بُک شیلف
ادبی کتابوں کا دلچسپ مجموعہ
امام الہند سے ''گفتگو''
'مولانا ابو الکلام آزاد سے انٹرویو' ڈاکٹر قمر فاروق کی اپنی نوعیت کی ایک نہایت منفرد تصنیف ہے کہ جس میں 1958ء میں انتقال کر جانے والے امام الہند ابوالکلام آزاد کے ایک 'انٹرویو' کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ دراصل ان کے حوالے سے مختلف معلومات اور مختلف امور پر ان کے نقطہ نظر کا اظہار ہے۔ اس کتاب میں کُل 113 سوالات اور ان کے جواب ہیں، جو ایک سطر سے ایک پیراگراف اور کچھ کئی صفحات تک بھی دراز ہیں۔
ان 'جوابات' کے لیے جن کتب اور دستاویزات سے استفادہ کیا گیا ہے، ان میں 'الہلال' اخبار، ترجمان القرآن (دیباچہ)، آزادی ہند، خطوط ابوالکلام آزاد (مالک رام)، غبارِخاطر، خطبات آزاد، ذکر آزاد (عبدالرزاق ملیح آبادی)، ابو الکلام آزاد کے ادبی شہ پارے، ابو الکلام آزاد (شورش کاشمیری)، ابو الکلام آزاد شخصیت وسیاست، نقش آزاد اور 'ہماری آزادی' شامل ہیں، تقریباً ہر جواب کے آخر میں متعلقہ کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے 'سوالات' میں تفسیر قرآن مجید، 'الہلال' کے مقاصد، ہندو مسلم اتحاد، دو قومی نظریہ، پاکستان کی مخالفت، تحریک خلافت، کانگریس، شملہ کانفرنس، مسلمانوں کی سیاسی حالت، اپنی سیاسی غلطی، بچپن، خاندان، لڑکپن، مسلک و عقائد، موسیقی سے شغف، ذاتی پسندوناپسند وغیرہ تک کے موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ کئی ایک جگہوں پر سوال کے بہ جائے صرف 'سرخی' درج کر کے بھی بات کی گئی ہے، جن میں شب قدر، روزے اور رمضان المبارک وغیرہ سے لے کر اکبر الہ آبادی، اسمعیل میرٹھی، محمد حسین آزاد، علامہ شبلی نعمانی، عبدالماجد دریا آبادی، حسرت موہانی، ظفر علی خان، چوہدری خلیق الزماں، خان عبدالقیوم خان اور محمد علی جناح اور لیاقت علی خان سے متعلق آرا شامل ہیں۔ اس کے کتاب کے مؤلف ڈاکٹر قمر فاروق کی اس سے قبل تیرہ کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ یہ کتاب ابوالکلام آزاد پر اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے، جس میں ان کی زندگی ، نظریات، تجربات ومشاہدات سے لے کر حالات و واقعات تک کا ایک خلاصہ ملتا ہے۔ زربفت پبلی کیشنز (03034060515, 0301-6360741) لاہور سے شایع ہوئی ہے، قیمت ایک ہزار روپے ہے۔
'اَمی جمی' گنگا جمنی تہذیب کی باتیں
کہتے ہیں کہ پورا ہندوستان اُجڑا تو کراچی شہر بسا۔۔۔! یعنی بٹوارے کے ہنگام میں ہندوستان بھر سے مختلف علاقوں کے لوگوں نے ہجرت کر کے اس نگر کو اپنا بنایا اور آگے بڑھایا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ 'شہرِ قائد' کی تہذیبی رنگا رنگی میں اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ یہاں کی سماجیات اور نشیب وفراز کو محفوظ کیا جائے۔ اسی حوالے سے شاہ ولی اللہ کی نئی کتاب 'شکستہ تہذیب۔۔۔ ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد' ایک دل چسپ اضافہ ہے۔
ازراہِ تفنن یار لوگ کراچی کے 'دارالحکومت' علاقے کی بات کرتے ہیں، تو رائے عامہ 'ناظم آباد' کے واسطے اچھی خاصی متفق دکھائی دیتی ہے اور اگر اسی سے منسلک کر لیجیے تو نارتھ ناظم آباد تھوڑے سے فرق کے ساتھ اسی 'تہذیب' کی ایک توسیعی صورت ہے، اور اب اس کی وسیع تر صورت 'نیا ناظم آباد' کے نام سے بھی آباد ہونا شروع ہوچکی ہے۔
