مہنگے ٹرسٹی اسپتال اور ڈاکٹرز

سرکار کی مہنگی زمینوں پر قائم ان ٹرسٹی اسپتالوں سے ٹرسٹ کی وجہ سے حکومت کوئی ٹیکس وصول نہیں کرتی

m_saeedarain@hotmail.com

سینیٹ کی خزانہ کی قائمہ کمیٹی نے ٹرسٹوں کے نام پر قائم کیے گئے بڑے اور مہنگے اسپتالوں پر سیلز ٹیکس لگانے کی حمایت کر دی ہے اور ارکان کمیٹی نے کہا ہے کہ حالت یہ ہوگئی ہے کہ مہنگے ٹرسٹی اسپتالوں میں میتیں بیس بیس لاکھ کے بل بنا کر عدم ادائیگی پر روک لی جاتی ہیں اور لواحقین قرضے لے کر ان اسپتالوں کے بل ادا کرکے اپنے پیاروں کی میتیں حاصل کرکے تدفین کرتے ہیں۔

قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے اجلاس میں بتایا کہ ایک بڑے اسپتال نے فوت ہو جانے والے شخص کے علاج کا بیس لاکھ روپے کا بل بنا کر دیا جس کی لواحقین ادائیگی نہ کرسکے تو ان کی میت روک لی گئی، اگر حکومت ان ٹرسٹی اسپتالوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دیتی ہے تو ان کا آڈٹ بھی کرے۔ رکن کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ٹرسٹ اسپتالوں نے مہنگے ڈاکٹر بھی بٹھائے ہوئے ہیں جو مریضوں سے بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں اور ان ڈاکٹروں نے ٹرسٹ کے نام پر اپنی لیبارٹریز بنا رکھی ہیں جو ٹیسٹوں کی بھاری فیسیں چارج کرتی ہیں۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ یہ ٹرسٹ بڑے اسپتال حکومت کو کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے جب کہ سرکاری اسپتال سیلز ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ٹرسٹ اسپتالوں پر ٹیکس ادا کرنے کی حمایت تو کردی ہے مگر ٹرسٹی اسپتال یہ ٹیکس بھی اپنی آمدنی سے ادا نہیں کریں گے بلکہ مریضوں کے بلوں میں یہ ٹیکس بھی شامل کر دیا جائے گا جس سے لاکھوں روپے کے بل میں نئے ٹیکس کے نام پر یہ مہنگے اسپتال ہزاروں روپے کا یہ ٹیکس بڑھا کر علاج مزید مہنگے کردیں گے۔

ٹرسٹوں کے نام پر معمولی نرخوں پر حکومت سے وسیع زمینیں لے کر وہاں قائم کیے گئے یہ ٹرسٹی اسپتال اکثر مہنگے ہیں جہاں غریبوں کا تو داخلہ ہی ممکن نہیں۔ کراچی میں ایسے بڑے اسپتال بھی ہیں جو قائم ہی پوش اور مہنگے علاقوں میں ہیں جہاں آنے والے مریض کے علاج پر فوری توجہ نہیں دی جاتی بلکہ اس کے لواحقین سے مریض کی مالی حالت پہلے پوچھی جاتی ہے جو اگر مستحکم ہو تو پہلے مرحلے میں ہزاروں روپے جمع کرانے کا پہلے کہا جاتا ہے اور اگر مریض کی مالی حالت بہتر نہ ہو تو اسے سرکاری اسپتال لے جانے کا کہہ دیا جاتا ہے۔

ٹرسٹی اسپتالوں میں چھوٹے اسپتال بھی ہیں جن کی عمارتیں چھوٹی تو ہوتی ہیں مگر مریضوں پر رعب ڈالنے کے لیے خوبصورت ہوتی ہیں ، اور وہ ضرورت کے مطابق عملہ رکھتے ہیں اور ان کی فیسیں لاکھوں نہیں ہزاروں میں ہوتی ہیں اور وہاں انتظامیہ سے کوئی شکایت بھی آسانی سے کی جاسکتی ہے مگر مہنگے، بڑے اور ٹرسٹی اسپتالوں میں شکایت بھی نہیں سنی جاتی۔


