ماحولیاتی آلودگی ایک عالمگیر مسئلہ بن چکا ہے اور اسی وجہ سے دنیا بھر کے موسموں میں حیرت انگیز طور پر تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں۔ مغرب اور یورپ کے سرد ممالک گرمی کا تجربہ کررہے ہیں جبکہ مشرق کے ممالک یورپ جیسی خوفناک سردی سے نبرد آزما ہورہے ہیں۔ پوری دنیا چند سال سے خوفناک بارشوں کا سامنا کررہی ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں سیلابوں سے متاثرین کی تعداد میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین ماحولیات اور دنیا اس صورتحال کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ مکافات عمل ہے، کیونکہ زمین پر بسنے والی مخلوق (انسان) نے قدرت کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ کی ہے تو نتیجے میں قدرت موسمیاتی تغیراتی تبدیلیوں کے ذریعے اپنا انتقام لے رہی ہے۔ اب جب دنیا کو اس بات کا ادراک ہوا کہ شاید اُن سے بہت غلطیاں ہوئی ہیں کہ انہوں نے کائنات کی اُن چیزوں کو تباہ و برباد کیا جن کی وجہ سے موسموں میں شدت نہیں آتی تھی، موسم معتدل رہتے تھے، جنگلی اور آبی حیات کو انسان سے خطرہ نہیں تھا لیکن انسانوں کے جنگلی اور آبی حیات کو ختم کرنے کے بے رحمانہ فعل نے قدرت کو مجبور کردیا کہ وہ انسانوں کو بتائے، جس نے نہ صرف کائنات بلکہ انسان کو بھی بنایا ہے وہ موجود ہے اور وہ اپنے بنائے ہوئے انسان سے بدلہ لے سکتا ہے اور دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے جب متاثر ہوئی تو وہ ضرور یہ سوچنے پر مجبور ہوئی ہے کہ یہ مکافات عمل ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ آبادی کا بڑھتا ہوا اژدہام ہے جس نے انسانوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے قدرتی ماحول کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر ہم اپنے ملک کا جائزہ لیں تو 75 سال میں آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک کے زرعی رقبے بھی آبادیوں کی نذر ہوگئے۔ نئی نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور اسکیموں نے زرخیز زمینوں کو رہائشی کالونیوں میں بدل دیا۔ جنگلات، باغات اور فصلیں بری طرح متاثر ہوئیں۔ آبادی کا مسئلہ صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ انڈیا، چین، انڈونیشیا سمیت دنیا بھر کو درپیش ہے۔
آبادی بڑھنے سے کرۂ ارض پر صنعتی پیداوار کو بڑھانے کےلیے فیکٹریوں، ملوں، کارخانوں اور صنعتوں میں اضافہ ہوا جس کی وجہ وہ ممالک جو ماحول کو بہتر بنانے کی ایس او پیز پر عمل پیرا نہیں ہوئے، اُن ملکوں میں صاف اور میٹھا پانی زہریلے پانی میں تبدیل ہوگیا اور نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اس پانی کے ذریعے کھیتوں کو سیراب کیا جانے لگا، جس کے نتیجے میں ان شہروں، دیہاتوں میں بسنے والے میں بیماریوں کی شرح میں اضافہ یقینی امر تھا۔ جنگلات کا خاتمہ بھی موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ ہے۔ یہ ہمیشہ سے ہی ہوتا چلا آرہا ہے کہ قدرت سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں قدرت نے اپنا انتقام لیا، لیکن انسان اس سے باز نہیں آتا، بھلے اس سے اُسے کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے۔
موسموں کی غیر معمولی تبدیلی کی وجہ سے گزشتہ سال دبئی میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں 200 سے زائد ملکوں نے شرکت کی۔ ان سب کےلیے لمحہ فکریہ تھا کہ اس غیر معمولی ماحولیاتی تبدیلی پر قابو کیسے پایا جائے۔ کانفرنس کے اعلامیے میں سال 2023 کو گرم ترین سال قرار دیا گیا جبکہ سال 2024 کے بارے میں مزید گرم سال کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ رواں سال ماہ اپریل میں عوام نے تیز بارشوں کے سلسلے کو برداشت کیا اور ناگہانی آفت کی وجہ سے ملک بھر کے مختلف اضلاع میں 30 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ اُن میں سے اکثریت اُن افراد کی تھی جو گھروں سے باہر یا کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔
آپ ملاحظہ فرمائیے کہ پوری دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے حکومتی اور انفرادی سطح پر خاطر خواہ انتظامات کیے جارہے ہیں۔ پانی کو محفوظ کرنے کےلیے ڈیم بنائے جارہے ہیں، سمندر سے آلودگی ختم کرنے کےلیے عملی طور پر کوشش کی جارہی یے، ماحول کو صاف رکھنے کےلیے سنجیدہ اقدامات کیے جارہے ہیں، پودے لگائے جارہے ہیں لیکن ہم تاحال اس حوالے سے دنیا سے کہیں پیچھے ہیں۔ سابقہ حکومت نے کروڑوں، ارب درخت لگانے کا پروگرام شروع کیا تھا لیکن ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا اور موجودہ حکومت بھی اس حوالے سے سنجید ہ نظر نہیں آرہی، کیونکہ لگتا ہے کہ یہ اُن کے نزدیک کوئی ایشو ہے ہی نہیں۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے مغربی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک اتنے صاف ستھرے کیوں ہیں؟ اگر آپ مشاہدہ کریں تو بحیثیت ذمے دار شہری وہ خود بھی ماحول کو صاف رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں آپ کو کوڑا کرکٹ کہیں نظر نہیں آتا، وہاں آپ کو کوئی جگہ جگہ تھوکتا اور پیشاب کرتا ہوا بھی نہیں ملے گا اور نہ ہی کوئی چلتی گاڑی سے کوئی شاپر یا جوس کے خالی ڈبے باہر پھینکتا نظر آئے گا۔ آپ کسی کو کوڑا کرکٹ کےلیے مخصوص کی گئی باسکٹ کے علاوہ کچرا پھینکتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔ گو کہ وہاں خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے انہیں فرسٹ ورلڈ اور ہمیں تھرڈ ورلڈ کہنے کی۔ ہمارے ہاں تو کراچی کے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ہی ہر حکومت کےلیے چیلنج بنے ہوئے ہیں اور باوجود کوشش کہ کوئی بھی حکومت انہیں صاف کرنے میں ناکام نظر آئی ہے۔
لمحہ فکریہ ہے کہ ہم ماحول کی تبدیلی کا ذمے دار ریاست اور موسموں کی تبدیلی کا ذمے دار اُوپر والے کو سمجھتے ہوئے خود کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں لیکن ہمیں سنجیدگی سے اس مسئلے کو سمجھنا ہوگا، کیونکہ قدرتی آفات اور انسان کی اپنی غفلت کی وجہ سے آفات اب ہر سال ہمارا مقدر بن چکی ہیں، جن سے نبرد آزما ہونے کےلیے ہمیں اپنا کردار انتہائی ایمانداری کے ساتھ نبھانا ہوگا۔ تب ہی ہمارا ماحول صاف ہوگا اور تب ہی ہمارا شمار ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کیا جائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