ناظم آباد کی کہانی 1950ء کی دہائی سے شروع ہوتی ہے، سو یہی اس کتاب کے ابتدائی اوراق بھی ہیں، جس میں یہاں کی تاریخ، شخصیات اور واقعات کے حوالے سے ایک منفرد اور اہم تصنیف ہے، جس میں ناظم آباد کا محل وقوع، زبان وتہذیب، سماجی وادبی تقریبات، کچی آبادیاں، راشنگ سسٹم، سڑکوں کے نام، تھانے، صحت، صفائی، ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے ادارے، یہاں کی سیاسی گہماگہمی، تعلیمی ادارے، لائبریریاں، سینیما، منشیات کی لعنت اور شہر کے لسانی فسادات سے نیا ناظم آباد تک کا احوال موجود ہے۔
اس کے علاوہ یہاں کی عبادت گاہیں، مذہبی وقومی تہوار، یہاں رہائش پذیر شعرا، صحافی، محققین، معروف کھلاڑی، فن کار اور نام ور شخصیات، پھیری والوں قلعی گر اور ریستوران وغیرہ کا بیان بھی شامل ہے۔ اس منفرد کتاب میں بہت سے سیاسی واقعات کا بیان غیرضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق تو شہر کی مجموعی سیاسی صورت حال سے تھا، نہ کہ خاص ناظم آباد سے، لیکن صاحب کتاب نے اسے بھی شامل کیا۔ یہی نہیں اس بیان میں کئی ایک جگہوں پر مکمل حقائق کی تشنگی بھی محسوس کی گئی۔
اس کتاب میں بہت سی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں، ان کی طباعت بہتر ہو سکتی تھی۔ کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی اور ممتاز محقق خواجہ رضی حیدر نے بھی اظہار خیال کیا ہے۔ شاہ محمد حمزہ ریسرچ اینڈ پبلی کیشن سینٹر کراچی سے شایع شدہ 270 صفحات کی اس مجلد کتاب کے آخر میں ماخذ کا اہتمام بھی موجود ہے۔ کتاب ویلکم بک پورٹ (021-32633151, 32639581)پر دست یاب ہے ۔ قیمت 1000 روپے ہے۔
''ابا نامہ''
اس تصنیف کو ہم نشاط یاسمین صاحبہ کی کتاب 'اماں نامہ' کا ایک تسلسل قرار دے سکتے ہیں، جو کہ ان کی طنز ومزاح پر مبنی پہلی کتاب تھی۔ 33 صفحات پر محیط پانچ مضامین پر اظہار خیالات کے بعد اس کتاب کے 21 مضامین پر مشتمل مندرجات کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر انعام الحق جاوید، محمد عثمان جامعی، پروفیسر سلیم اختر اور دیگر کی آرا بھی شامل کی گئی ہیں۔ کتاب میں انتساب کے بعد ایک 'اعتذار' بھی شامل ہے کہ اس کتاب میں شامل واقعات و کردار وغیرہ سب فرضی ہیں، کسی کی بھی ان سے مماثلت محض اتفاقی ہوگی۔
جب ہم کتاب کی ورق گردانی کرتے ہیں تو اس 'عُذر نامے' سے اتفاق ہو ہی جاتا ہے، کیوں کہ کتاب گھومتی تو ہماری سماجی صورت حال کے گرد ہی ہے، تو اس سے بات کا بہت امکان ہے کہ آپ کو بھی وہ کردار یا واقعات اپنے ہی سامنے کے یا اپنے تجربے کے سے محسوس ہوں۔ سماجیات کے پھیرے لیتی ہوئی اس کتاب کے کردار بھی گھر بھر اور میل جول والوں ہی میں سفر کرتے ہیں۔ اور کہیں کہیں سیاسی حوالے بھی در آتے ہیں، لیکن مصنفہ اسے اپنے تئیں قطعی 'غیرسیاسی' قرار دیتی ہیں۔
اکثر مواد مکالموں سے آراستہ ہے، سیاسی اور حالات حاضرہ کا 'تڑکا' بھی گاہے گاہے ملتا ہے، کہیں اخباری کالموں جیسا احساس بھی بہ خوبی دست یاب ہے۔ یہ کتاب فکشن ہائوس(042-36307550-51) لاہور سے شایع ہوئی، 160 صفحات اور قیمت 700 روپے۔
'کتابِ زندگی' کے 'بابِ آخر' کے لیے
