ڈھلتے سورج کی کرنوں میں سنہرا دکھائی دینے والے الحمرا محل کا نظارہ بھولتا نہیں

قرطبہ پیلس ایک محل کی باقیات سے بنایا گیا ہے جو کسی اور جگہ تھا اور تباہ کر دیا گیا ۔

فوٹو : فائل

پانچویں قسط

ہم دریائے درو کے ساتھ ساتھ اوپر کو چڑھتے رہے، البیسین کا علاقہ ہمارے بائیں جانب تھا جبکہ دریا دائیں جانب تھا۔ البیسین کے علاقے سے سامنے پہاڑی پر الحمرا کا محل نظر آتا تھا ۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ البیسین کی پہاڑی کی چوٹی، جس کی جانب ہم پیدل جا رہے تھے، وہاں سے مخالف پہاڑی جس پر الحمرا واقع ہے وہاں سورج غروب کا منظر قابل دید ہے ۔ سورج الحمرا کے عقب میں ہوتا ہے اور سورج کی سرخی الحمرا کے حسن میں ایک عجب اضافہ کرتی ہے، سو ہم اس مقام کی جانب پیدل چڑھتے جا رہے تھے۔

راہ میں البیسین کی مختلف گلیوں کی تصاویر اتارتے رہے کہ کہتے ہیں کہ ایک تصویر ہزار الفاظ کے برابر ہے ۔ مسافر کے خیال میں تو ایسا نہیں ہے، یہ مقام مقام کی بات ہے ۔ کہیں تصویر الفاظ پر بھاری ہو جاتی ہے مگر بعض جگہ پر الفاظ کو تصویر پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ خیر ہم البیسین کی گلیوں کی تصویریں اتارتے رہے کہ وہ قابلِ دید و یادگار تھیں۔

چڑھائی چڑھتے ہوئے نقشہ پر نظر رکھی تھی ، مگر اتنے تاریخی مقامات بکھرے ہیں کہ وقت کی کمی کے باعث ہر جگہ نہیں جا سکتے تھے ۔ ہمیں سورج غروب ہونے سے پہلے پہاڑی پر اُس مقام پر بھی پہنچنا تھا جس سے سامنے سے الحمرا کا منظر نظر آتا ہے، اس جگہ کو میراڈور ڈی سان نکولاس کہتے ہیں ۔ راستے میں ہم دو جگہ رکے، پہلی قرطبہ پیلس کہلاتی ہے ، جبکہ دوسرا مقام چیپیز ہاوس ہے جو کہ کسی عرب رئیس کا گھر تھا ۔

قرطبہ پیلس ایک محل کی باقیات سے بنایا گیا ہے جو کسی اور جگہ تھا اور تباہ کر دیا گیا ۔ جو آثار قدیمہ بچ گئے تھے ، انہیں اس جگہ پر لا کر اس عمارت کو قائم کیا گیا ہے ۔ عمارت میں خوبصورت لکڑی کا کام ہے جو زمانہِ قدیم کے دستکاروں کی مہارت دکھاتا ہے ۔ خوبصورت باغ ، صحن اور فوارے عمارت کے اردگرد ہیں ۔

قرطبہ پیلس سے نکلے اور دوبارہ اوپر کو جاتی سڑک پر چل پڑے۔ راہ میں کئی خوبصورت عمارات اور خوبصورت چہرے دکھائی دے رہے تھے۔ آگے چلے تو انسٹی ٹیوٹ آف عربی سٹڈیز دکھائی دیا جو کہ چیپیز ہاوس کی اوپر کی منزل میں قائم ہے ۔ یہ گھر کسی عرب رئیس کا تھا، کہا جاتا ہے کہ وہ اور اس کا خاندان غرناطہ کی شکست کے بعد اپنی جان بچانے کے لیے عیسائی ہو گئے ۔ اس کا خوبصورت باغ ہے جبکہ دو منزلہ عمارت کی پہلی منزل میں عربی کا متعلقہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہے ، جس کا تعلق یونیورسٹی آف غرناطہ سے ہے ۔ اس مکان سے الحمرا اور البیسین کا خوبصورت منظر نظر آتا ہے ۔



