قراردادِمقاصد اور عمرانی معاہدے
کیا قائداعظم ہمیں اسی راستے پر گام زن کرنا چاہتے تھے؟
June 30, 2024
نوعِ انسانی کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، یعنی قدیم، وسطی اور جدید۔ عہدِقدیم اور وسطی دورکا تو یہ معاملہ رہا ہے کہ سلطنتوں اور ریاستوں کی بنیاد ''طاقت'' پر رکھی جاتی تھی لیکن جس دور کو ''جدید'' گردانا جاتا ہے اور جس کی ابتدا کچھ یورپی مورخین کے نزدیک انقلابِ فرانس سے کچھ برس قبل اور پھر بعدازاں سے شروع ہوتی ہے۔
اس عہد کے یورپ میں ''سیاسی شعور'' کی تشہیر سے عوام بادشاہتوں کے خلاف متحرک ہو چکی تھی۔ ان ہی تحریکوں میں جن کی فکری قیادت روسو اور والٹیئر جیسے فلسفی کررہے تھے ، ریاست اور سلطنت کی تشکیل کے متعلق ''عمرانی معاہدے'' کا تصور پروان چڑھا۔ عمرانی معاہدے کا تصور صرف یورپ سے اور انقلاب فرانس کے سالوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا کے بیشتر حصوں میں اور تقریباً ہر عہد میں ہی ایسے فلسفی اور مفکر پیدا ہوتے رہے جو منفرد نوعیت کے عمرانی معاہدوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ وہ چاہے افلاطون و ارسطو ہوں، ابن خلدون و ابن رشد یا ہندوستان کے کوٹلیہ چانکیہ، جنہوں نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ''ارتھ شاسترا'' میں عمرانی معاہدوں کے متعلق لکھا ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:
''امن، صلح اور ملاپ حکم رانوں کے باہمی اعتبار کے مظہر اور بنیادی طور پر ایک ہی مفہوم رکھنے والے الفاظ ہیں۔ میرے استاد فرماتے ہیں کہ قسم اور خلوص کی بنیاد پر کی گئی صلح ٹوٹ سکتی ہے، لیکن یرغمال یا ضمانت پر بنیاد رکھنے والی صلح قائم رہتی ہے، لیکن مجھ کو اس سے اتفاق نہیں ہے کیوںکہ جو صلح قسم اور خلوص پر مبنی ہو وہ نہ اس جنم میں ٹوٹ سکتی ہے اور نہ اگلے جنم میں، جب کہ ضمانت اور یرغمال صرف اس جنم میں صلح کے معاہدے کو قائم رکھنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔''
گو یہ اقتباس عمرانی معاہدے کے حوالے سے مبہم ہے لیکن اگر سطورِبالا کو رد تشکیل (deconstruct) کیا جائے تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کوٹلیہ کے نزدیک بھی کوئی معاہدہ چاہے وہ حکومت و ریاست سے متعلق ہو یا معیشت و اقتصاد سے منسلک ہو، اگر طاقت وجبر کے زور پر قائم کیا جائے تو درست نہیں ہے۔ یعنی چانکیہ کے ذہن میں بھی یہی تصور جاگزیں تھا جو بعد ازآں روسو کی کتاب میں ہمیں ملتا ہے۔ فرانسیسی فلسفی ژاں ژاک روسو اپنی کتاب ''معاہدۂ عمرانی'' میں اپنے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
''مسئلہ یہ ہے کہ اجتماع کی کوئی ایسی شکل پیدا کی جائے، جس میں تمام قوت اجتماعی کے ذریعے ہر شریک کی جان و مال کی حفاظت ہوسکے اور جس کی بنا پر گو یا ہر شخص کل میں شریک ہو، تاہم وہ خود صرف اپنی تابع داری کرسکے اور اس کی وہی آزادی برقرار رہے جو اسے پہلے حاصل تھی۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کا حل معاہدۂ عمرانی پیش کرتا ہے۔''
یہ ہے وہ تصور جس کی گھن گھرج انقلاب فرانس کے بعد پورے عالم میں گونجتی رہی ہے اور اب تو صورت حال یہ ہے کہ ماسوائے کچھ کے، ہر جدید ریاست اسی تصور پر قائم ہے۔ جدید عہد میں عمرانی معاہدے کو ''آئین '' یا ''دستور'' کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ البتہ، زیرنظر مضمون میں عمرانی معاہدے پر بحث کرنا موضوع نہیں ہے بلکہ ایک اہم فکری و تاریخی بحث کی خاطر مذکورہ بالا اور ذیلی سطریں لکھی جارہی ہیں، جو پاکستان کے دیرینہ و پرانے قصے یعنی ''شناخت کے بحران'' کا ہی حصہ ہے۔ یہ بحث قراردادِمقاصد سے متعلق ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اس قرارداد کو حضرت جناح کے ''افکار و اقوال'' کے منافی قرار دیا جارہا ہے جب کہ دیگر اس کے برعکس کہہ رہے ہیں کہ یہ عین حضرت جناح کے ''افکار'' کا پرتو ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ یہی سوال زیرغور اور موضوعِ سخن ہے۔
