غزل
ہستی ملا کے خاک میں پھر سے نیا بنا
جیسا اُسے پسند ہو، کوزہ گرا ،بنا
میں ننگے پاؤں چلنے لگا خارزار پر
آئی صدا تھی غیب سے، چل راستہ بنا
مبہم تمہاری بات سے کچھ اختلاف ہے
بہتر یہی ہے اور کوئی ہم نوا بنا
جی چاہتا ہے روح میں اُس کو اتار لوں
حالات کہہ رہے ہیں ذرا فاصلہ بنا
بدلے ہوئے ہیں رہزنوں نے بھیس آج کل
کچھ دیکھ بھال کر تُو کوئی رہنما بنا
آدم کے بعد قیس کی تھی پیروی ہوئی
اور اس طرح سے پیار کا یہ قافلہ بنا
تجھ کو تمہارے روپ کا پرتو دکھائی دے
ارشدؔ کسی کی آنکھ کو تُو آئنہ بنا
(ارشد محمود ارشد۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
اک نیا دشت نئی راہ گزر ہے ہم ہیں
یعنی درپیش نیا ایک سفر ہے ہم ہیں
اور ہے کون جو واقف ہے اصولوں سے یہاں
دھوپ میں جلتا ہوا کوئی شجر ہے ہم ہیں
جانے والے تِرے آنے کا یقیں ہے ہم کو
راہ تکتی ہوئی بیتاب نظر ہے ہم ہیں
روح میں ایک الاؤ سا ہے روشن کب سے
رات کے سائے میں پنہاں جو سحر ہے ہم ہیں
دوستو، راہزنو، میرے عزیزو! سن لو
جن کو خاموشی سے لٹنے کا ہنر ہے ہم ہیں
سلسلہ وار فریبوں کا سفر ہے منعمؔ
خاک ہوتا ہوا رشتوں کا نگر ہے ہم ہیں
(آفتاب غنی منعم۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
اب کبھی لوٹ کے دلدار نہیں آئے گا
من کو مہکائے جو عطار نہیں آئے گا
میں کہ واقف ہوں ہمیشہ سے بڑے شملوں سے
چھوڑ کے اپنی وہ اقدار نہیں آئے گا
زندگی عشق میں داؤ پہ لگا دی جس نے
کھو دیا اس نے جو پندار نہیں آئے گا
دل بڑا خوف زدہ ہے تو نگاہیں سہمی
جب سے عامل نے کہا، یار نہیں آئے گا
آج کل جھوٹی ہی ریحانہؔ لگاتے خبریں
کل سے دہلیز پہ اخبار نہیں آئے گا
(ریحانہ اعجاز۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
جو میسر ہے اُسی شے کی ضرورت کم ہے
حسن والوں کی مرے شہر میں عزت کم ہے
میں نے جو جرم کیا ہے وہ مرے اندر ہے
اور وہ جرم بتانے کی بھی ہمت کم ہے
اُس جگہ بولنا معیوب سا لگتا ہے مجھے
جس جگہ پر بھی مری بات کی وقعت کم ہے
سات لوگوں کی کفالت مرے سر ہے شافیؔ
کمسنی میں مجھے جینے کی اجازت کم ہے
(بلال شافی۔ جڑانوالہ ،فیصل آباد)
۔۔۔
'' اعتراف''
خوبرو شخص یہ سب تیرے توسط سے ہیں
اتنے خدشات مجھے پہلے نہیں ہوتے تھے
اب تو ڈرتا ہوں کبھی سگرٹوں کی ڈبیا بھی
جیسے سینے کا خلا ہے کہیں خالی نہ ملے
اتنے سفاک سے دن پہلے نہیں ہوتے تھے
پہلے تو شامیں بھی یوں تلخ نہیں ہوتی تھیں
مسکراتا بھی تھا اور زندگی بھی ہنستی تھی
تُو نہیں ہوتا تو بے چین نہیں ہوتا تھا
کوئی دکھ کوئی خلش دل میں نہیں رہتی تھی
آنکھیں بھی رونے کے آداب سے ناواقف تھیں
درد یا پیاس ہو یا راستوں کی گرد کہو
جو ملا تیرے توسط سے ملا ہے مجھ کو!