اس تاریخی گھر سے نکل کر اپنی منزل کی جانب چل پڑے ، وہ پہاڑی مقام جس سے الحمرا اور غروبِ آفتاب کا منظر دیکھنا تھا۔ پتہ لگا کہ اس مقام کے ساتھ ایک مسجد مسلمانوں نے پیسہ اکٹھا کر کے بنائی ہے ، سو خیال تھا کہ وادی اندلس میں کسی مسجد میں نماز پڑھنے کو موقع بھی مل جائے گا ۔ البیسین کی گلیوں میں ہم چڑھائی چڑھتے جاتے تھے اور اکثر موڑ پر دوسری چوٹی پر الحمرا کا محل نظر آتا تھا ۔

بالآخر ہم ڈھونڈتے ڈھونڈتے مطلوبہ جگہ پہنچ گئے ، گو ابھی سورج غروب نہ ہوا تھا مگر سیاحوں کی ایک بڑی تعداد وہاں پہنچی ہوئی تھی ۔ یہ جگہ الحمرا کے بالکل مقابل تھی، سو الحمرا شام ہوتی دھوپ کی لہروں میں سنہرا نظر آتا تھا ۔ ہم نے اُس حسن کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کی حتی المقدور کوشش کی ۔ اس مقام کے بالکل ساتھ مسجد تھی جس کے صحن سے بھی بہت سے لوگ الحمرا کی تصاویر اتار رہے تھے ۔ یہ ایک نئی مسجد بنی ہے جس میں اندلس کے طرز تعمیر کو اپنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مسافر نے دو رکعت شکرانے کے ادا کیے کہ ایک زندگی کی بڑی خواہش پوری ہوئی ۔ عصر اور مغرب کی نمازیں یہیں ادا کیں ۔ دیکھا کہ مسجد کے نماز کے اوقات بتانے والا بورڈ پاکستان کی مساجد میں لگے بورڈوں کی مانند تھا ۔ غور کیا تو اردو بھی لکھی تھی ، لازم ہے کہ پاکستان سے کوئی لایا ہو گا ۔ مختلف لوگوں سے ملاقات ہوئی ۔ بیلجیم سے آیا ایک عرب عادل تھا جو پناہ گزینوں کے لیے کام کرتا ہے ۔ ایک سویڈش نو مسلم پیٹر تھا جو فرانسیسی زبان کا سکول میں استاد ہے اور تقریباً دس سال پہلے جوانی میں مسلمان ہوا تھا۔ برطانیہ سے ایک پاکستانی نزاد لڑکا فائق تھا جس نے ابھی میڈیکل کی تعلیم مکمل کی تھی اور تعلیم مکمل کرتے ہی اس تاریخی ورثے کو دیکھنے آیا تھا ۔ ایک عمر رسیدہ پاکستانی برطانیہ سے ایک صوفی سلسلے کے ساتھ آئے تھے ۔ اس گروپ میں مختلف اقوام کے مسلمان تھے جبکہ ان کا رہنما ایک سکاٹش گورا تھا ۔ مغرب کی نماز کے بعد اس گروپ نے اپنی ذکر کی محفل مسجد میں ایک جانب لگائی ۔ سب لوگ اپنے انداز میں ماضی سے تعلق جوڑ رہے تھے ۔

مسجد کے صحن سے الحمرا اور غرناطہ شہر کی کچھ تصاویر کھنیچیں ۔ رات پڑی تو الحمرا کی لائٹیں جل اٹھیں اور ایک اور منظر نظر کے سامنے تھا ۔ کچھ دیر بعد الحمرا کی روشنیاں گل ہوئیں اور سیاح واپسی کے سفر کو روانہ ہوئے ۔ ایک لمبی اترائی اب اترنا تھی۔

غرناطہ پر غور کرتے ہوئے سپین کی تاریخ پر پہلے تھوڑی نظر ڈالتے ہیں ۔ سپین میں مسلم حکومت 711 عیسوی سے 1492 عیسوی تک تقریباً لگ بھگ آٹھ سو سال رہی ۔ اس دور کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ، جس میں کچھ وقت امن کے گزرے اور بعض میں مسلسل باہمی لڑائی اور خانہ جنگی رہی ۔

سپین میں اموی خلافت کے 1013 عیسوی میں ٹوٹنے کے بعد مسلم سپین کے کئی ٹکڑے ہو گئے اور مختلف خاندان حکومت کرنے لگے ۔ یہ دور پڑوسی عیسائی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ مسلمان حکمرانوں کی باہمی جنگوں کا تھا ۔ نتیجتاً مسلمان شکست کھا کر اپنے علاقے عیسائی حکمرانوں کے ہاتھ دیتے رہے ۔ 1236 عیسوی میں قرطبہ کی فرنینڈو سوم کے ہاتھوں شکست کے بعد غرناطہ کا واحد علاقہ مسلم حکمرانی میں بچا ۔ اس حکمرانی کا خاتمہ 2 جنوری 1492 کو ہوا جب فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کے لشکر کے سامنے بنو نصر کے آخری حکمران ابو عبدااللہ محمد ثانی نے ہتھیار ڈال کر غرناطہ کا شہر اُن کے حوالے کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی سپین میں مسلم حکمرانی کا سورج غروب ہوگیا۔