سرکار کی مہنگی زمینوں پر قائم ان ٹرسٹی اسپتالوں سے ٹرسٹ کی وجہ سے حکومت کوئی ٹیکس وصول نہیں کرتی جب کہ زیادہ تر سرکاری اسپتال بھی اب مذبح خانے بنا دیے گئے ہیں جہاں مریضوں کو بے فائدہ سستی دوائیں دی جاتی ہیں اور مہنگی دوائیں باہر سے لانے اور بیماریوں کے اکثر ٹیسٹ سرکاری لیبارٹری کے بجائے باہر کی مخصوص پرائیویٹ لیبارٹری سے کرانے کا کہا جاتا ہے جہاں سے انھیں مریض بھیجنے کا کمیشن بھی ملتا ہے۔

سرکاری اور غیر سرکاری ڈاکٹروں نے اپنے اپنے پرائیویٹ کلینک بنا رکھے ہیں جہاں ان سے دوا ساز کمپنیوں کے ریپ ملاقاتیں کرکے ان ہی کمپنی کی دوائیں لکھنے کی درخواست کرتے ہیں اور اس کے بدلے دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں کے کلینکس بنوا کر دیتی ہیں۔ ڈاکٹروں کو بیرون ملک اپنے خرچے پر سیر کراتی ہیں۔ کلینکس میں اے سی لگوا کر دیے جاتے ہیں، تحائف دیے جاتے ہیں اور زیادہ مال خرچ کرنے والی کمپنی کی دوائیں لکھ کر مریضوں پر تجربے ہوتے ہیں اور دوا سے فائدہ نہ ہونے پر دوسری کمپنی کی دوا لکھ دی جاتی ہے۔

بعض ڈاکٹروں نے اپنے میڈیکل اسٹور بھی بنا رکھے ہیں جہاں انھیں مہنگی دوائیں لکھ کر خریدنے کا کہا جاتا ہے اور دوائیں اپنے پاس منگوا کر طریقہ استعمال بتایا جاتا ہے اس طرح ڈاکٹروں کی کمائی مزید بڑھ جاتی ہے۔ ڈاکٹروں کے اپنے میڈیکل اسٹوروں پر کوئی ڈسکاؤنٹ بھی نہیں دینا پڑتا جب کہ حقیقی رفاہی اسپتال مریضوں کو نہیں لوٹتے بلکہ اپنے اسٹور سے انھیں کم نرخوں پر دوائیں فروخت کرتے ہیں جہاں مریضوں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں اور دوائیں بھی خالص ملتی ہیں۔

پرائیویٹ اسپتالوں نے اپنی مختلف علاقوں میں اضافی برانچیں بنا رکھی ہیں جہاں زچہ خانہ ضرور ہوتے ہیں کیونکہ یہ زچہ خانے اسپتالوں کی اندھی کمائی کا ذریعہ ہوتے ہیں اور وہاں ایمرجنسی میں داخل حاملہ خواتین کو ڈراؤنے ڈاکٹر جھوٹ بول کر خوفزدہ کرتے ہیں اور نارمل ڈلیوری کیسوں کو پیچیدہ قرار دے کر نارمل ڈلیوری کے بجائے حاملہ عورت کے لواحقین سے جھوٹ بولا جاتا ہے کہ کیس خراب ہو گیا ہے آپریشن سے ڈلیوری کرائیں ورنہ زچہ و بچہ کی جان جا سکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں لواحقین گھبرا جاتے ہیں اور بھاری رقم ادا کرکے آپریشن کراتے ہیں جو نارمل ڈلیوری سے ڈبل رقم میں ہوتا ہے اور اکثر زچہ خانوں میں ڈاکٹر جھوٹ بول کر مریض لانے والوں کو پریشان کر دیتے ہیں جب کہ اکثر ڈلیوری کیس نارمل ہو سکتے ہیں جنھیں مفاد پرست ڈاکٹر پیچیدہ بنا کر مال بنا رہے ہیں۔

چھوٹے پرائیویٹ اسپتالوں میں بعض اچھے بھی ہیں جہاں درد دل رکھنے والے ڈاکٹرز بھی ہوتے ہیں مگر ایسے زچہ خانے کم ہیں اسی لیے غریب انھیں ترجیح دیتے ہیں۔ سرکاری زچہ خانوں کی حالت بھی اطمینان بخش نہیں اور لواحقین سے باہر سے دوائیں منگوائی جاتی ہیں اور باقی بچ جانے والی ادویات عملہ خود رکھ لیتا ہے اور زیادہ دوائیں جان بوجھ کر منگوائی جاتی ہیں تاکہ زچگی مہنگی سے مہنگی ہو۔
Load Next Story