طور پر طے کرتے ہیں۔ ممکن ہے اس حوالے سے کوئی قانون ہو لیکن عملاً صورت حال یہی ہے کہ نجی تعلیمی ادارے اپنی سہولت کے مطابق بچوں کے والدین سے فیس لیتے ہیں۔ یہ نجی تعلیمی ادارے اپنی یونیفارم، کتابیں اور سٹیشنری وغیرہ خود دیتے ہیں۔ اسی طرح نجی اسپتال مریضوں سے اپنی مرضی کی فیس لیتے ہیں۔ کمرے کا کرایہ، میڈیکل ٹیسٹوں کی فیس، ڈاکٹرز کے وزٹ اور نرسز کے وزٹس کی فیسیں خود ہی طے کرتے ہیں۔

تعلیم اور صحت کے نجی شعبے کو ضرور سہولیات اور مراعات دی جائیں لیکن ریاست اور حکومت کے لیے مریضوں اور ان کے لواحقین کے مفادات کا تحفظ پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ آئین پاکستان کا بھی یہی تقاضا ہے۔ حکومت کو نجی شعبے میں قائم تعلیمی اداروں کی کیٹیگری بنا کر فیسوں کے لیے زیادہ سے زیادہ کی شرح مقرر کر کے کیپ لگانا چاہیے۔ نجی تعلیمی اداروں کو یونیفارم مقرر کرنے، کتابیں اور سٹیشنری خود فراہم کرنے سے منع کر دیا جائے۔ نجی شعبے کے اسکولوں کے لیے وہی یونیفارم مقرر کی جائے جو سرکاری اسکولوں کے بچوں کے لیے مقرر ہے۔ اسی طرح نجی اسپتالوں اور لیبارٹریز کے ٹیسٹوں کی فیسوں، کمرے کے کرائے اور دیگر معاملات کے حوالے سے ایک حد مقرر کی جانی چاہیے۔ ایسا نہیں ہو چاہیے کہ ایک فریق من مرضی کرے اور دوسرا فریق بے بسی کی تصویر بنا رہے۔

قومی اسمبلی نے جمعہ کو وفاقی بجٹ کی منظوری دے دی ہے۔ اپوزیشن نے اس بجٹ کے حوالے سے جو نکات اٹھائے ہیں، ان پر غور کیا جانا چاہیے۔ سارا ملبہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں پر ڈالنے کی پالیسی ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اگر آئی ایم ایف کے پاس جا رہا ہے، تو اس کی وجوہات پاکستان کی اپنی پیدا کردہ ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں سے تو بھارت، ویت نام، جنوبی کوریا، سنگاپور اور ملائیشیا نے بھی قرضے لیے ہیں۔ اگر یہ ممالک قرضے لے کر انھیں واپس کر سکتے ہیں اور اپنی معیشت کی ترقی کی رفتار کو بڑھا سکتے ہیں، تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکا۔ قومی اسمبلی میں اس سوال کا جواب حکمران جماعت اور اس کی اتحادی جماعتوں کو دینا چاہیے۔ اپوزیشن کو اس کا جواب مانگنا چاہیے۔

اراکین اسمبلی کی تنخواہیں ومراعات میں اضافہ کرنا عوام کے مالی مفادات کے برعکس ہے۔ عوام کے منتخب نمایندے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں جس قسم کی زبان استعمال کر رہے ہیں، اس سے ان کی سیاسی تربیت اور ویژن کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ اصولی طور پر تو عوام کے منتخب نمایندوں کو ایئرکنڈیشن ماحول بھی مہیا نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ ملک میں بجلی انتہائی مہنگی ہو چکی ہے۔ اب حکومت ایک بار پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے جا رہی ہے۔ ایسی صورت میں ایک غریب ملک کے عوامی نمایندوں کا سوٹڈ بوٹڈ ہو کر اسمبلی کے اے سی ہالز میں براجمان ہونا، اچھا نہیں لگتا۔

ویسے بھی یہ ایوان بدکلامی اور بدتہذیبی پر مبنی تقاریر کے لیے نہیں ہے بلکہ عوام اور ملک کے مفادات میں قانون سازی کے لیے بنا ہے۔ بجلی کی مہنگائی نے عوام کی مالیت سکت کو انتہائی کمزور کر دیا ہے۔ میڈیا کی خبر کے مطابق اسلام آباد میں آل پاکستان انجمن تاجران نے بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف یکم جولائی کو ملک بھر میں احتجاج کی کال دے دی۔ یہ حقیقت ہے کہ بجلی کی قیمت اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ متوسط طبقہ بل ادا کرنے کے قابل نہیں رہا ہے۔ بجلی کے فی یونٹ نرخ طے کرنے اور مختلف سلیبز بنانے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے، وہ بھی نظرثانی کا متقاضی ہے۔ پہلے 200یونٹ پر رعایت ہے لیکن اگر یونٹ 201 ہو جائیں تو قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور اگلے6مہینے اسی ٹیرف پر بل کی وصولی کی جاتی ہے، یہ سلیب سسٹم ختم کر کے تمام یونٹس کی قیمت کو یکساں ہونا چاہیے۔

پاکستان جن مالی اور امن وامان کے مسائل میں گرفتار ہے، ان سے نکلنے کے لیے پاکستان کی سیاسی قیادت کو بلند ترین ذہانت، تدبر، زیرکی اور سیاسی شعور کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ پاکستان کے پاس وسائل بھی ہیں، اعلیٰ درجے کے ہنرمند بھی ہیں، محنتی اور جفاکش مزدور اور کسان بھی ہیں، ضرورت ان وسائل اور افرادی قوت کو استعمال میں لانے کے لیے ابہام، اشتباہ اور ذومعنیت سے پاک ریاستی نظام کی ہے۔ جاپان، جنوبی کوریا اور چین کی قیادت نے سوائے نظام حکومت اور نظام انصاف کو متوازن بنانے کے کچھ نہیں کیا۔ اگر ریاست، حکومت اور اسٹیٹ آرگنز حقوق وفرائض، سزا اور جزا کے ایک متوازن میزان میں طول کر سسٹم میں جکڑے جائیں تو ہر چیز ایک خودکار مشین بن جائے گی اور اس کا کوئی پرزہ بھی اس سسٹم سے باہر نہیں نکل سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