لاڈلے چیمپئن،پاکستان میں خاموشی

سلیم خالق  پير 1 جولائی 2024
فوٹو: آئی سی سی

فوٹو: آئی سی سی

’’اب آپ کی عمر زیادہ ہو گئی، فارم بھی اچھی نہیں رہی، ہمارے خیال میں ریٹائر ہو جانا چاہیے‘‘ کئی برس بیت گئے جب ایک سابق ’’عظیم کرکٹر‘‘ سے پی سی بی کی اعلیٰ شخصیت نے یہ کہا تو ان کا سوال تھا ’’پیسے کتنے دیں گے‘‘ بورڈ جانتا تھا کہ بات یہیں پہنچے گی اس لیے ایک کروڑ پر معاملہ ڈن کر لیا، پھر کہا گیا کہ ٹیکس سے بچنے کیلیے میں نقد رقم لوں گا، یوں یہ ڈیل فائنل ہوئی اور وہ کرکٹر ایک کروڑ روپے لے کر ریٹائر ہو گئے۔

اس واقعے کے کئی گواہ موجود ہیں، یہ تو جونسے صرف ایک مثال تھی ہمارے بہت سے ’’سپراسٹارز‘‘ کو تو ریٹائرمنٹ کا موقع ہی نہیں مل سکا، وہ اس چکر میں رہے کہ شاید واپسی ہو جائے انتظار کرتے ہیں، کرکٹ میں ٹائمنگ بہت اہمیت رکھتی ہے ورنہ وکٹ نہیں بچائی جا سکتی، فیصلے کی خراب ٹائمنگ نے کئی کھلاڑیوں کا کیریئر خاموشی سے ختم کرا دیا، البتہ دیگر ممالک میں ایسا نہیں ہوتا، آسٹریلیا میں ڈیوڈ وارنر نے کب سے اپنے آخری میچ کا اعلان کر رکھا تھا، حالیہ مثال ویراٹ کوہلی اور روہت شرما کی ہے، کوہلی فائنل سے قبل پورے ورلڈکپ میں ناکام رہے لیکن کسی نے انھیں سوشل میڈیا پر ٹرول کیا نہ ہی سابق بھارتی کرکٹرز کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا کہ اسے نکال دو، جنوبی افریقہ کیخلاف میچ سے قبل جب کپتان سے کوہلی کی فارم کا سوال پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا’’ وہ فائنل میں ساری کسر پوری کر دیں گے‘‘ بعد میں ایسا ہی ہوا، کوہلی فائنل کے مین آف دی میچ بنے،وہ واقعی کرکٹ کے اصل کنگ ہیں۔

روہت کو فاتح کپتان کا اعزاز حاصل ہوا، دونوں چاہتے تو کافی عرصے تک مزید کھیل سکتے تھے لیکن انھوں نے عروج پر کھیل سے اپنی شرائط پر رخصت ہونے کو ترجیح دی، اب دنیا برسوں یاد رکھے گی کہ کوہلی اور روہت بھارت کو ورلڈچیمپئن بنوا کر ریٹائر ہوئے تھے،جس طرح بطوربیٹر دونوں کی ٹائمنگ پرفیکٹ ہے ویسے ہی ریٹائرمنٹ کی ٹائمنگ بھی بہترین رہی، بیشتر پاکستانیوں کی طرح مجھے بھی جنوبی افریقی ٹیم اپنی اپنی سی لگ رہی تھی، فائنل میں جب اس نے اچھا پرفارم کیا تو بالکل ویسے ہی خوشی کا اظہار کیا جیسے اپنی ٹیم کیلیے کرتے ہیں، مگر پروٹیز نے ہمیں مایوس بھی ویسے ہی کیا جیسا کہ پاکستانی ٹیم کرتی ہے، نیویارک میں گرین شرٹس کی بھارت کیخلاف فتح یقینی نظر آ رہی تھی مگر اچانک صورتحال تبدیل ہو گئی،ایسا ہی جنوبی افریقہ کے ساتھ ہوا، آپ کو 4 اوورز میں صرف26 رنز درکار اور 6 وکٹیں باقی ہوں تو 99 فیصد لوگ یہی کہیں گے کہ جیت جائیں گے مگر پروٹیز کو چوکرز ایسے ہی نہیں کہا جاتا،انھوں نے ڈاٹ بالز کھیل کر خود پر دباؤ بڑھایا اور ساتھ حریف کو وکٹوں کا تحفہ بھی پیش کرتے رہے، ویسے اکثر ایسے ہارے ہوئے میچز میں بھارت کو ’’ معجزاتی‘‘ فتح مل جاتی ہے، نجانے اس کا راز کیا ہے۔