سپین میں مسلم حکمرانی کا دور درج ذیل ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

ابتدائی اموی خلافت، 711 عیسوی سے 756 عیسوی:

سات سو گیارہ عیسوی میں طارق بن زیاد کی سپہ سالاری میں تقریباً سات ہزار کا لشکر جو زیادہ تر بربر النسل مسلمانوں پر مشتمل تھا، آبنائے جبل الطارق کو عبور کر کے سپین پر حملہ آور ہوا تھا ۔ یہ آبنائے بحر اوقیانوس کو بحر روم سے ملاتی ہے اور تقریباً 14 کلومیٹر کا بحری فاصلہ سپین اور مراکش کو جدا کرتا ہے ۔ اس کے بعد اور مہمات بھی آئیں اور سپین کے علاقے فتح کیا جانے لگے ، یہاں پر متعین کیے جانے والے امیر دمشق میں خلیفہ کو جوابدہ تھے ۔

خود مختار امارت، 756 عیسوی سے 929 عیسوی:

عباسیوں نے جب امویوں کو شکست دی تو اموی شہزادہ عبدالرحمان اول بھاگ کر سپین پہنچا اور اشبیلیہ پر فتح حاصل کی اور اس وقت کے امیرِ اندلس کو قرطبہ کے مقام پر شکست دے کر قرطبہ کی امارت کا آغاز کیا ۔ یہ تقریباً دو سو سال تک ایک منظم ، خود مختار اور خوشحال سلطنت کا آغاز تھا ۔

خلافت قرطبہ، 929 عیسوی سے 1013 عیسوی:

عبدالرحمن سوم نے اپنا خلیفہ ہونے کا اعلان کیا اور خلافتِ قرطبہ کی بنیاد رکھی ۔ اس خلافت کا دارالحکومت قرطبہ تھا جبکہ غرناطہ اس دور میں ثانوی حیثیت میں تھا۔

دور طوائف الملوکی، غرناطہ پر بنو زیری کی حکومت، 1013 عیسوی سے 1090 عیسوی:

گیارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں قرطبہ کی اموی خلافت کا زوال ہوا ، جس کے بعد اندلس کے مختلف علاقوں میں سرداروں نے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا ۔ ان علاقوں کو طائفہ کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ مسلم سردار اپنی سلطنت بچانے اور بڑھانے کے لیے آپس میں لڑتے رہتے تھے اور اس کی خاطر پڑوس کے عیسائی سرداروں سے بھی مدد لیتے رہتے تھے ۔ اس دور میں غرناطہ پر زیریون یا بنو زیری نے حکومت کی ۔ یہ الجزائر میں رہنے والے صنھاجہ بربر قبیلہ تھا ، اس کے چار بادشاہوں نے غرناطہ پر حکومت کی ۔

المرابطون و الموحدون 1090 عیسوی سے 1231 عیسوی:


المرابطون مراکش کا بربر قبیلہ تھا جس نے 11 عیسوی میں مراکش میں اپنی سلطنت قائم کی تھی ۔ المرابطون کے حکمران یوسف بن تاشفین کو اندلس کے طائفے کے امیروں نے مدد کے لیے بلایا تھا ۔ 1086 عیسوی میں یوسف بن تاشفین نے مراکش سے آ کر معرکہ الزلاقہ میں عیسائی بادشاہ الفانسو ششم کو شکست دے کر اندلس میں اسلامی سلطنت کو مضبوط کیا تھا ، مگر وطن میں کچھ شورشوں کی وجہ سے یوسف بن تاشفین کو واپس مراکش جانا پڑا ۔ 1090 عیسوی میں وہ دوبارہ حملہ آور ہوا اور زیادہ تر طائفوں کو شکست دے کر اندلس میں اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔

الموحدون ایک بربر تحریک تھی جس کے بانی ایک بربر مذہبی رہنما عبد اللہ محمد ابن تومرت تھے ۔ انہوں نے 1147 عیسوی میں مراکش میں المرابطون کی حکمرانی کو شکست دی اور 1172 میں اندلس میں بھی اپنی حکمرانی قائم کی ۔

تیرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں اندلس میں مسلمان حکمرانوں کی آپس کی لڑائیوں نے ان کی طاقت کو کمزور کر دیا تھا ، جبکہ نزدیکی سلطنت ارگون اور قشتالہ کے عیسائی حکمران طاقتور ہو گئے تھے ۔ الموحدون کی 16 جولائی 1212 کو معرکتہ العقاب کی جنگ میں عیسائی متحدہ افواج کے ہاتھوں شکست نے سپین پر مسلم حکمرانی کے خاتمے کی ابتدا کی تھی ۔ معرکتہ العقاب کوBattle of Las Navas de Tolosa بھی کہتے ہیں ۔

بنو نصر، غرناطہ کی امارت، 1238 عیسوی سے 1492 عیسوی :

بنو نصر اندلس میں آخری مسلم حکومت تھی ۔ اس کا بانی ابو عبداللہ محمد ابن یوسف ابن نصر تھا جو ابن نصر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اس غیر یقینی دور کا ایک بڑا موقع پرست تھا جس نے موقع کی مناسبت سے پڑوسی عیسائی بادشاہوں سے بھی اپنی حکمرانی کے لیے دوسرے مسلمانوں کے خلاف مدد لی ۔

قرطبہ جو غرناطہ سے اس زمانے میں اونچا مقام رکھتا تھا ، وہاں کا سلطان أبو عبد اللہ محمد بن یوسف بن ہود جس کا لقب المتوکل علی اللہ تھا اور وہ ابن ھود کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ابن ھود الموحدون کے وقت اندلسی شہر مرسیہ کا گورنر تھا اور بعد میں اُس نے بغاوت کر کے اپنی امارت کا اعلان کر دیا ۔ 1231 عیسوی میں ابن ھود کی افواج کو عیسائی افواج نے ہسپانوی شہر جیریز کے قریب شکست دی اور اس کا اقتدار کمزور ہو گیا ۔ اسی دوران ابن نصر نے غرناطہ میں اپنی امارت کا اعلان کر دیا ۔ ابن ھود نے 1234 عیسوی میں ابن نصر کو شکست دی مگر 1236 عیسوی میں ابن ھود نے فرٹیننڈ سوم کے ہاتھوں شکست کھائی جس کے بعد قرطبہ کا شہر عیسائی تسلط میں چلا گیا ۔ ابن نصر نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غرناطہ میں اپنی سلطنت قائم کر لی ۔ اب پورے اندلس میں صرف ایک علاقہ یعنی غرناطہ مسلمانوں کے زیرِ انتظام باقی رہا ۔ ابن ھود 1238 میں قتل کر دیا گیا تھا ۔



ابن نصر نے فرٹیننڈ سوم سے باج گذاری کا معاہدہ قائم کیا جس کے لحاظ سے ابن نصر سالانہ ایک لاکھ پچاس ہزار اشرفیاں بطور خراج ادا کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ فرٹیننڈ کی کسی بھی عسکری مہم میں ابن نصر کو فوجی فراہم کرنے تھے ۔ اس معاہدے کے بعد غرناطہ کو امن میسر آیا اور یہ ابن نصر ہی ہے جس نے الحمرا کی بنیاد رکھی ۔ الحمرا کو بنی نصر کے بعد میں آنے والے سلاطین نے مزید نکھارا ، ان میں یوسف اول اور محمد پنجم قابلِ ذکر ہیں ۔

ابن نصر مئی 1238 میں غرناطہ میں حکمران بن کر داخل ہوا اور اس نے البیسین کے علاقے میں بنے بنو زری کے زمانے کے محل اور قلعہ میں رہائش اختیار کی ۔ کچھ عرصے بعد اُس نے صبیکا پہاڑ پر محل بنانے کا حکم دیا ۔ ایک سال میں ایک قلعہ تیار تھا جس میں پانی لے جانے کے لیے ڈیم اور نہر بنائی گئی تھی ۔

