نہروں میں نہانے سے اموات شہری بیماریوں کا شکار ہونے لگے
موسم گرما میں لاہور کینال ملک کے سب سے بڑے سوئمنگ پول کی شکل اختیار کر جاتی ہے
گرمیوں میں شہریوں کی بڑی تعداد نہانے کے لیے نہروں، دریاؤں اور جھیلوں کا رخ کرتی ہے۔ موسم گرما میں لاہور کینال ملک کے سب سے بڑے سوئمنگ پول کی شکل اختیار کر جاتی ہے تاہم نہروں اور دریاؤں میں نہاتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے سے سیکڑوں اموات ہوتی ہیں۔
لاہور کینال سمیت کئی نہروں میں سیوریج کا پانی بھی شامل ہوتا ہے جس کی وجہ سے نہر میں نہانے والے جلدی بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ملک غلام رسول لاہور کے علاقہ باٹاپور کے رہائشی ہیں۔ وہ اکثر بی آربی نہر کنارے آکر بیٹھ جاتے اور یہاں نہانے والوں کو منع کرتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا جواں سالہ بیٹا گزشتہ برس بی آربی نہر میں نہاتے ہوئے ڈوب گیا تھا۔ ان کے دل میں جواں سالہ بیٹے کی موت کا زخم آج بھی تازہ ہے۔
ملک غلام رسول بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال جون کا ہی مہینہ تھا، ان کا 17 سال کا بیٹا محمد ارسلان بی آر بی نہر میں دیگر لڑکوں کے ساتھ نہا رہا تھا۔ دوستوں نے بتایا کہ ارسلان نے نہر میں سر کے بل چھلانگ لگائی اور پھر واپس نہیں آیا، دوستوں نے کافی تلاش کیا مگر وہ نہ ملا، بی آر بی نہر چونکہ کافی گہری ہے اور پانی بھی کافی تیز چلتا ہے۔ ملک غلام رسول کے مطابق ان کے بیٹے کی لاش دوسرے روز نہر کے پل کے نیچے جھاڑیوں میں پھنسی ہوئی ملی تھی۔
بی آر بی اور لاہور کینال سمیت مختلف شہروں میں نہروں اور دریاؤں میں نہاتے ہوئے ہر سال درجنوں افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ محکمہ انہار کی طرف سے بی آربی کینال سمیت مختلف نہروں میں نہانے پر پابندی کے بورڈ ضرور لگائے گئے ہیں لیکن ان پرعمل درآمد نہیں ہوتا ہے جبکہ کبھی کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آجائے تو پھر چند دن کے لیے پولیس تعینات کرکے نہر اور دریا میں نہانے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو جاتی ہے۔
پنجاب ریسکیو ایمرجنسی سروس سے حاصل کیے اعداد و شمار کے مطابق یکم جنوری 2019 سے 31 دسمبر 2023 کے دوران نہروں میں نہاتے ہوئے 2545، دریاؤں میں نہاتے ہوئے 796 جبکہ تالاب، جھیلوں اور سوئمنگ پولز میں ڈوبنے سے 620 افراد جاں بحق ہوئے۔ لاہور رواں برس کے دوران نہر میں ڈوبنے سے 11 افراد جبکہ دریا اور تالاب میں ڈوبنے سے ایک، ایک فرد کی موت ہوچکی ہے۔
نہروں میں نہاتے ہوئے ڈوبنے سے سب سے زیادہ 196 اموات فیصل آباد میں ہوئیں، اس کے بعد گوجرانوالہ میں 161، شیخوپورہ میں 156، ڈی جی خان میں 145، رحیم یارخان میں 129، سیالکوٹ میں 121، ساہیوال میں 118، خانیوال میں 115، وہاڑی میں 104 اور لاہور میں 101 افراد جاں بحق ہوئے۔
دریاؤں میں ڈوبنے سے اموات کی بات کی جائے تو جہلم میں 63، مظفرگڑھ میں 57، گجرات میں 52، ڈی جی خان میں 46، اٹک میں 41، چناب میں 41، میانوالی میں 41 اور لاہور میں 38 اموات ہوئیں۔