(احمد قاسم ۔عارف والا)
۔۔۔
غزل
کہنے کو اپنی زندگی کچھ زندگی نہ تھی
لیکن پھر اپنے ہاتھ میں تو موت بھی نہ تھی
اس کا اک ایک حرف سراپا جمال تھا
وہ تب بھی شاعری تھی کہ جب شاعری نہ تھی
مجھ کو غمِ حیات سے یوں بھی نہ تھا فرار
ہر چیز اختیار میں تھی بے بسی نہ تھی
منزل سے قبل سارے مصائب تھے عارضی
منزل کے بعد کوئی خوشی عارضی نہ تھی
وہ پھول ایسا پھول جو کھلتا تھا روز روز
کیونکہ محبتوں کی فضا موسمی نہ تھی
بعد از وصال یار تو شعلہ نما تھا دل!
ویسے یہ آگ پہلے کبھی یوں جلی نہ تھی
وحشت کا وقت کاٹنے پھرتے تھے شہر شہر
لیکن سکوں کے واسطے کوئی گلی نہ تھی
یہ اس کا حکم تھا کہ فقط دیکھنا نہیں
ورنہ ہماری آنکھ میں کیا روشنی نہ تھی
مجھ پر ازل سے فرض تھی پابندیٔ وفا
اس پر وفا کی شرط کوئی واجبی نہ تھی
(شائق سعیدی ۔نواں کوٹ، رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
ہائے وہ عشق وہ جذبہ وہ لگاؤ پہلا
اب کہاں عشق کے دریا میں بہاؤ پہلا
جس طرح بچہ کوئی پہلا کھلونا رکھے
میرے معصوم دنوں کا ہے تُو چاؤ پہلا
یاد ہیں آج بھی وہ حیلے بہانے لیکن
بھول پائی نہ تری آنکھ کا داؤ پہلا
اب تو ممکن ہی نہیں لوٹ کے واپس آؤں
لاکھ باتوں میں مجھے پیار جتاؤ پہلا
فیض کا شعر کبھی سن کے جو میں روئی تھی
آج دل میں ہے وہی شعر سناؤ پہلا
تم دیا بن کے جو جلتے ہو ذرا یاد رہے
روشنی دیتا ہے جل جل کے الاؤ پہلا
اب دلِ ناز تری بات نہیں مانے گا
ڈال نہ باتوں سے اس دل پہ دباؤ پہلا
(زریں منور۔ امرت نگر،میاں چنوں)
۔۔۔
غزل
مالک مرے وجود کو تعمیر کھا گئی
دیمک لگی تھی خواب کو تعبیر کھا گئی
میں دس برس تک اشکوں کے گہرے بحر میں تھا
منزل کو میری وقت میں تاخیر کھا گئی
چلنے لگوں تو یاد یہ آتا ہے اب مجھے
پاؤں تو میرے ہجر کی زنجیر کھا گئی
اِس سلطنتِ جسم پہ دل حکمران تھا
عقل و شعور شاہ کی جاگیر کھا گئی
جتنے بھی مجھ کو یار سے شکوے تھے ہجر کے
اس دلربا کی ایک ہی تصویر کھا گئی
(حسیب علی۔ چونڈہ)
۔۔۔
غزل
چل رہی ہیں دل کی باتیں زندگی کے ساتھ ساتھ
کام سارے ہو رہے ہیں بے دلی کے ساتھ ساتھ
شاعری، مضموں نگاری اور مقالہ جات بھی
ہو رہی ہیں کاوشیں سب عمد گی کے ساتھ ساتھ
جس کے دم سے زندگی تھی جب سے وہ رخصت ہوا
سانس بھی جاتی رہی آہستگی کے ساتھ ساتھ
میں نے کیونکر ایک ایسے شخص کو چاہا کہ جو