الحمرا کا نام قلعتہ الحمرا یعنی سرخ قلعہ سے نکلا ہے، حمر عربی میں سرخ کو کہتے ہیں ۔ گمان ہے کہ شاید یہ نام اس عمارت کی سرخ اینٹوں کی وجہ سے دیا گیا تھا ، مگر اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر کا پتھر سفید تھا جیسا کہ البیسین کے اکثر گھروں کی تعمیر میں استعمال ہوئے ہیں ۔ اُس دور کے وزیر اور تاریخ دان ابن الخطیب کی تحریر کے مطابق سرخ رنگ رات کو اس محل میں جلائے گئی شمعوں کے اثر سے نظر آتا تھا، جس کی بنیاد پر البیسین اور نزدیکی علاقوں کے رہائشی اسے الحمرا کے نام سے پکارنے لگے ۔ ابن الخطیب کی شاعری الحمرا کی دیواروں پر آج بھی لکھی نظر آتی ہے ۔ ابن الخطیب کی کتاب ''الحاطہ فی اخبار غرناطہ'' 1369 عیسوی میں لکھی گئی تھی ۔ ابن الخطیب اندلس کی محلاتی سازشوں کا شکار ہوا اور فرار ہو کر مراکش کے شہر فاص میں پناہ لی ، مگر وہاں بھی مخالفین کے زیر اثر موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ۔ ابن الخطیب کی موت کو اُس کے ہم عصر ، دوست اور سکالر ابن خلدون نے تفصیلاً بیان کیا ہے ۔ ابن خلدون گو کہ تیونس میں پیدا ہوئے مگر انہیں اندلس نسل سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ انکا خاندان اندلس میں اعلی مقام رکھتا تھا ۔ یہ خاندان اشبیلیہ کی 1248 عیسوی میں عیسائی فتح کے بعد سپین چھوڑ کر تیونس ہجرت کر گیا تھا۔

سفر نامہ دوبارہ شروع کرتے ہیں ۔

رات غرناطہ کی اونچائی سے اترے اور اگلے دن کی تیاری کی کہ صبح صبح الحمرا پہنچنا تھا ۔ الحمرا کھلنے کا وقت ۹ بجے تھا اور ہمیں کمرے سے ساڑھے سات نکلنا تھا ۔ الحمرا تک جانے کے لیے پیدل راستہ بھی ہے مگر وہ کافی تھکا دینے والا ہے کہ مسلسل چڑھائی ہے اور اس کے بعد محل کی سیر کا لُطف بھی جاتے رہے گا ۔ سو ہم نے غرناطہ کے چوک سے بس لینی تھی جو کہ الحمرا لے کر جاتی ہے۔

صبح ساڑھے چھ بجے اٹھ گئے ۔ رات انڈے اور ڈبل روٹی خرید لائے تھے سو ناشتہ بنایا ۔ نمک نہ تھا، سو زیتون ملا کر انڈوں کا زائقہ نمکین کیا ۔ ناشتہ کر کے غرناطہ کے اُس چوک کو چل پڑے جس کے ساتھ الحمرا جانے کے لیے بس کا سٹاپ واقع ہے ۔ اس چوک کے درمیان میں ملکہ ازابیلا کا بت ہے جس کے سامنے کرسٹوفر کولمبس کچھ کاغذات پیش کر رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ انڈیا ڈھونڈنے کی سمندری مہم کی تفصیل ہے جس کا خرچہ ملکہ ازابیلا نے اٹھایا تھا۔ اس مہم کے نتیجے میں امریکہ دریافت ہوا ۔ یہ پیسہ غرناطہ کی شکست کے مالِ غنیمت کا ثمر تھا ۔

ہم بس پرسوار ہو کر الحمرا پہنچ گئے ۔ داخلے پر لمبی لائن تھی ۔ ہم نے آن لائن ٹکٹ خریدا ہوا تھا ورنہ بہت دیر لگ جاتی ، پھر بھی داخل ہوتے ساڑھے نو بج گئے ۔ ہم داخل ہوئے تو سب سے پہلے ایک خوبصورت باغ تھا جس میں سے پانی کی گذرگاہ بنی ہوئی تھی ۔ باغ بڑی اچھی طرح سنبھالا ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں اس جگہ پر شاہی قبرستان بھی تھا جس کی کوئی نشانی اب باقی نہیں ہے ۔

باغ سے آگے کو چل نکلے ۔ پرانی طرز تعمیر کی اینٹوں کا راستہ ایک قوس کے نیچے سے نکل کر آگے جا رہا تھا ۔ یہ راستہ بنو نصر کے محل، القصبہ یعنی الحمرا کے اندر فوجی چھاونی اور عیسائی فتح کے بعد الحمرا میں بنائے گئے کارلوس پنجم کے محل کی طرف جا رہا تھا ۔