پنجاب ریسکیو ایمرجنسی سروس 1122 کے ترجمان فاروق احمد نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نہروں اور دریاؤں میں ڈوبنے کے واقعات کی سب سے بڑی وجہ بے احتیاطی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ نہر اور دریا میں نہاتے ہوئے یا کشتی کی سواری کرتے ہوئے حفاظتی جیکٹ نہیں پہنتے۔ انہوں نے لاہور کینال کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ یہاں اکثر دیکھتے ہیں کہ نوجوان پانی میں اونچی چھلانگ لگاتے ہیں جب وہ پانی کے اندر جاتے ہیں تو ممکن ہے ان کا سر نیچے کسی پتھر یا کسی اور چیز سے ٹکرا جائے، یا پھر چھلانگ لگانے کے بعد ہواس قابو میں نہ رہیں اورغوطہ آجائے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مقامات پر حفاظتی اقدامات اٹھانا انتہائی ضرروی ہیں۔
سول ڈیفنس کے ماہر محمد اقبال کا کہنا ہے کہ گرمیوں میں شہریوں کو نہروں، دریاؤں اور تالابوں میں نہانے سے روکنا مکمل طور پر تو ممکن نہیں ہے لیکن حکومت کو چاہیے کہ لاہور کینال سمیت مختلف نہروں میں شہریوں کے نہانے کے لیے جگہیں مختص کرے، ان مقامات کے علاوہ نہانے پر مکمل پابندی لگائی جائے جو مقامات مختص کیے جائیں وہ ایریا کے حساب سے لائف گارڈز تعینات ہوں۔ سول ڈیفنس، ریسکیو1122 سے لائف گارڈ لیے جا سکتے ہیں یا پھر مئی سے اگست تک پانچ ماہ کے لیے عارضی بنیادوں پر سیف گارڈ بھرتی کیے جائیں۔ اسی طرح جتنے بھی پرائیویٹ تالاب، سوئمنگ پولز ہیں وہاں بھی لائگ گارڈز لازمی تعینات ہونے چاہیں۔
لاہور کینال سمیت چند ایک نہروں میں سیوریج کا پانی بھی شامل ہوتا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق ایسے پانی میں نہانے سے مختلف اقسام کے جلدی امراض پیدا ہوسکتے ہیں۔ اول تو ایسے پانی میں نہانے سے گریز کرنا ضروری ہے تاہم اگر گرمی کی وجہ سے نہانا مجبوری ہے تو پھر واپس گھر آکر صاف پانی سے شاور لازمی کریں۔
لاہور کینال سمیت کئی نہروں میں سیوریج کا پانی بھی شامل ہوتا ہے جس کی وجہ سے نہر میں نہانے والے جلدی بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ملک غلام رسول لاہور کے علاقہ باٹاپور کے رہائشی ہیں۔ وہ اکثر بی آربی نہر کنارے آکر بیٹھ جاتے اور یہاں نہانے والوں کو منع کرتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا جواں سالہ بیٹا گزشتہ برس بی آربی نہر میں نہاتے ہوئے ڈوب گیا تھا۔ ان کے دل میں جواں سالہ بیٹے کی موت کا زخم آج بھی تازہ ہے۔
ملک غلام رسول بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال جون کا ہی مہینہ تھا، ان کا 17 سال کا بیٹا محمد ارسلان بی آر بی نہر میں دیگر لڑکوں کے ساتھ نہا رہا تھا۔ دوستوں نے بتایا کہ ارسلان نے نہر میں سر کے بل چھلانگ لگائی اور پھر واپس نہیں آیا، دوستوں نے کافی تلاش کیا مگر وہ نہ ملا، بی آر بی نہر چونکہ کافی گہری ہے اور پانی بھی کافی تیز چلتا ہے۔ ملک غلام رسول کے مطابق ان کے بیٹے کی لاش دوسرے روز نہر کے پل کے نیچے جھاڑیوں میں پھنسی ہوئی ملی تھی۔