دوستی رکھتا ہے مجھ سے دشمنی کے ساتھ ساتھ
وہ نہیں میرا یہ جس دن آ گیا دل کو یقین
صبر آ جائے گا مجھ کو آگہی کے ساتھ ساتھ
رب ملے گا اس عبادت اور عقیدت سے تمہیں
عاجزی شامل ہو جس میں بندگی کے ساتھ ساتھ
ہو عطا مجھ کو سخن میں ایسا اسلوبِ بیاں
جس میں ہو جدت ارونی ؔسادگی کے ساتھ ساتھ
(عابدہ ارونی۔میرپور خاص، سندھ)
۔۔۔
غزل
کسی کی آنکھوں سے آنکھیں ملانا ٹھیک نہیں
کسی کی یاد میں عمریں بتانا ٹھیک نہیں
یہ جان کر بھی کہ نازک مزاج ہے یہ اسیر
یوں بات بات پہ دل کو دُکھانا ٹھیک نہیں
مرے علاوہ کسی اور کا ہے حق تم پر
اب اپنا پیار سے ملنا ملانا ٹھیک نہیں
ہر ایک موڑ پہ مطلب پرست ملتے ہیں
ذرا سنبھل کے چلو یہ زمانہ ٹھیک نہیں
یہ مشورہ ہے مرا کل فقیر زادوں کو
امیر زادوں سے دل کا لگانا ٹھیک نہیں
جو بات دل میں ہے وہ صاف صاف کہہ دیجئے
یوں بار بار مجھے آزمانا ٹھیک نہیں
کسی بھی کام میں لگتا نہیں ہے دل میرا
تجھے خبر بھی ہے تیرا دوانہ ٹھیک نہیں
ہمیں پتہ ہے تیرے روز و شب کے بارے میں
یہ تیرا حیلہ یہ تیرا بہانا ٹھیک نہیں
کسی فریبی کے چکر میں پڑ کے اے فیضیؔ
تمام قیمتی لمحے گنوانا ٹھیک نہیں
(محمد فرقان فیضی ۔برہم پوری، سرلاہی، نیپال)
۔۔۔
غزل
صبحِ بیدار کا خدا حافظ
حق کی دستار کا خدا حافظ
حضرتِ شیخ سے الجھ بیٹھا
مجھ گنہ گار کا خدا حافظ
اُس مسیحا کے ہاتھ میں مرہم
حالتِ زار کا خدا حافظ
ایک میت پلٹ کے لوٹی ہے
کوچۂ یار کا خدا حافظ
اُن کے آنے کی کچھ خبر آئی
دل کی رفتار کا خدا حافظ
اُس نے تحفے میں پھول بھیجے ہیں
میرے اغیار کا خدا حافظ
وہ تو آنکھوں سے ہو گیا اوجھل
میرے اشعار کا خدا حافظ
ہم تو دنیا سے چل دیے طلحہؔ
زیست کے بھار کا خدا حافظ
(طلحہ بن زاہد۔ اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
شاعرِ نامراد ہوں میں بھی
یعنی بے اعتقاد ہوں مَیں بھی
دل کے مقتل میں آ کھڑاہوں میں
اپنے اندر جہادہوں میں بھی
میں نے مانا کہ اب وہ تیری ہے
لیکن اُس کو تو یاد ہوںمیں بھی
مجھ سے مت بحث کیجئے صاحب
اپنے آگے تضاد ہوں میں بھی
لفظ میرے قلم کو چومتے ہیں
شاعری کی نژاد ہوں میں بھی
ایسا لگتا ہے اِس زمیں پہ عدیل
ایک گہرا فساد ہوں میں بھی
شاعری کے فنون میں غرقاب
میر و غالب کے بعد ہوں میں بھی
(عدیل رضا غرقاب۔ راولپنڈی)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی