پاکستانی کرکٹرز کی تضحیک کا سلسلہ بند ہونا چاہیے

اب آپ ٹیم کو جتنا بھی بْرا بھلا کہہ لیں ورلڈکپ تو واپس نہیں آ سکتا


فوٹو: فائل

ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم کی شکست کا تمام شائقین کو بے حد دکھ ہے۔ ہم نے امیدیں بہت زیادہ لگا لی تھیں جو بدقسمتی سے پوری نہ ہو سکیں۔ اب کھلاڑیوں کو بْرا بھلا کہہ کر شائقین اور میڈیا اپنا غصہ ٹھنڈا کر رہے ہیں، البتہ اس میں کچھ لوگوں کا انداز درست نہیں، کرکٹرز کی تصحیک کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔

یہ ٹھیک ہے کہ ٹیم بہت خراب کھیلی، کھیل پر تنقید جائز ہے لیکن ذاتیات کو نشانہ بنانا کسی صورت مناسب نہیں۔ امریکا میں جب حارث رؤف اپنے اہلیہ کے ساتھ ہوٹل سے باہر جا رہے تھے تو جس طرح کا سلوک ان سے روا رکھا گیا اس کی کوئی بھی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا، کھیل میں ہار جیت ہوتی ہے ہمیں اچھی اسپورٹس مین اسپرٹ سے شکست کو تسلیم کرنا چاہیے۔

اب آپ ٹیم کو جتنا بھی بْرا بھلا کہہ لیں ورلڈکپ تو واپس نہیں آ سکتا، اس سے اچھا یہ ہے کہ جوخامیاں نظر آئیں ان کی نشاندہی کریں تاکہ پی سی بی کو مستقبل میں بہتری کے اقدامات کرنے میں مدد مل سکے، میں سابق کرکٹرز سے بھی یہی درخواست کروں گا کہ اب جو ہوگیا اس پر مزید بات کرنے کے بجائے مستقبل میں کیا کرنا چاہیے اس حوالے سے تجاویز دیں، یہ کھلاڑی ہمارے اپنے ہم وطن ہیں، ہم ان پر اتنی زیادہ تنقید کریں گے تو اعتماد مکمل ختم ہو جائے گا، اس صورت میں آئندہ برس ہوم گراؤنڈز پر شیڈول چیمپئنز ٹرافی میں وہ کیسے اچھا پرفارم کر سکیں گے؟ طویل عرصے بعد ملک میں کوئی آئی سی سی ایونٹ ہونے والا ہے، اس سے قبل ہمیں ٹیم کو سیٹ ہونے کا وقت دینا چاہیے، تب ہی اپنے شائقین کے سامنے یہ کھلاڑی اچھا پرفارم کر کے ٹیم کو فتح دلانے کی کوشش کرسکیں گے۔

میں نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے قبل بھی لکھا تھا کہ جب تک ٹیم 200 رنز بنانے کے قابل نہیں ہوئی میچز نہیں جیت سکے گی، یہ ٹھیک ہے کہ امریکا میں کنڈیشنز اتنے بڑے اسکور کی نہیں تھیں مگر کسی میچ میں کم از کم 160 رنز تو بناتے، اس ورلڈکپ میں 500 چھکوں کا ریکارڈ بن گیا، ان میں ہمارا حصہ کیا رہا؟ ہمیں ایسے پاورہٹرز تلاش کرنے ہوں گے جو چھکے لگانے میں مہارت رکھتے ہوں، تب ہی ہم اہم ایونٹ میں مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں گے، معیاری آل راؤنڈرز اور اسپنرز کی تلاش بھی ضروری ہے، ٹیم میں فائٹنگ اسپرٹ کا فقدان نظر آیا۔

آپ افغانستان کی مثال لیں، اسے سابق غیرملکی کرکٹرز اب بھارت کے بعد دوسری بہترین ایشین ٹیم قرار دے رہے ہیں، وہاں زیادہ سہولیات موجود نہیں، کھلاڑیوں کو معاوضہ بھی دیگر ممالک سے بہت کم ملتا ہے، اس کے باوجود وہ وطن کی محبت سے سرشار ہو کر میدان میں جان لڑا دیتے ہیں جس کی وجہ سے کامیابیاں بھی ملیں، ہمیں بھی اپنی ٹیم میں یہی جذبہ لانا ہوگا، ورلڈ کپ میں اگر امریکا سے اپ سیٹ شکست نہ ہوتی تو پاکستان ٹیم سپر8 میں پہنچ جاتی، پھر مزید آگے بھی جا سکتی تھی، ایسا نہ ہونے کا جتنا ہمیں دکھ ہے اس سے کہیں زیادہ کھلاڑیوں کو بھی ہو گا، ایسے میں انھیں احساس دلانا چاہیے کہ ٹھیک ہے جو غلطیاں ہو گئیں انھیں دور کر کے اب آئندہ اچھا پرفارم کرنا، پی سی بی کی جانب سے کئی اشارے تو دیے گئے لیکن اب تک ایسا کوئی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا جس سے لگے کہ ورلڈکپ میں ہار کے بعد آپریشن شروع ہوگیا۔

حکام نے صبر کا دامن تھاما ہوا ہے، اب دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے، فی الحال تو کوئی ٹی ٹوئنٹی یا ون ڈے میچ نہیں ہونا البتہ اگست میں بنگلہ دیش سے ٹیسٹ سیریز ہوگی، اس میں شان مسعود کو کپتان برقرار رکھا جائے گا یا کوئی اور سامنے نہیں آئے گا، ابھی کچھ واضح نہیں ہے، بنگلہ دیش نے بھی ورلڈکپ میں بہت مایوس کن کارکردگی دکھائی، ان کی ٹیسٹ ٹیم بھی زیادہ مضبوط نہیں، ایسے میں میرا تو مشورہ یہ ہوگا کہ ڈومیسٹک فرسٹ کلاس کرکٹ میں اچھا کھیل پیش کرنے والے نوجوان کھلاڑیوں کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیا جائے، بعض سینئرز کو آرام کرایا جا سکتا ہے تاکہ وہ تازہ دم ہو کر مستقبل کے امتحانوں کیلئے تیار رہیں، مجھے اپنی ٹیم پر یقین ہے کہ وہ کم بیک ضرور کرے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