زندگی کیا۔۔۔ زندگی کیسے اور زندگی کس لیے۔۔۔؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں کہ کوئی بھی شخص چاہے کسی بھی اعتقادات کا مالک ہو، وہ ضرور چاہتا ہے کہ اس کی راہ درست ہو، اور وہ ایک بار ملنے والی اِس زندگی کو اچھے اور بھرپور طریقے سے گزار سکے۔ شاید 'قبل مسیح' کے زمانے ہی سے مختلف فلسفی اس موضوع پر اپنے اپنے طریقے سے اظہار خیال کرتے آئے ہیں۔ مختلف مذاہب بھی زندگی گزارنے کے طور طریقوں کی جانب بہت توجہ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے بچپن کو تعلیم وتربیت کے حوالے سے اہم قرار دیا جاتا ہے، اور اسی عمر میں انسان کو نئی نئی چیزوں کی جانب رغبت اور تجسس بڑھتا جاتا ہے۔ نتیجتاً اوائل عمری میں یہ شوق اور ولولہ عروج پر ہوتا ہے، جو کہ بچپن کے ختم ہونے کے بعد بھی کافی دیر جاری رہتا ہے۔ بچپن کے بعد انسان کی تعلیم وتربیت مکمل ہونے لگتی ہے اور عملی زندگی شروع ہوتی ہے۔ یہ عمر جوانی کہلاتی ہے اور زندگی میں کچھ بھی کرنے کے لیے یہ وقت اہم ترین ہوتا ہے اور جس نے بھی وقت کو پیسہ قرار دیا ہے، تو یقیناً یہ ساری 'کمائی' جوانی ہی کی رہین منت ہے۔ اس حوالے سے دو جلدوں پر مشتمل یہ کتاب 'بابرکت وباسعادت بڑھاپا' از محمد اجمل خان ایک اہم دستاویز ہے، جس میں قرآن وحدیث کی روشنی میں زندگی گزارنے کے مقاصد اور اسباق نہایت سادہ اور جامع انداز میں پہنچائے گئے ہیں۔ اس کتاب کا مخاطب نوجوان نسل ہے ، جس میں اسے جوانی کے بے لگام گھوڑے کو قابو میں رکھنے اور ضابطوں کا پابند رکھنے کی جانب توجہ دلائی گئی ہے، تاکہ جب یہ جوانی ختم ہو اور انسان کی زندگی پر ضُعف کے آثار ہوں، یعنی بڑھاپا آئے تو اس کے ماضی میں پچھتاوے نہ ہوں۔ مسلم نوجوانوں سے مخاطب اس کتاب کے مندرجات دیکھیے، تو اس میں زندگی کے عام سبق اور نصیحیتیں بہت وافر ملتی ہیں، جو شاید عمر کی کسی بھی قید سے آزاد ہیں۔ اس کتاب کے مشمولات میں ایمان اور ارکان ایمان، توحید، عقائد کی درستی، حدودالٰہی کی حفاظت، دل کی پاکیزگی، علم کی تڑپ، توبہ کرنے والوں کے آنسو، بیماری وشفا، علاج، صبر، عیادت، مکافات عمل، خوراک کا خیال، جسم سے کام لینے میں اعتدال، دماغی صحت، ورزش، اچھی نیند، قرض سے بچنا، وقت کی قدر و قیمت، وقت کی تنظیم، زندگی میں برکت، حسن سلوک، مخلوق کے حقوق، عمر اور رزق میں برکت، لمبی عمر اور بہترین عمل، اولاد اور رشتہ داروں کی اہمیت، غیر مسلم بزرگوں کی خبر گیری، 'اولڈ ایج ہوم' کے متبادل سماجی حل، والدین کی نافرمانی کی سزا، والدین کے دوستوں کے حقوق، ضعیفوں اور کمزروں کی وجہ سے رزق، دوستی اور دشمنی کا معیار اور دوستی کی اہمیت، بڑھاپے کی علامت، سفید بال، حجت اور عذر ختم کرنے والی عمر، معمر افراد کا عالمی دن، بڑھاپے کی تیاری، بابرکت بڑھاپا، وصیت کرنا، صدقہ جاریہ اور ہلاک کر دینے والے گناہ، چغل خوری، سود خوری، استغفار اور دعا، توبہ اور ذکر الٰہی وغیرہ جیسے دیگر بہت سے چھوٹے چھوٹے موضوعات اور نصیحتیں شامل ہیں۔ دو جلدوں پر مشتمل کتاب کے کُل صفحات 600 کے قریب ہیں، قیمت درج نہیں، تاہم حصول کتاب کے لیے رابطے کے لیے 0336-3780896 دیا گیا ہے۔
پہلو دار افسانے
'ماں ری' نشاط یاسمین خان کے افسانوں کا مجموعہ ہے، جو 'سانجھ پبلی کیشنز' (0333-4051741) سے شایع ہوا ہے۔ اس کتاب کے افسانے سماجی موضوعات اور مسائل کے اردگرد گھومتے ہیں، جن کی خاص بات یہ ہے کہ یہ افسانے کسی 'ناول' کی طرح چھوٹے 'ابواب' میں بٹے ہوئے ہیں، جس سے یہ گمان گزرتا ہے کہ یہ کوئی نیا افسانہ ہے، لیکن جب پڑھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ پچھلے افسانے ہی کا تسلسل ہے۔ یہ امر مناظر اور متکلم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ افسانے کے پہلو دار ہونے کا بھی پتا دیتا ہے، جسے یقینی طور پر ایک اہم محاسن کے طور پر شمار کیا جانا چاہیے۔ کتاب مین شامل 16 افسانوں میں سے تیسرے افسانے 'ماں ری' ہی کو اس کتاب کا عنوان کیا گیا ہے۔ کتاب کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر رئوف پاریکھ خلاف توقع عمدہ قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی درست اردو لکھنے پر اظہار مَسرت بھی کرتے ہیں۔ کتاب کی ضخامت 240 صفحات تک دراز ہے، مہنگائی کے دور میں جب کتابوں کے کاغذ اور طباعت کا معیار بہت زیادہ آزمائش سے دوچار دکھائی دیتا ہے، ایسے میں اس کتاب کے اجلے صفحات اور چمکتی طباعت قاری کی بصارت کو ایک خوش گوار احساس دلاتی ہے، 239 صفحات اور قیمت 660 روپے ہے۔
'پنجاب ایکسپریس'
اس حوالے سے محمد عثمان جامعی رقم طراز ہیں: ''حارث پنجاب کا مصور ہے، اس پنجاب کا مصور جس کی رگ رگ میں ہریالی پھوٹتی ہے، جس کی اناج اُگلتی دھرتی اپنے سینے میں کتنے ہی راز سموئے ہوئے ہے، جس کے چپے چپے پر تاج نقش ہے، کہیں عکس بن کر کہیں زخم کی صورت۔ حارث 'کولمبس' اور 'واسکوڈی گاما' نہیں جو استحصالی طبقات کی دولت بڑھانے کے لیے اجنبی زمینوں کو ڈھونڈنے اور انھیں برباد کرنے نکلا ہو، وہ تو اپنی ہی سرزمین کو دریافت کرنے نکلتا ہے اور وہاں سے یادوں کے خزانے لا کر خلقت پر لٹا دیتا ہے۔'' یہ ذکر ہے 'پنجاب ایکسپریس' کا جو حارث بٹ کے صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں کے سفر کا احوال ہے، جو گذشتہ کچھ عرصے کے دوران 'سنڈے ایکسپریس' کی زینت بنتے رہے۔ اس کتاب میں کُل 17 'اسفار' شامل ہیں، جن میں سیال کوٹ، وادی سون، بھیرہ، چنیوٹ، پورن سنگھ، ایم آباد، چولستان، منڈی بہائوالدین وغیرہ شامل ہیں۔ ان سفرناموں میں ہمیں کسی روزنامچے کا سا انداز بھی ملتا ہے اور مکالموں کا طرز بھی۔۔۔ اور گاہے گاہے ان علاقوں کی تاریخ اور روایات کی پیش کش کا بھی اہتمام ہے۔ مختلف علاقوں کے پس منظر کے ساتھ سفرنامہ نگار کے احساسات اور مشاہدات کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ اشاعت 'دارالمصحف' (0335-1620824) نے کی ہے، جب کہ تقسیم کار'دربان کتابیں' (0300-0700313) ہے، 275 صفحات، قیمت 980 روپے رکھی گئی ہے۔
پُرتجسس کہانیاں
'سودائے جنوں' حنا خراسانی رضوی کی سات جاسوسی کہانیوں پر مشتمل کتاب ہے، جس میں پہلی کہانی کی سرخی کو کتاب کا عنوان کیا گیا ہے۔ مصنفہ کا خاندان دوسری جنگ عظیم میں ایران سے ہندوستان آیا، پھر کلکتے اور ڈھاکے میں رہنے کے بعد کراچی میں رہا، اور اب مصنفہ سوئیڈن میں اقامت پذیر ہیں۔ اور یہ مختلف سرزمینوں کا تنوع ان کی قلم کاری میں بھی در آتا ہے۔ کتاب کے پسِ ورق پر ڈاکٹر فاطمہ حسن لکھتی ہیں کہ ''مصنفہ نے اپنے 'پی ایچ ڈی' کے مقالے کے لیے ایک ایسے موضوع کا انتخاب کیا تھا جو ان کی سنجیدگی کو اتنا گہرا کر سکتا تھا کہ تخلیقی رنگ مدھم پڑ جاتا۔ مجھے خوشی ہے کہ انھوں نے صرف توازن ہی نہیں برقرار رکھا، بلکہ اپنے اظہار کے لیے کہانیوں میں ایسا انداز اختیار کیا ہے، جو ان کی شناخت بنا رہا ہے۔ ان کے 'پی ایچ ڈی' کا موضوع 'مذاہب عالم میں روحانیت کا تصور'' ہے۔ انھوں نے روحانیت کے تصور سے افسانہ نگاری کی تخیلاتی فضا میں جا کر ایسی کہانیاں تخلیق کی ہیں، جن میں جاسوسی کہانیوں جیسا سسپنس ہے، مگر وہ روایتی جاسوسی کہانیوں کے انداز میں بالکل نہیں لکھی گئیں۔'' اوج پبلی کیشنز' (hafeezaoj@gmail.com) ملتان سے شایع کردہ کتاب کی قیمت 800 روپے اور صفحات 166۔