بی آر بی اور لاہور کینال سمیت مختلف شہروں میں نہروں اور دریاؤں میں نہاتے ہوئے ہر سال درجنوں افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ محکمہ انہار کی طرف سے بی آربی کینال سمیت مختلف نہروں میں نہانے پر پابندی کے بورڈ ضرور لگائے گئے ہیں لیکن ان پرعمل درآمد نہیں ہوتا ہے جبکہ کبھی کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آجائے تو پھر چند دن کے لیے پولیس تعینات کرکے نہر اور دریا میں نہانے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو جاتی ہے۔
پنجاب ریسکیو ایمرجنسی سروس سے حاصل کیے اعداد و شمار کے مطابق یکم جنوری 2019 سے 31 دسمبر 2023 کے دوران نہروں میں نہاتے ہوئے 2545، دریاؤں میں نہاتے ہوئے 796 جبکہ تالاب، جھیلوں اور سوئمنگ پولز میں ڈوبنے سے 620 افراد جاں بحق ہوئے۔ لاہور رواں برس کے دوران نہر میں ڈوبنے سے 11 افراد جبکہ دریا اور تالاب میں ڈوبنے سے ایک، ایک فرد کی موت ہوچکی ہے۔
نہروں میں نہاتے ہوئے ڈوبنے سے سب سے زیادہ 196 اموات فیصل آباد میں ہوئیں، اس کے بعد گوجرانوالہ میں 161، شیخوپورہ میں 156، ڈی جی خان میں 145، رحیم یارخان میں 129، سیالکوٹ میں 121، ساہیوال میں 118، خانیوال میں 115، وہاڑی میں 104 اور لاہور میں 101 افراد جاں بحق ہوئے۔
دریاؤں میں ڈوبنے سے اموات کی بات کی جائے تو جہلم میں 63، مظفرگڑھ میں 57، گجرات میں 52، ڈی جی خان میں 46، اٹک میں 41، چناب میں 41، میانوالی میں 41 اور لاہور میں 38 اموات ہوئیں۔
پنجاب ریسکیو ایمرجنسی سروس 1122 کے ترجمان فاروق احمد نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نہروں اور دریاؤں میں ڈوبنے کے واقعات کی سب سے بڑی وجہ بے احتیاطی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ نہر اور دریا میں نہاتے ہوئے یا کشتی کی سواری کرتے ہوئے حفاظتی جیکٹ نہیں پہنتے۔ انہوں نے لاہور کینال کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ یہاں اکثر دیکھتے ہیں کہ نوجوان پانی میں اونچی چھلانگ لگاتے ہیں جب وہ پانی کے اندر جاتے ہیں تو ممکن ہے ان کا سر نیچے کسی پتھر یا کسی اور چیز سے ٹکرا جائے، یا پھر چھلانگ لگانے کے بعد ہواس قابو میں نہ رہیں اورغوطہ آجائے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مقامات پر حفاظتی اقدامات اٹھانا انتہائی ضرروی ہیں۔
سول ڈیفنس کے ماہر محمد اقبال کا کہنا ہے کہ گرمیوں میں شہریوں کو نہروں، دریاؤں اور تالابوں میں نہانے سے روکنا مکمل طور پر تو ممکن نہیں ہے لیکن حکومت کو چاہیے کہ لاہور کینال سمیت مختلف نہروں میں شہریوں کے نہانے کے لیے جگہیں مختص کرے، ان مقامات کے علاوہ نہانے پر مکمل پابندی لگائی جائے جو مقامات مختص کیے جائیں وہ ایریا کے حساب سے لائف گارڈز تعینات ہوں۔ سول ڈیفنس، ریسکیو1122 سے لائف گارڈ لیے جا سکتے ہیں یا پھر مئی سے اگست تک پانچ ماہ کے لیے عارضی بنیادوں پر سیف گارڈ بھرتی کیے جائیں۔ اسی طرح جتنے بھی پرائیویٹ تالاب، سوئمنگ پولز ہیں وہاں بھی لائگ گارڈز لازمی تعینات ہونے چاہیں۔
لاہور کینال سمیت چند ایک نہروں میں سیوریج کا پانی بھی شامل ہوتا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق ایسے پانی میں نہانے سے مختلف اقسام کے جلدی امراض پیدا ہوسکتے ہیں۔ اول تو ایسے پانی میں نہانے سے گریز کرنا ضروری ہے تاہم اگر گرمی کی وجہ سے نہانا مجبوری ہے تو پھر واپس گھر آکر صاف پانی سے شاور لازمی کریں۔