الحمرا کے مرکزی داخلے سے آئیں تو باغ کے بعد سب سے پہلا حصہ مدینہ کا ہے ۔ مدینہ شہر کو کہتے ہیں ، سو یہ آبادی کا حصہ تھا جہاں ملازمین او عمائدین کی رہائش گاہیں تھیں ۔ اب اس آبادی کے صرف کھنڈر باقی ہیں ، لیکن یہ کھنڈرات اُس زمانے کی گلیوں اورگھروں کی تعمیر پر روشنی ضرور ڈالتے ہیں ۔

الحمرا کے اندر سیاحوں کے لیے ایک ہوٹل رہائش کے لیے بھی موجود ہے، اس کا نام پراڈور سان فرانسسکو ہے ۔ سپین پھرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ امریکہ کے کئی شہروں کے نام سپین کے علاقوں پر ہیں ۔ اس کی وجہ پہلے بیان ہو چکی ہے کہ امریکہ کی دریافت کولمبس کے ذریعے ہسپانوی جہاز رانوں نے کی تھی ۔ ابھی بھی جنوبی امریکہ کے زیادہ تر ممالک میں ہسپانوی بولی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست ہائے امریکہ کے موجودہ علاقوں میں بھی سپین نے اپنی آبادیاں برطانوی آبادکاروں سے پہلے بنائی تھیں جن کے نام ابھی بھی ہسپانوی ہیں۔

الحمرا اونچائی پر ہونے کے باعث یہاں پیدل چلنے میں بھی اونچائی اور اترائی سے واسطہ پڑتا ہے ۔ مسافر کو ذہنی طور پر تیار ہو کر آنا چاہیئے کہ پورے الحمرا کی سیر کم ازکم پانچ سے چھ گھنٹے لے جاتی ہے ۔



ہوٹل سان فرانسسکو سے آگے نکلے تو الحمرا کی شاہی مسجد کے حمام آ گئے ۔ یہ گرم حمام وضو خانے اور غسل کے لیے استعمال ہوتے تھے ۔ ان میں گرم پانی اور بھاپ کا انتظام اُس دور کی صناعی اور ایجاد کا مظہر ہے ۔ یہ گرم حمام سلطان محمد سوم ، جس کا دورِ حکومت 1302 عیسوی سے لے کر 1309 عیسوی تک تھا، کے دور میں بنائے گئے تھے ۔

اس حمام میں ایک کمرہ کپڑے بدلنے کے لیے بنا تھا ، ایک گرم حمام کا کمرہ ہے جس میں بھاپ لانے کا انتظام کیا گیا تھا ، جبکہ ایک کمرہ ٹھنڈے پانی کا بھی ہے ۔ ان کمروں کی چھتوں پر قدرتی روشنی کے لیے ستاروں کی شکل کے روزن بنائے گئے تھے ۔ ایک طرف اوپر والی منزل پر ایک برآمدہ بھی ہے ۔ حمام کے درمیان میں جگہ چھت کے بغیر تھی جس کے ایک طرف ایک پتھر کی بڑی سے مستطیل ساخت تھی جس میں پانی گرنے کی راہ بنی تھی ، شاید یہ جگہ وضو کے لیے استعمال ہوتی ہو ۔

حمام میں ستون اور قوس کی شکل کی محرابیں ہیں ۔ اتنی صدیوں کے بعد بھی اینٹیں اور مٹی کا گارا مستحکم کھڑا ہے ۔ دیواروں پر سے نقش و نگار اتر گئے ہیں ، مگر ایک جگہ کچھ بچے کھچے آثار اب بھی باقی ہیں ۔ ایک دیوار پر عربی خطاطی بھی ابھی تک موجود ہے، اللہ کے سوا کوئی غالب نہیں، یہ بنو نصر کا شاہی قول ہے جو کہ الحمرا کی دیواروں پر اکثر جگہ پر بعد میں لکھا نظر آیا ۔ ایک جگہ گمان ہے کہ ''الفاتح الا اللہ'' بھی لکھا ہوا ہے ۔ بے شک اللہ کے سوا کوئی طاقتور نہیں مگر اندلس کی تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ اللہ کے انتظام کے قوانین اپنی جگہ پر متعین ہیں اور وہ کسی قسم کی مذہبی ترجیح نہیں دیتے۔ اعمال کی بنیاد پر ترقی اور تنزلی کے اصول عالمی ہیں ۔

اسی لیے وضو گاہ تو باقی ہے مگر مسجد مٹ چکی ہے ۔ مسجد گرا کر آج وہاں پر سینٹ ماریا کا گرجا کھڑا ہے ۔ (جاری ہے)
Load Next Story