'مولانا ابو الکلام آزاد سے انٹرویو' ڈاکٹر قمر فاروق کی اپنی نوعیت کی ایک نہایت منفرد تصنیف ہے کہ جس میں 1958ء میں انتقال کر جانے والے امام الہند ابوالکلام آزاد کے ایک 'انٹرویو' کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ دراصل ان کے حوالے سے مختلف معلومات اور مختلف امور پر ان کے نقطہ نظر کا اظہار ہے۔ اس کتاب میں کُل 113 سوالات اور ان کے جواب ہیں، جو ایک سطر سے ایک پیراگراف اور کچھ کئی صفحات تک بھی دراز ہیں۔
ان 'جوابات' کے لیے جن کتب اور دستاویزات سے استفادہ کیا گیا ہے، ان میں 'الہلال' اخبار، ترجمان القرآن (دیباچہ)، آزادی ہند، خطوط ابوالکلام آزاد (مالک رام)، غبارِخاطر، خطبات آزاد، ذکر آزاد (عبدالرزاق ملیح آبادی)، ابو الکلام آزاد کے ادبی شہ پارے، ابو الکلام آزاد (شورش کاشمیری)، ابو الکلام آزاد شخصیت وسیاست، نقش آزاد اور 'ہماری آزادی' شامل ہیں، تقریباً ہر جواب کے آخر میں متعلقہ کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے 'سوالات' میں تفسیر قرآن مجید، 'الہلال' کے مقاصد، ہندو مسلم اتحاد، دو قومی نظریہ، پاکستان کی مخالفت، تحریک خلافت، کانگریس، شملہ کانفرنس، مسلمانوں کی سیاسی حالت، اپنی سیاسی غلطی، بچپن، خاندان، لڑکپن، مسلک و عقائد، موسیقی سے شغف، ذاتی پسندوناپسند وغیرہ تک کے موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ کئی ایک جگہوں پر سوال کے بہ جائے صرف 'سرخی' درج کر کے بھی بات کی گئی ہے، جن میں شب قدر، روزے اور رمضان المبارک وغیرہ سے لے کر اکبر الہ آبادی، اسمعیل میرٹھی، محمد حسین آزاد، علامہ شبلی نعمانی، عبدالماجد دریا آبادی، حسرت موہانی، ظفر علی خان، چوہدری خلیق الزماں، خان عبدالقیوم خان اور محمد علی جناح اور لیاقت علی خان سے متعلق آرا شامل ہیں۔ اس کے کتاب کے مؤلف ڈاکٹر قمر فاروق کی اس سے قبل تیرہ کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ یہ کتاب ابوالکلام آزاد پر اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے، جس میں ان کی زندگی ، نظریات، تجربات ومشاہدات سے لے کر حالات و واقعات تک کا ایک خلاصہ ملتا ہے۔ زربفت پبلی کیشنز (03034060515, 0301-6360741) لاہور سے شایع ہوئی ہے، قیمت ایک ہزار روپے ہے۔
'اَمی جمی' گنگا جمنی تہذیب کی باتیں
کہتے ہیں کہ پورا ہندوستان اُجڑا تو کراچی شہر بسا۔۔۔! یعنی بٹوارے کے ہنگام میں ہندوستان بھر سے مختلف علاقوں کے لوگوں نے ہجرت کر کے اس نگر کو اپنا بنایا اور آگے بڑھایا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ 'شہرِ قائد' کی تہذیبی رنگا رنگی میں اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ یہاں کی سماجیات اور نشیب وفراز کو محفوظ کیا جائے۔ اسی حوالے سے شاہ ولی اللہ کی نئی کتاب 'شکستہ تہذیب۔۔۔ ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد' ایک دل چسپ اضافہ ہے۔
ازراہِ تفنن یار لوگ کراچی کے 'دارالحکومت' علاقے کی بات کرتے ہیں، تو رائے عامہ 'ناظم آباد' کے واسطے اچھی خاصی متفق دکھائی دیتی ہے اور اگر اسی سے منسلک کر لیجیے تو نارتھ ناظم آباد تھوڑے سے فرق کے ساتھ اسی 'تہذیب' کی ایک توسیعی صورت ہے، اور اب اس کی وسیع تر صورت 'نیا ناظم آباد' کے نام سے بھی آباد ہونا شروع ہوچکی ہے۔
