حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات
دیکھاجائے تو ہراپوزیشن کو الیکشن کے فیئراورصاف وشفاف ہونے پر اعتراضات ہوتے ہیں
فروری 2024 کے انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ گزشتہ تین ماہ سے اپناکام کر رہی ہے۔وہاں حکومتی اراکین کے علاوہ اپوزیشن کے ارکان بھی ہراجلاس میں نہ صرف شرکت کرتے ہیں بلکہ ہرتحریک اورقرارداد کی منظوری میں اپناقانونی اورآئینی حق بھی بھرپور طریقہ سے استعمال کرتے ہیں۔وہ چاہیں اس کے حق میں ووٹ نہ دیں لیکن بطور حزب اختلاف اپنی تنقید ضرور کرتے ہیں اوراس کے خلاف ووٹ بھی دیتے ہیں۔
یہی جمہوری نظام حکومت کاحسن ہوتا ہے کہ وہاں کوئی بھی فرد واحد مطلق العنان بن کربیک جنبش قلم اپنا ہرحکم منوا نہیں سکتا۔کثرت رائے سے وہاں قانون سازی ہوتی ہے اورہربل اور قرارداد منظورکی جاتی ہے۔اسی لیے کہتے ہیں کہ بد سے بد تر جمہوریت بھی اچھے اور بہترین آمرانہ نظام کے مقابلے میں اچھی ہوتی ہے۔وہاںعوام کے حقوق کی باتیں ہوتی ہیں اور انھیں وزن بھی دیاجاتاہے۔یہ اوربات ہے کہ اپوزیشن کو ہمیشہ اپنے مینڈیٹ کے حوالے سے کچھ شکایتیں بھی رہتی ہیں اورکچھ تحفظات بھی ہوتے ہیں لیکن ساری جماعتیں ملک کر وطن عزیز کے مفادات کو ترجیح اوراہمیت دیتے ہوئے آگے بڑھتی جاتی ہیں۔
دیکھاجائے تو ہراپوزیشن کو الیکشن کے فیئراورصاف وشفاف ہونے پر اعتراضات ہوتے ہیں، لیکن ملک کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے وہ اس الیکشن کو مکمل طور پرمسترد نہیں کرتے۔وہ جانتے ہیں کہ ہمارے جیسا پسماندہ اورمالی مشکلات کاشکار ملک ایک سال میں دو بار انتخابات کروانے کامتحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ انھیں یہ بھی خدشہ لگارہتاہے کہ اگر دوسرا الیکشن بھی ان کی توقعات کے مطابق نتیجہ خیزثابت نہ ہوسکا تو پھرکیا ہوگا۔یہ ڈر2018 کے الیکشن میں بھی اس وقت کی اپوزیشن کو لاحق تھا۔RTS سسٹم کے اچانک بند اورفیل ہونے کے باوجود اس نے الیکشن کے نتائج کو قبول کرلیا اور پارلیمنٹ کی کارروائیوں کا حصہ بنی رہی۔ایساہی کچھ آج بھی دیکھاجارہا ہے ۔
فارم 47 پر مشتمل انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی اپوزیشن اراکین نے پارلیمنٹ میں اپنا حلف بھی اُٹھایا ہے اورہراجلاس میں اپنا نقطہ نظر بھی بھرپور طریقے سے پیش کررہی ہے۔ساتھ ہی ساتھ وہ حکومت کے ہرفیصلے پرتنقیدبھی کرتی دکھائی دیتی ہے۔جمہوریت میں لڑائی اورجھگڑادائمی نہیں ہوتا ہے۔ فریقین بالآخر ایک میزپربیٹھ کرمذاکرات ضرور کرتے ہیں۔ہم نے 2018 میں بننے والی پارلیمنٹ میں بھی ایسا ہی دیکھاتھا۔سال دوسال کے اختلاف اورتصادم کے بعد دونوں فریق مذاکرات کرنے پر راضی اوررضامند ہوگئے تھے۔