حریف کھلاڑیوں کی آنکھوں پر نجانے کیسی پٹی بندھ جاتی ہے کہ وہ طشتری میں رکھ کر جیت بھارت کو پیش کر دیتے ہیں، اس ورلڈکپ میں شروع سے بھارتی ٹیم کو چیمپئن بنانے کا ماحول تیار کیا گیا،ایسے لگا جیسے کسی اسکرپٹ پر عمل ہو رہا ہے، میچز کے اوقات کار بھی ان کی سہولت کے مطابق رکھے گئے، پہلے ہی بتا دیا گیا کہ سر آپ کا سیمی فائنل یہاں ہو گا، ریزرو ڈے بھی نہیں رکھا تاکہ بارش ہو جائے تو میدان میں اترے بغیر ٹیم فائنل میں پہنچ جائے، ایسی باتیں ہم کریں تو کہا جاتا ہے کہ بھارت چونکہ دشمن ملک ہے اس لیے یہ کہتے ہیں، البتہ اب تو انگلینڈ و آسٹریلیا کا میڈیا اور سابق کرکٹرز بھی ’’لاڈلے‘‘ بھارت کے ساتھ خصوصی سلوک کی باتیں کر رہے ہیں، ٹھیک ہے کرکٹ میں زیادہ پیسہ بھارت سے آتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ دوسروں کو یکسر نظراندازکردیں، یہ ورلڈکپ انتظامی لحاظ سے مسائل سے بھرا ایونٹ ثابت ہوا،امریکا میں میچز کرا تو دیے گئے لیکن سفری، رہائشی مسائل نے ٹیموں کو بہت پریشان کیا، آئرلینڈ نے تو باقاعدہ آئی سی سی سے شکایت بھی کی ہے۔

گراؤنڈز اور پچز کا معیار اتنا اچھا نہ تھا، البتہ مالی لحاظ سے وہاں میچز ضرور منافع بخش ثابت ہوئے ہوں گے، ویسٹ انڈیز میں بیشتر میچز میں کراؤڈ نہیں آیا کیونکہ بھارتی شائقین کیلیے دن میں انعقاد کیا گیا تھا اور لوگ رات کو میچ دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں، بہرحال جو اعلیٰ حکام کا مقصد تھا وہ پورا ہو گیا، خوب آمدنی ہوئی اور بھارت کے جیتنے سے اب کرکٹ میں اسپانسر شپس مزید بڑھیں گی۔ جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، پی سی بی حکام چین کی بانسری بجا رہے ہیں، سرجری کا معاملہ ٹل چکا، افغان ٹیم نے سیمی فائنل تک ہارنے پر اپنی قوم سے معافی مانگ لی یہاں سب ایسا ظاہر کر رہے ہیں جیسے امریکا فتح کر کے واپس آئے ہوں،کپتان، کوچز، سلیکٹرز یا مینجمنٹ کسی نے بھی شکست کی ذمہ داری قبول نہیں کی، سب عوامی غصہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، چند روز میں لیگز کھیلنے کیلیے روانگی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا پھر سب بھول جائیں گے، البتہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگلا آئی سی سی ایونٹ پاکستان میں ہی ہونا ہے، اس ٹیم کے ساتھ آپ کیسے اچھا پرفارم کر سکیں گے؟ سال نہیں اب ٹورنامنٹ چند ماہ کی دوری پر ہے۔

بہتری کیلیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور مسلسل وقت ضائع کیا جا رہا ہے، خدانخواستہ اگر چیمپئنز ٹرافی میں ٹیم نے ایسی ہی کارکردگی دکھائی پھر کیا ہوگا؟ یہاں تولوگ ویسے ہی میچ دیکھنے نہیں آتے خالی گراؤنڈز میں مقابلوں کا انعقاد کرنا پڑے گا، پھر آئی سی سی بھی آئندہ میزبانی سونپنے کی بات آنے پر یہی جواز گھڑے گی، اب بھی وقت ہے ٹیم کو مضبوط بنائیں، جس طرح قذافی اسٹیڈیم کو بہتر بنانے کیلیے دن رات کام ہو رہا ہے ایسا ہی ٹیم کے ساتھ بھی کریں، تمام کھلاڑیوں کو تبدیل کرنا ممکن نہیں لیکن جو اہم مسائل ہیں انھیں تو حل کریں، اگر ایسا کر لیا تو یقین مانیں ایک بار پھر چیمپئنز ٹرافی جیتنا بھی ممکن ہوگا، دیکھتے ہیں کرکٹ کے حکمران کچھ کرتے ہیں یا ان کیلیے راوی ایسے ہی چین ہی چین لکھتا رہے گا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