ناظم آباد کی کہانی 1950ء کی دہائی سے شروع ہوتی ہے، سو یہی اس کتاب کے ابتدائی اوراق بھی ہیں، جس میں یہاں کی تاریخ، شخصیات اور واقعات کے حوالے سے ایک منفرد اور اہم تصنیف ہے، جس میں ناظم آباد کا محل وقوع، زبان وتہذیب، سماجی وادبی تقریبات، کچی آبادیاں، راشنگ سسٹم، سڑکوں کے نام، تھانے، صحت، صفائی، ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے ادارے، یہاں کی سیاسی گہماگہمی، تعلیمی ادارے، لائبریریاں، سینیما، منشیات کی لعنت اور شہر کے لسانی فسادات سے نیا ناظم آباد تک کا احوال موجود ہے۔
اس کے علاوہ یہاں کی عبادت گاہیں، مذہبی وقومی تہوار، یہاں رہائش پذیر شعرا، صحافی، محققین، معروف کھلاڑی، فن کار اور نام ور شخصیات، پھیری والوں قلعی گر اور ریستوران وغیرہ کا بیان بھی شامل ہے۔ اس منفرد کتاب میں بہت سے سیاسی واقعات کا بیان غیرضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق تو شہر کی مجموعی سیاسی صورت حال سے تھا، نہ کہ خاص ناظم آباد سے، لیکن صاحب کتاب نے اسے بھی شامل کیا۔ یہی نہیں اس بیان میں کئی ایک جگہوں پر مکمل حقائق کی تشنگی بھی محسوس کی گئی۔
اس کتاب میں بہت سی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں، ان کی طباعت بہتر ہو سکتی تھی۔ کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی اور ممتاز محقق خواجہ رضی حیدر نے بھی اظہار خیال کیا ہے۔ شاہ محمد حمزہ ریسرچ اینڈ پبلی کیشن سینٹر کراچی سے شایع شدہ 270 صفحات کی اس مجلد کتاب کے آخر میں ماخذ کا اہتمام بھی موجود ہے۔ کتاب ویلکم بک پورٹ (021-32633151, 32639581)پر دست یاب ہے ۔ قیمت 1000 روپے ہے۔
''ابا نامہ''
اس تصنیف کو ہم نشاط یاسمین صاحبہ کی کتاب 'اماں نامہ' کا ایک تسلسل قرار دے سکتے ہیں، جو کہ ان کی طنز ومزاح پر مبنی پہلی کتاب تھی۔ 33 صفحات پر محیط پانچ مضامین پر اظہار خیالات کے بعد اس کتاب کے 21 مضامین پر مشتمل مندرجات کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر انعام الحق جاوید، محمد عثمان جامعی، پروفیسر سلیم اختر اور دیگر کی آرا بھی شامل کی گئی ہیں۔ کتاب میں انتساب کے بعد ایک 'اعتذار' بھی شامل ہے کہ اس کتاب میں شامل واقعات و کردار وغیرہ سب فرضی ہیں، کسی کی بھی ان سے مماثلت محض اتفاقی ہوگی۔
جب ہم کتاب کی ورق گردانی کرتے ہیں تو اس 'عُذر نامے' سے اتفاق ہو ہی جاتا ہے، کیوں کہ کتاب گھومتی تو ہماری سماجی صورت حال کے گرد ہی ہے، تو اس سے بات کا بہت امکان ہے کہ آپ کو بھی وہ کردار یا واقعات اپنے ہی سامنے کے یا اپنے تجربے کے سے محسوس ہوں۔ سماجیات کے پھیرے لیتی ہوئی اس کتاب کے کردار بھی گھر بھر اور میل جول والوں ہی میں سفر کرتے ہیں۔ اور کہیں کہیں سیاسی حوالے بھی در آتے ہیں، لیکن مصنفہ اسے اپنے تئیں قطعی 'غیرسیاسی' قرار دیتی ہیں۔
اکثر مواد مکالموں سے آراستہ ہے، سیاسی اور حالات حاضرہ کا 'تڑکا' بھی گاہے گاہے ملتا ہے، کہیں اخباری کالموں جیسا احساس بھی بہ خوبی دست یاب ہے۔ یہ کتاب فکشن ہائوس(042-36307550-51) لاہور سے شایع ہوئی، 160 صفحات اور قیمت 700 روپے۔
'کتابِ زندگی' کے 'بابِ آخر' کے لیے