یہ اوربات ہے کہ اُن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں کوئی بھی فریق سنجیدہ نہیں تھا۔PTI اور اس کی قیادت کا مؤقف تھاکہ اپوزیشن اِن مذاکرات میںNROمانگ رہی ہے اورحکومت یہ کرنے کو ہرگزتیار نہیں ہے۔ ہمیںاچھی طرح یاد ہے اُن دنوں اپوزیشن کے بہت سے ارکان پارلیمنٹ کوجھوٹے سچے مقدمات بنا کر پابندسلاسل کردیا گیاتھا اورنیب کی مددسے کئی کئی سال تک اُنکی کوئی شنوائی نہیں ہورہی تھی۔ تفتیش کے بہانے نوے نوے دنوں کا ریمانڈ سب سے بڑا ٹول بنالیاگیا تھا۔حکومت اُن کے خلاف کوئی کیس بناکرنیب کے حوالے کردیتی اورپھر شہزاد اکبر کی لمبی لمبی پریس کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔وہی شہزاد اکبر آج اپنی پریس کانفرنسوں کو غلط اوربے بنیاد کہہ کرتمام مقدمات کو جھوٹاقرار دے رہے ہیں۔
افسوس کی بات ہے کسی کی عزت کو سرعام اچھالا جائے اوربعد میں یہ کہہ کراپنی جان چھڑالی جائے کہ وہ سارے مقدمات جھوٹے اورلغو تھے۔انھی مقدمات کو لے کر اس وقت کے حکمراں عمران خان صاحب قوم کو یہ تاثر دیاکرتے تھے کہ اپوزیشن اِن مقدمات پر NROمانگ رہی ہے۔یہی کچھ آج اُنکے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔جو بیج انھوں نے بویا تھاآج اس کی فصل وہ خود کاٹ رہے ہیں۔مذاکرات کے بہانے وہ بھی حکومت وقت سے کچھ ایسے ہی یعنی این آر او دینے کے مطالبات کررہے ہیں۔
موجودہ اپوزیشن کو جب مذاکرات کی آفر کی جاتی ہے تووہ اپنا یہی مطالبہ دہراتے دکھائی دیتے ہیں کہ پہلے خان صاحب کو اور تمام اسیران کو رہا کرو تو پھر مذاکرات ہونگے۔ساتھ ہی ساتھ وہ قومی اسمبلی کی اُن تمام نشستوں کا مطالبہ بھی کررہے ہیں جن پراُن کا خیال ہے کہ وہ اُن کی جیتی ہوئی نشستیں ہیں۔حکومت اگر اُن کے یہ تمام مطالبات مان لے تو پھرمذاکرات کس ایجنڈے پر ہونگے اورکیا وہ ان مطالبوں کو مان کراپنا وجود بھی برقرار رکھ پائے گی۔ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی حکومت ان مطالبوں کا تسلیم نہیں کرسکتی۔سوچنے کی بات ہے کہ حکومت ایسا کیوں کرے گی۔
اپنی جیتی ہوئی سیٹیں اپوزیشن کے حوالے کرکے اپنے پیروں پرکلہاڑی کوئی حواس باختہ شخص یا فریق ہی مارسکتا ہے اورہمارا خیال ہے موجودہ حکومت ابھی اس درجے پرنہیں پہنچی ہے ۔اول تو وہ یہ کمزور حکومت لینے کوپہلے ہی تیار نہ تھی۔خود PTI نے بھی اِن حالات میں یہ مصیبت اپنے گلے ڈالنے سے انکار کردیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اپنے دونوں ہاتھ کھڑے کردیے تھے۔
ایسے میں وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتاآیا ہے ۔ملک بچانے کے لیے مسلم لیگ نون ہی نے یہ ذمے داری اپنے سر لے لی،وہ اگر ایسانہ کرتی تو ملک ایک بار پھرافراتفری اور غیریقینی حالات کاشکار ہو جاتا اورشاید ڈیفالٹ بھی کر جاتا۔ جب کوئی بھی فریق حکومت بنانے پرتیار نہ ہو تو ملک بھر میں خانہ جنگی کاخطرہ لاحق ہوجاتا۔ مسلم لیگ کی اس سیاسی قربانی کے نتیجے میں حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ عوام میں احساس اطمینان اور اعتماد پیدا ہوا ہے۔
پی ٹی آئی مذاکرات کرنے میںجتنی دیر کرے گی نقصان اسی کا ہی ہوگا۔ حکومت اسٹرانگ ہوتی جائے گی اورPTI کمزور۔جن مطالبوں پرآج بات ہوسکتی ہے آنے والے دنوں میں انھیںمنوانا اوربھی مشکل ہوجائے گا۔