قراردادِمقاصد پر ورق ریزی سے پہلے یہ بہتر ہے کہ مذکورہ قرارداد کا متن پیش کردیا جائے۔ اسی لیے ذیل میں قراردادِمقاصد کا متن درج ہے:
''چوںکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلاشرکتِ غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے؛ چوںکہ پاکستان کے جمہور کی منشاء ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے؛ جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی؛ جس میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پوری طرح عمل کیا جائے گا؛ جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق، جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں؛ جس میں قرار واقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں؛ جس میں وہ علاقے جو اس وقت پاکستان میں شامل یا ضم ہیں اور ایسے دیگر علاقے جو بعدازایں پاکستان میں شامل یا ضم ہوں، ایک وفاق بنائیں گے جس میں وحدتیں اپنے اختیارات و اقتدار پر ایسی حدود اور پابندیوں کے ساتھ جو مقرر کردی جائیں، خودمختار ہوں گی؛ جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں قانون اور اخلاق عامہ کے تابع حیثیت اور مواقع میں مساوات، قانون کی نظر میں برابری، معاشرتی، معاشی اور سیاسی انصاف اور خیال، اظہار خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہوگی؛ جس میں اقلیتوں اور پس ماندہ اور پست طبقوں کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرارواقعی انتظام کیا جائے گا؛ جس میں عدلیہ کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی؛ جس میں وفاق کے علاقوں کی سالمیت، اس کی آزادی اور زمین، سمندر اور فضاء پر اس کے جملہ حقوق کی حفاظت کی جائے گی؛ تاکہ اہل پاکستان فلاح و بہبود حاصل کرسکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کرسکیں اور بین الاقوامی امن اور بنی نوع انسان کی ترقی اور خوش حالی میں اپنا پورا حصہ ادا کرسکیں۔''
قراردادِمقاصد کی تیار ی میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے لیاقت علی خان کا ساتھ دیا اور یوں اس قرارداد کا متن وجود پذیر ہوا۔ اس متن کا مطالعہ کرتے ہوئے یہی خیال ذہن میں در آتا ہے کہ دونوں بزرگ ریاست کو اسلام کا ''ملبوسِ مقدسہ'' اُڑھا کر گویا ریاست مدینہ کی تجدید کرنا چاہتے تھے۔ لیکن کیا جناح بھی یہی چاہتے تھے؟ کیوںکہ وہ 11 ستمبر کو اپنی تقریر میں بڑی ہی وضاحت سے قوم کو سمجھا گئے تھے کہ پاکستان کی بنیاد ''برابری'' کے اصول پر رکھی جائے گی اور تمام افراد کو بلاامتیازِمذہب، نسل، رنگ و قوم ریاست پاکستان کا ''مساوی شہری'' سمجھا جائے گا۔ بابائے قوم تو ہمیں صحیح راہ پر گام زن کر رہے تھے مگر ان کے جانشینوں نے ہمیں ایسے راستے پر لگا دیا جو ہماری تباہی کو آپ دعوت دینے کے مترادف ہے۔
بہرحال، آخری بات جو میں کرنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ جدید سیاسیات کی روشنی میں اور عمرانی معاہدات کے مروجہ تصور کی بنیاد پر ''قراردادِمقاصد'' قابلِ قبول نہیں ہے کیوںکہ کسی بھی سماج میں تمام طبقات کو برابری کے اصول پر تسلیم کرتے ہوئے، ان کی مرضی و منشاء کے مطابق جو معاہدہ ریاست کی تشکیل کے لیے ترتیب دیا جائے صرف اسے ہی صحیح طور پر ''عمرانی معاہدہ'' کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ریاست کی تشکیل بھی ایک کاروبار ہے اور جیسے ہر کاروبار کو شروع کرنے کے لیے فریقین کی بلا امتیاز مذہب و قوم برابری تسلیم کی جاتی ہے، اسی طرح آئین تشکیل کرتے وقت بھی اس اصول کی پابندی کرنا ہر مہذب سماج و ریاست پر فرض ہے۔ اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو ایسے دستور کو سب کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن وہ عمرانی معاہدہ ہرگز نہیں ہے۔