مخصوص نشستیں باپ پارٹی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ غیرقانونی تھا الیکشن کمیشن
الیکشن کمیشن نے پہلے اور اب مختلف مؤقف اپنایا، سپریم کورٹ
مخصوص نشستیں کیس میں الیکشن کمیشن کے مؤقف میں تضاد سامنے آگیا، سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ باپ پارٹی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ غیرقانونی تھا۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ گزشتہ انتخابات میں باپ پارٹی کو کے پی میں مخصوص نشستیں کیسے دی گئی تھیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ باپ پارٹی کو نشستیں دینے کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں تھا، باپ پارٹی کو نشستیں دینے کے معاملے پر کوئی سماعت نہیں ہوئی تھی۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن ایک معاملے پر دو مختلف موقف کیسے لے سکتا ہے؟ وکیل نے بتایا کہ موجودہ الیکشن کمیشن نے تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا باپ پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا تھا؟ کیا ایسی کوئی پابندی ہے کہ کسی بھی اسمبلی میں نشست ہو تو مخصوص سیٹیں مل سکتی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک وکیل نے ایک کیس میں کچھ موقف اپنایا شام کو کچھ اور، مختلف موقف کا سوال ہونے پر وکیل نے کہا میں اب زیادہ سمجھدار ہوگیا ہوں۔
ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی نوٹس پر بطور ایڈووکیٹ جنرل دلائل دوں گا، متفرق درخواست میں تحریری دلائل جمع کروا چکا ہوں، الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کے پی میں انتخابات درست نہیں ہوئے؟ ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا کہ فیصل صدیقی کے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں، گزشتہ انتخابات میں کے پی میں باپ پارٹی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، باپ پارٹی کے پاس صوبے میں کوئی جنرل نشست نہیں تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ باپ پارٹی میں تین افراد نے شمولیت اختیار کی تھی۔
ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ آزاد کی شمولیت پر الیکشن کمیشن نے باپ پارٹی کو مخصوص نشست دی تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ باپ پارٹی کی بلوچستان میں حکومت تھی، قومی اسمبلی میں ارکان اسمبلی بھی تھے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے باپ پارٹی کے لیے باقاعدہ نیا شیڈول جاری کیا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پہلے اور اب مختلف مؤقف اپنایا ہے، الیکشن کمیشن آج کہتا ہے گزشتہ انتخابات میں کیا گیا ان کا فیصلہ غلط تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کے پی حکومت نے اس وقت یہ فیصلہ چیلنج کیا تھا؟ اگر چیلنج نہیں کیا تھا تو بات ختم، پی ٹی آئی کا 2018 میں بھی پارٹی انتخابات نہیں ہوئے تھے، تب انتخابی نشان کیسے ملا تھا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس پر جائیں گے تو چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی کھل جائے گا۔
ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ باپ پارٹی نے کے پی اسمبلی کے لیے کوئی فہرست جمع نہیں کرائی تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آ رہی، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جو فارمولا الیکشن کمیشن نے پہلے اپنایا تھا اب کیوں نہیں اپنایا جا رہا۔