اپوزیشن کو حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے فوری طورپرمذاکرت کی میز پر بیٹھ جانا چاہیے۔ ضد اورہٹ دھرمی چھوڑکرمیں نہ مانوں کی پرانی رٹ کوخیرباد کہنا ہوگا۔حالات ہروقت ایک سے نہیں رہتے۔ خان صاحب کی رہائی بھی مذاکرات سے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔بلوے کرانے اور ہنگامہ آرائی کادور اب ختم ہوچکاہے۔ جو کام اور مقصدنو مئی کے ہنگاموں سے ممکن نہ ہوسکا وہ اب اس دور میں کیسے ممکن ہوسکتاہے؟
تین ماہ ہوچکے ہیں ۔ عوامی احتجاج کی ہرکال ناکام ونامراد ہوچکی ہے۔ویسے بھی اب عزم استحکام آپریشن کا اہتمام کرلیا گیا ۔وطن عزیز کو انتشار اورعدم استحکام سے دوچار کرنے والوں کے گرد گھیراتنگ ہونے والا ہے۔ملک میںسیاسی استحکام وقت کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر معاشی استحکام بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ بات چینی حکمرانوں نے بھی ہمیں اچھی طرح باور کرادی ہے۔
مقتدر حلقے بھی اب یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ کسی کو عدم استحکام پیداکرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وہ دن گنے جاچکے ہیں جب کچھ حلقے 2014 سے لے کر آج تک لانگ مارچ اوردھرنے والوں کی سرپرستی کیاکرتے تھے ،کسی کو اگر غلط فہمی ہے کہ وہ تن تنہاایک بار پھر ویسی ہی صورتحال پیداکرلیںگے تو انھیں چاہیے کہ اپنی یہ غلط فہمی دور کرلیں۔
اب وہ کبھی بھی ایسا نہیں کرپائیںگے۔اس ملک نے ترقی وخوشحالی اپنانے کی اب ٹھان لی ہے۔ دس پندرہ سال بہت تباہی اورتنزلی دیکھ لی ۔ایک خوشحال اورخود مختار ملک کے باسیوں کی طرح جینا اور رہنا ہمارا بھی حق ہے۔ہم کب تک آپس میں لڑکر اپنی بربادی کاسامان پیدا کرتے رہیںگے۔ہمیں اپنی صفوں سے ایسے لوگوں کو نکال باہرکرنا ہوگا جو فساد اور انتشار پیدا کرکے آج تک ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتے رہے ہیں۔
یہی جمہوری نظام حکومت کاحسن ہوتا ہے کہ وہاں کوئی بھی فرد واحد مطلق العنان بن کربیک جنبش قلم اپنا ہرحکم منوا نہیں سکتا۔کثرت رائے سے وہاں قانون سازی ہوتی ہے اورہربل اور قرارداد منظورکی جاتی ہے۔اسی لیے کہتے ہیں کہ بد سے بد تر جمہوریت بھی اچھے اور بہترین آمرانہ نظام کے مقابلے میں اچھی ہوتی ہے۔وہاںعوام کے حقوق کی باتیں ہوتی ہیں اور انھیں وزن بھی دیاجاتاہے۔یہ اوربات ہے کہ اپوزیشن کو ہمیشہ اپنے مینڈیٹ کے حوالے سے کچھ شکایتیں بھی رہتی ہیں اورکچھ تحفظات بھی ہوتے ہیں لیکن ساری جماعتیں ملک کر وطن عزیز کے مفادات کو ترجیح اوراہمیت دیتے ہوئے آگے بڑھتی جاتی ہیں۔
دیکھاجائے تو ہراپوزیشن کو الیکشن کے فیئراورصاف وشفاف ہونے پر اعتراضات ہوتے ہیں، لیکن ملک کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے وہ اس الیکشن کو مکمل طور پرمسترد نہیں کرتے۔وہ جانتے ہیں کہ ہمارے جیسا پسماندہ اورمالی مشکلات کاشکار ملک ایک سال میں دو بار انتخابات کروانے کامتحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ انھیں یہ بھی خدشہ لگارہتاہے کہ اگر دوسرا الیکشن بھی ان کی توقعات کے مطابق نتیجہ خیزثابت نہ ہوسکا تو پھرکیا ہوگا۔یہ ڈر2018 کے الیکشن میں بھی اس وقت کی اپوزیشن کو لاحق تھا۔RTS سسٹم کے اچانک بند اورفیل ہونے کے باوجود اس نے الیکشن کے نتائج کو قبول کرلیا اور پارلیمنٹ کی کارروائیوں کا حصہ بنی رہی۔ایساہی کچھ آج بھی دیکھاجارہا ہے ۔