زندگی کیا۔۔۔ زندگی کیسے اور زندگی کس لیے۔۔۔؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں کہ کوئی بھی شخص چاہے کسی بھی اعتقادات کا مالک ہو، وہ ضرور چاہتا ہے کہ اس کی راہ درست ہو، اور وہ ایک بار ملنے والی اِس زندگی کو اچھے اور بھرپور طریقے سے گزار سکے۔ شاید 'قبل مسیح' کے زمانے ہی سے مختلف فلسفی اس موضوع پر اپنے اپنے طریقے سے اظہار خیال کرتے آئے ہیں۔ مختلف مذاہب بھی زندگی گزارنے کے طور طریقوں کی جانب بہت توجہ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے بچپن کو تعلیم وتربیت کے حوالے سے اہم قرار دیا جاتا ہے، اور اسی عمر میں انسان کو نئی نئی چیزوں کی جانب رغبت اور تجسس بڑھتا جاتا ہے۔ نتیجتاً اوائل عمری میں یہ شوق اور ولولہ عروج پر ہوتا ہے، جو کہ بچپن کے ختم ہونے کے بعد بھی کافی دیر جاری رہتا ہے۔ بچپن کے بعد انسان کی تعلیم وتربیت مکمل ہونے لگتی ہے اور عملی زندگی شروع ہوتی ہے۔ یہ عمر جوانی کہلاتی ہے اور زندگی میں کچھ بھی کرنے کے لیے یہ وقت اہم ترین ہوتا ہے اور جس نے بھی وقت کو پیسہ قرار دیا ہے، تو یقیناً یہ ساری 'کمائی' جوانی ہی کی رہین منت ہے۔ اس حوالے سے دو جلدوں پر مشتمل یہ کتاب 'بابرکت وباسعادت بڑھاپا' از محمد اجمل خان ایک اہم دستاویز ہے، جس میں قرآن وحدیث کی روشنی میں زندگی گزارنے کے مقاصد اور اسباق نہایت سادہ اور جامع انداز میں پہنچائے گئے ہیں۔ اس کتاب کا مخاطب نوجوان نسل ہے ، جس میں اسے جوانی کے بے لگام گھوڑے کو قابو میں رکھنے اور ضابطوں کا پابند رکھنے کی جانب توجہ دلائی گئی ہے، تاکہ جب یہ جوانی ختم ہو اور انسان کی زندگی پر ضُعف کے آثار ہوں، یعنی بڑھاپا آئے تو اس کے ماضی میں پچھتاوے نہ ہوں۔ مسلم نوجوانوں سے مخاطب اس کتاب کے مندرجات دیکھیے، تو اس میں زندگی کے عام سبق اور نصیحیتیں بہت وافر ملتی ہیں، جو شاید عمر کی کسی بھی قید سے آزاد ہیں۔ اس کتاب کے مشمولات میں ایمان اور ارکان ایمان، توحید، عقائد کی درستی، حدودالٰہی کی حفاظت، دل کی پاکیزگی، علم کی تڑپ، توبہ کرنے والوں کے آنسو، بیماری وشفا، علاج، صبر، عیادت، مکافات عمل، خوراک کا خیال، جسم سے کام لینے میں اعتدال، دماغی صحت، ورزش، اچھی نیند، قرض سے بچنا، وقت کی قدر و قیمت، وقت کی تنظیم، زندگی میں برکت، حسن سلوک، مخلوق کے حقوق، عمر اور رزق میں برکت، لمبی عمر اور بہترین عمل، اولاد اور رشتہ داروں کی اہمیت، غیر مسلم بزرگوں کی خبر گیری، 'اولڈ ایج ہوم' کے متبادل سماجی حل، والدین کی نافرمانی کی سزا، والدین کے دوستوں کے حقوق، ضعیفوں اور کمزروں کی وجہ سے رزق، دوستی اور دشمنی کا معیار اور دوستی کی اہمیت، بڑھاپے کی علامت، سفید بال، حجت اور عذر ختم کرنے والی عمر، معمر افراد کا عالمی دن، بڑھاپے کی تیاری، بابرکت بڑھاپا، وصیت کرنا، صدقہ جاریہ اور ہلاک کر دینے والے گناہ، چغل خوری، سود خوری، استغفار اور دعا، توبہ اور ذکر الٰہی وغیرہ جیسے دیگر بہت سے چھوٹے چھوٹے موضوعات اور نصیحتیں شامل ہیں۔ دو جلدوں پر مشتمل کتاب کے کُل صفحات 600 کے قریب ہیں، قیمت درج نہیں، تاہم حصول کتاب کے لیے رابطے کے لیے 0336-3780896 دیا گیا ہے۔
پہلو دار افسانے
'ماں ری' نشاط یاسمین خان کے افسانوں کا مجموعہ ہے، جو 'سانجھ پبلی کیشنز' (0333-4051741) سے شایع ہوا ہے۔ اس کتاب کے افسانے سماجی موضوعات اور مسائل کے اردگرد گھومتے ہیں، جن کی خاص بات یہ ہے کہ یہ افسانے کسی 'ناول' کی طرح چھوٹے 'ابواب' میں بٹے ہوئے ہیں، جس سے یہ گمان گزرتا ہے کہ یہ کوئی نیا افسانہ ہے، لیکن جب پڑھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ پچھلے افسانے ہی کا تسلسل ہے۔ یہ امر مناظر اور متکلم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ افسانے کے پہلو دار ہونے کا بھی پتا دیتا ہے، جسے یقینی طور پر ایک اہم محاسن کے طور پر شمار کیا جانا چاہیے۔ کتاب مین شامل 16 افسانوں میں سے تیسرے افسانے 'ماں ری' ہی کو اس کتاب کا عنوان کیا گیا ہے۔ کتاب کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر رئوف پاریکھ خلاف توقع عمدہ قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی درست اردو لکھنے پر اظہار مَسرت بھی کرتے ہیں۔ کتاب کی ضخامت 240 صفحات تک دراز ہے، مہنگائی کے دور میں جب کتابوں کے کاغذ اور طباعت کا معیار بہت زیادہ آزمائش سے دوچار دکھائی دیتا ہے، ایسے میں اس کتاب کے اجلے صفحات اور چمکتی طباعت قاری کی بصارت کو ایک خوش گوار احساس دلاتی ہے، 239 صفحات اور قیمت 660 روپے ہے۔
'پنجاب ایکسپریس'
اس حوالے سے محمد عثمان جامعی رقم طراز ہیں: ''حارث پنجاب کا مصور ہے، اس پنجاب کا مصور جس کی رگ رگ میں ہریالی پھوٹتی ہے، جس کی اناج اُگلتی دھرتی اپنے سینے میں کتنے ہی راز سموئے ہوئے ہے، جس کے چپے چپے پر تاج نقش ہے، کہیں عکس بن کر کہیں زخم کی صورت۔ حارث 'کولمبس' اور 'واسکوڈی گاما' نہیں جو استحصالی طبقات کی دولت بڑھانے کے لیے اجنبی زمینوں کو ڈھونڈنے اور انھیں برباد کرنے نکلا ہو، وہ تو اپنی ہی سرزمین کو دریافت کرنے نکلتا ہے اور وہاں سے یادوں کے خزانے لا کر خلقت پر لٹا دیتا ہے۔'' یہ ذکر ہے 'پنجاب ایکسپریس' کا جو حارث بٹ کے صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں کے سفر کا احوال ہے، جو گذشتہ کچھ عرصے کے دوران 'سنڈے ایکسپریس' کی زینت بنتے رہے۔ اس کتاب میں کُل 17 'اسفار' شامل ہیں، جن میں سیال کوٹ، وادی سون، بھیرہ، چنیوٹ، پورن سنگھ، ایم آباد، چولستان، منڈی بہائوالدین وغیرہ شامل ہیں۔ ان سفرناموں میں ہمیں کسی روزنامچے کا سا انداز بھی ملتا ہے اور مکالموں کا طرز بھی۔۔۔ اور گاہے گاہے ان علاقوں کی تاریخ اور روایات کی پیش کش کا بھی اہتمام ہے۔ مختلف علاقوں کے پس منظر کے ساتھ سفرنامہ نگار کے احساسات اور مشاہدات کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ اشاعت 'دارالمصحف' (0335-1620824) نے کی ہے، جب کہ تقسیم کار'دربان کتابیں' (0300-0700313) ہے، 275 صفحات، قیمت 980 روپے رکھی گئی ہے۔
پُرتجسس کہانیاں
'سودائے جنوں' حنا خراسانی رضوی کی سات جاسوسی کہانیوں پر مشتمل کتاب ہے، جس میں پہلی کہانی کی سرخی کو کتاب کا عنوان کیا گیا ہے۔ مصنفہ کا خاندان دوسری جنگ عظیم میں ایران سے ہندوستان آیا، پھر کلکتے اور ڈھاکے میں رہنے کے بعد کراچی میں رہا، اور اب مصنفہ سوئیڈن میں اقامت پذیر ہیں۔ اور یہ مختلف سرزمینوں کا تنوع ان کی قلم کاری میں بھی در آتا ہے۔ کتاب کے پسِ ورق پر ڈاکٹر فاطمہ حسن لکھتی ہیں کہ ''مصنفہ نے اپنے 'پی ایچ ڈی' کے مقالے کے لیے ایک ایسے موضوع کا انتخاب کیا تھا جو ان کی سنجیدگی کو اتنا گہرا کر سکتا تھا کہ تخلیقی رنگ مدھم پڑ جاتا۔ مجھے خوشی ہے کہ انھوں نے صرف توازن ہی نہیں برقرار رکھا، بلکہ اپنے اظہار کے لیے کہانیوں میں ایسا انداز اختیار کیا ہے، جو ان کی شناخت بنا رہا ہے۔ ان کے 'پی ایچ ڈی' کا موضوع 'مذاہب عالم میں روحانیت کا تصور'' ہے۔ انھوں نے روحانیت کے تصور سے افسانہ نگاری کی تخیلاتی فضا میں جا کر ایسی کہانیاں تخلیق کی ہیں، جن میں جاسوسی کہانیوں جیسا سسپنس ہے، مگر وہ روایتی جاسوسی کہانیوں کے انداز میں بالکل نہیں لکھی گئیں۔'' اوج پبلی کیشنز' (hafeezaoj@gmail.com) ملتان سے شایع کردہ کتاب کی قیمت 800 روپے اور صفحات 166۔