برطانیہ اب پہلے جیسا نہیں رہا

زمرد نقوی  پير 1 جولائی 2024
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

برطانیہ میں قبل از عام انتخابات 4جولائی کو ہو رہے ہیں۔ جب کہ یہ انتخابات جنوری2025 کو ہونے تھے۔کنگ چارلس کی مشاورت سے برطانوی وزیر اعظم نے یہ اعلان اپنی سرکاری رہائش گاہ 10ڈاؤننگ اسٹریٹ سے کیا۔ 30مئی کو برطانوی پارلیمان کی مدت ختم ہو گئی۔ قبل از انتخابات برطانیہ میں کوئی انوکھی بات نہیں۔ گزشتہ 6برسوں میں وہاں دو مرتبہ ایسے انتخابات ہو چکے ہیں۔

پاکستان جیسے ملکوں میں اس چیز کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں تو بغیر انتخابات کے اقتدار میں رہنے کا مزاج ہے۔ برطانیہ کی آبادی ساڑھے چھ کروڑ ہے۔ یہ اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ پر مشتمل ہے۔ تین برس پہلے برطانیہ نے یورپی یونین سے جو 29ممالک پر مشتمل تھی سے علیحدگی اختیار کر لی۔ سب سے بڑی وجہ اس کی یہ تھی کہ یورپی یونین کے جو غریب ملک تھے وہاں کے عوام نے برطانوی سوشل ویلفیئر مراعات سے فائدہ اٹھانے کے لیے برطانیہ پر ہلہ بول دیا جس کے نتیجے میں معیشت دباؤ میں آگئی اور برطانوی عوام میں غیر ملکیوں کے خلاف شدید جذبات پیدا ہوئے۔

اس دفعہ بھی معیشت کے علاوہ برطانوی عوام کے سامنے تارکین وطن ایک اہم مسئلے کے طور پر سامنے آئیں گے۔ انڈین کے بعد پاکستانی دوسری بڑی آبادی کے طور پر جن کی تعداد بارہ لاکھ ہے رہ رہے ہیں۔ برطانیہ میں غیر ملکیوں کے خلاف سخت ترین قوانین بن رہے ہیں۔ تعلیم کے نام پر برطانیہ جانا وہاں کام کرنا کاغذی شادی کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ پارٹ ٹائم کام کی اجازت بھی ختم کر دی گئی ہے۔ پاکستانی اور دوسرے ایشیائی ممالک کے بوڑھے والدین کے لیے رہائشی سہولت بھی ختم کر دی گئی ہے۔

موجودہ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کے دادا کا تعلق پاکستانی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے تھا۔ تقسیم سے پہلے ہی ان کے دادا بہتر ذریعہ معاش کے سلسلے میں مشرقی افریقہ چلے گئے جب کے ان کے والد کی پیدائش افریقی ملک کینیا میں ہوئی۔ یہ فیملی وہاں سے برطانیہ منتقل ہو گئی۔ رشی سوناک 1980 میں برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ دوران تعلیم ویٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ عملی زندگی کا آغاز ملازمت سے کیا۔ان کی وائف انڈین ارب پتی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ برطانوی تاریخ میں تین صدیوں بعد42سال کی عمر میں کم عمر وزیر اعظم بننے کا اعزار حاصل کیا۔

رشی سونک کا تعلق برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی سے ہے وہ 2022 سے برطانیہ کے وزیراعظم ہیں وہ پہلے ایشین ہیں جو برطانیہ کے وزیراعظم بنے۔ رشی سونک وزیراعظم بننے سے پہلے وزیراعظم بورس جانسن کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے۔ ان کی اہلیہ اکشتا مورتی کا شمار برطانیہ کی امیر ترین خواتین میں ہوتا ہے۔ رشی سونک 2015  سے کنزرویٹو پارٹی کے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ برطانیہ میں سیاسی بحران کے باعث ایک خاتون لزٹرس برطانیہ کی وزیراعظم بنی تھیں لیکن 45دنوں کے بعد ہی انھوں نے وزارت عظمی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔ رشی سونک نے وزیراعظم بننے کے بعد لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ ملک کو درپیش معاشی مسائل کو حل کریں گے انھوں نے اس موقع پر ملک میں سیاسی استحکام اور اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ گو آج برطانیہ سکٹر کر ایک جزیرے تک محدود ہو گیا ہے۔ لیکن ایک زمانہ تھا کہ برطانوی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔

خود امریکا بھی ایک زمانے میں برطانیہ کی کالونی تھی جسے جنرل واشنگٹن نے پونے تین صدی پہلے برطانیہ کو شکست دے کر آزادی حاصل کی۔ جب کہ ہندوستان بھی برطانیہ کے زیر نگیں رہا۔ برطانیہ اپنے وقت کی بہت بڑی سامراجی طاقت تھا۔ عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد عرب حکومتوں کا قیام ہو یا برصغیر کی تقسیم کے موقعہ پر گورداسپورکے ذریعے بھارت کو کشمیر تک زمینی راستہ فراہم کرنا ایک ایسا عمل تھا جس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کو ایک سوالیہ نشان بنا دیا۔

اسرائیل کا قیام جو برطانوی سازش کے تحت ہوا نتیجہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ حماس نے اسرائیل پر حملے کے دوران 250 قیدی بنائے جب کہ اسرائیل جواب میں9200 فلسطینیوں کو قیدی بنا چکا ہے۔ ان سے بدترین سلوک کیا جا رہا ہے جس میں ان پر ظلم و تشدد کی ہرحد پار کر دی گئی ہے۔ جب کہ حماس کی قید میں اسرائیلی بہترین حالت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ چاہے ان میں عورتیں ہوں یا مرد۔ 21ہزار بچے لاپتہ ہیں یا ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ برطانیہ یورپ امریکا حتی کہ اسرائیل میں بھی جنگ بندی کے لیے بڑے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں لیکن بجائے اس کے اسرائیل جنگ کو توسیع لبنان تک دینے جا رہا ہے۔ امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار نے ایک امریکی جنرل کے حوالے سے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو جنگ اپنی پوری شدت سے پورے مشرق وسطی کو اپنے لپیٹ میں لے لے گی۔ کیونکہ ایران حزب اﷲ کے دفاع کے لیے کسی کوشش سے دریغ نہیں کرے گا۔

لامحالا اس کے ہر طرح کے بدترین اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ دنیا اس وقت بدترین امریکی سامراجی غلامی کے شکنجے میں ہے جس کا آغاز سوویت یونین کے خاتمے سے ہوا۔ افغان مجاہدین کو دعائیں دیں یہ خود تو لاکھوں کی تعداد میں مارے گئے لیکن امریکا کا دنیا پر قبضہ کروا دیا۔ وہ مقدس جنگ جس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اربوں کی منشیات پوری دنیا میں پھیلائی گئیں۔

امریکا اور اس کی اتحادی قوتوں نے ایک منصوبے کے تحت لیبیا ،عراق، شام کو تباہ کر دیا۔انھوں نے یہاں تک ہی بس نہیں کیا بلکہ جس مسلمان ملک سے بھی انھیں کوئی خطرہ محسوس ہوا انھوں نے اس کے خلاف سازشوں کے جال بننا شروع کر دیے۔ ایران کے خلاف پچھلے 45سال سے مسلسل سازشیں جاری ہیں۔ مسلم ممالک ایک طویل مدت کے لیے امریکی غلامی میں چلے گئے ہیں۔ یوکرین میں بھی وہی سازش ہو رہی ہے جس طرح سازش کر کے سوویت یونین کو افغانستان میں گھیرا گیا۔ آج پورا سامراجی میڈیا یوکرین میں روس کو جارح قرار دے رہا ہے حالانکہ وہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ برطانیہ امریکا کی صدیوں پرانی سامراجی بالادستی کو چین اور روس سے خطرہ لاحق ہے۔ اس کا ایک ہی سامراجی حل ہے کہ روس اور چین کو تباہ کر دیا جائے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ دنیا ہرگزرتے دن تیسری عالمی جنگ کے قریب ہو رہی ہے۔

اس سال کی آخری سہ ماہی میں دنیا عالمی جنگ کے دہانے پر پہنچ جائے گی اور یہی وقت حکمران طبقات کے لیے انتہائی سخت وقت ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