فارم 47 پر مشتمل انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے بھی اپوزیشن اراکین نے پارلیمنٹ میں اپنا حلف بھی اُٹھایا ہے اورہراجلاس میں اپنا نقطہ نظر بھی بھرپور طریقے سے پیش کررہی ہے۔ساتھ ہی ساتھ وہ حکومت کے ہرفیصلے پرتنقیدبھی کرتی دکھائی دیتی ہے۔جمہوریت میں لڑائی اورجھگڑادائمی نہیں ہوتا ہے۔ فریقین بالآخر ایک میزپربیٹھ کرمذاکرات ضرور کرتے ہیں۔ہم نے 2018 میں بننے والی پارلیمنٹ میں بھی ایسا ہی دیکھاتھا۔سال دوسال کے اختلاف اورتصادم کے بعد دونوں فریق مذاکرات کرنے پر راضی اوررضامند ہوگئے تھے۔
یہ اوربات ہے کہ اُن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں کوئی بھی فریق سنجیدہ نہیں تھا۔PTI اور اس کی قیادت کا مؤقف تھاکہ اپوزیشن اِن مذاکرات میںNROمانگ رہی ہے اورحکومت یہ کرنے کو ہرگزتیار نہیں ہے۔ ہمیںاچھی طرح یاد ہے اُن دنوں اپوزیشن کے بہت سے ارکان پارلیمنٹ کوجھوٹے سچے مقدمات بنا کر پابندسلاسل کردیا گیاتھا اورنیب کی مددسے کئی کئی سال تک اُنکی کوئی شنوائی نہیں ہورہی تھی۔ تفتیش کے بہانے نوے نوے دنوں کا ریمانڈ سب سے بڑا ٹول بنالیاگیا تھا۔حکومت اُن کے خلاف کوئی کیس بناکرنیب کے حوالے کردیتی اورپھر شہزاد اکبر کی لمبی لمبی پریس کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔وہی شہزاد اکبر آج اپنی پریس کانفرنسوں کو غلط اوربے بنیاد کہہ کرتمام مقدمات کو جھوٹاقرار دے رہے ہیں۔
افسوس کی بات ہے کسی کی عزت کو سرعام اچھالا جائے اوربعد میں یہ کہہ کراپنی جان چھڑالی جائے کہ وہ سارے مقدمات جھوٹے اورلغو تھے۔انھی مقدمات کو لے کر اس وقت کے حکمراں عمران خان صاحب قوم کو یہ تاثر دیاکرتے تھے کہ اپوزیشن اِن مقدمات پر NROمانگ رہی ہے۔یہی کچھ آج اُنکے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔جو بیج انھوں نے بویا تھاآج اس کی فصل وہ خود کاٹ رہے ہیں۔مذاکرات کے بہانے وہ بھی حکومت وقت سے کچھ ایسے ہی یعنی این آر او دینے کے مطالبات کررہے ہیں۔
موجودہ اپوزیشن کو جب مذاکرات کی آفر کی جاتی ہے تووہ اپنا یہی مطالبہ دہراتے دکھائی دیتے ہیں کہ پہلے خان صاحب کو اور تمام اسیران کو رہا کرو تو پھر مذاکرات ہونگے۔ساتھ ہی ساتھ وہ قومی اسمبلی کی اُن تمام نشستوں کا مطالبہ بھی کررہے ہیں جن پراُن کا خیال ہے کہ وہ اُن کی جیتی ہوئی نشستیں ہیں۔حکومت اگر اُن کے یہ تمام مطالبات مان لے تو پھرمذاکرات کس ایجنڈے پر ہونگے اورکیا وہ ان مطالبوں کو مان کراپنا وجود بھی برقرار رکھ پائے گی۔ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی حکومت ان مطالبوں کا تسلیم نہیں کرسکتی۔سوچنے کی بات ہے کہ حکومت ایسا کیوں کرے گی۔
اپنی جیتی ہوئی سیٹیں اپوزیشن کے حوالے کرکے اپنے پیروں پرکلہاڑی کوئی حواس باختہ شخص یا فریق ہی مارسکتا ہے اورہمارا خیال ہے موجودہ حکومت ابھی اس درجے پرنہیں پہنچی ہے ۔اول تو وہ یہ کمزور حکومت لینے کوپہلے ہی تیار نہ تھی۔خود PTI نے بھی اِن حالات میں یہ مصیبت اپنے گلے ڈالنے سے انکار کردیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اپنے دونوں ہاتھ کھڑے کردیے تھے۔
ایسے میں وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتاآیا ہے ۔ملک بچانے کے لیے مسلم لیگ نون ہی نے یہ ذمے داری اپنے سر لے لی،وہ اگر ایسانہ کرتی تو ملک ایک بار پھرافراتفری اور غیریقینی حالات کاشکار ہو جاتا اورشاید ڈیفالٹ بھی کر جاتا۔ جب کوئی بھی فریق حکومت بنانے پرتیار نہ ہو تو ملک بھر میں خانہ جنگی کاخطرہ لاحق ہوجاتا۔ مسلم لیگ کی اس سیاسی قربانی کے نتیجے میں حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ عوام میں احساس اطمینان اور اعتماد پیدا ہوا ہے۔
پی ٹی آئی مذاکرات کرنے میںجتنی دیر کرے گی نقصان اسی کا ہی ہوگا۔ حکومت اسٹرانگ ہوتی جائے گی اورPTI کمزور۔جن مطالبوں پرآج بات ہوسکتی ہے آنے والے دنوں میں انھیںمنوانا اوربھی مشکل ہوجائے گا۔
اپوزیشن کو حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے فوری طورپرمذاکرت کی میز پر بیٹھ جانا چاہیے۔ ضد اورہٹ دھرمی چھوڑکرمیں نہ مانوں کی پرانی رٹ کوخیرباد کہنا ہوگا۔حالات ہروقت ایک سے نہیں رہتے۔ خان صاحب کی رہائی بھی مذاکرات سے ہی ممکن ہوسکتی ہے۔بلوے کرانے اور ہنگامہ آرائی کادور اب ختم ہوچکاہے۔ جو کام اور مقصدنو مئی کے ہنگاموں سے ممکن نہ ہوسکا وہ اب اس دور میں کیسے ممکن ہوسکتاہے؟
تین ماہ ہوچکے ہیں ۔ عوامی احتجاج کی ہرکال ناکام ونامراد ہوچکی ہے۔ویسے بھی اب عزم استحکام آپریشن کا اہتمام کرلیا گیا ۔وطن عزیز کو انتشار اورعدم استحکام سے دوچار کرنے والوں کے گرد گھیراتنگ ہونے والا ہے۔ملک میںسیاسی استحکام وقت کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر معاشی استحکام بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ بات چینی حکمرانوں نے بھی ہمیں اچھی طرح باور کرادی ہے۔
مقتدر حلقے بھی اب یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ کسی کو عدم استحکام پیداکرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وہ دن گنے جاچکے ہیں جب کچھ حلقے 2014 سے لے کر آج تک لانگ مارچ اوردھرنے والوں کی سرپرستی کیاکرتے تھے ،کسی کو اگر غلط فہمی ہے کہ وہ تن تنہاایک بار پھر ویسی ہی صورتحال پیداکرلیںگے تو انھیں چاہیے کہ اپنی یہ غلط فہمی دور کرلیں۔
اب وہ کبھی بھی ایسا نہیں کرپائیںگے۔اس ملک نے ترقی وخوشحالی اپنانے کی اب ٹھان لی ہے۔ دس پندرہ سال بہت تباہی اورتنزلی دیکھ لی ۔ایک خوشحال اورخود مختار ملک کے باسیوں کی طرح جینا اور رہنا ہمارا بھی حق ہے۔ہم کب تک آپس میں لڑکر اپنی بربادی کاسامان پیدا کرتے رہیںگے۔ہمیں اپنی صفوں سے ایسے لوگوں کو نکال باہرکرنا ہوگا جو فساد اور انتشار پیدا کرکے آج تک ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتے رہے ہیں۔