بات کچھ اِدھر اُدھر کی سیکولرازم انفرادی نہیں اجتماعی نظریہ ہے
ریاستی بندوبست کی تمام صورتیں معاشرے میں امن، انصاف اور ترقی کی راہ میں کسی نہ کسی صورت رکاوٹ بنتے ہیں
LONDON:
سیکولر ازم کو ہمیشہ سے پاکستانی مسلم معاشرے کے لئے نہ صرف غیر ضروری قرار دیا گیا ہے بلکہ کفر کے مترادف بھی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جہاں کہیں (انڈیا اور ترکی) سیکولر اپروچ کو بطورِاجتماعی نظریہ اپنایا گیا ہے وہاں نہ صرف سماجی اور معاشی ترقی نسبتاََ جلد ممکن ہوئی ہے بلکہ اُن معاشروں میں مذہب کو بھی پنپنے کا برابر موقع دیا گیا ہے ۔
بحر حال اس موقف سے تو اتفاق کرنا پڑے گا کہ اگر ایک طرف مذہبی طبقہ مسائل کا حل دینے میں ناکام ہے تو دوسری طرف سیکولر طبقہ بھی صرف ذہنی عیاشی تک محدود ہے اور عملی طور پر مسائل کے حل سے کوسوں دور ہے۔ بلکہ نظریات کی جنگ میں ملائیت سے زیادہ شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ ہم سیکولرلوگ اکثر و بیشتر مذہب سے خود کو کاٹلیتے ہیں اور جن نظریات کو ہم معاشرے کی ترقی کے لئے ضروری تصور کرتے ہیں اُن کے متعلق اپنے قریبی دوستوں کو بھی قائل نہیں کر پاتے۔ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ سیکولر ذہن رکھنے والے لوگ عدم برداشت اور ذہنی تنگی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ قوی دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ مذہبی طبقے کو تو ہم مذہب کا حوالہ دے کر کسی صورت اُن کی تشدد پسند ذہنیت کو لگام دے سکتے ہیں لیکن سیکولر طبقہ تو خود کوکسی بھی قید و بند سے آزاد تصور کرتا ہے اور اپنے ذہن کو عقلِ کُل مانتا ہیجس کی بنا پر سیکولر مُلائیت کو لگام دینا ناممکن نظر آتا ہے۔
لیکن وہ پہلو جس کی طرف آج تک توجہ نہیں دہ گئی وہ سیکولر ازم کا اجتماعی پہلو ہے۔ سیکولرازم کی اصطلاح انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ فرد عقیدہ یا نظریہ پرست ہوتا ہے اور سٹیٹ سیکولر۔ سیکولر ازم کا کسی مذہب کی مخالفت یا حمایت سے کوئی تعلق نہیں۔ سیکولر ازم ایک ایسا ریاستی نظام ہے جو مذہبی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کے تحفظ، بہبود اور ترقی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ جمہوریت بنیادی طور پر ملوکیت اور پاپائیت کے خلاف رد ِعمل کے طور پر وجود میں آئی تھی جس میں عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے حکومت چلاتے ہیں اور حکومت فیصلہ سازی کیلئے مذہبی پیشوائوں کے رائے کی پابند نہیں ہوتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند سیکولر ازم کی حمایت کرتی ہے ۔اور انڈیا میں جب بھی کسی مذہبی فرقے کو ٹارغٹ کیا جاتا ہے توجماعتِ اسلامی پاکستان انڈیا کو سیکولر ہونے کا طعنہ دیتا ہے۔
ہزاروں برس کی کوشش کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ریاستی بندوبست کی تمام صورتیں معاشرے میں امن، انصاف اور ترقی کی راہ میں کسی نہ کسی صورت رکاوٹ بنتے ہیں۔ انسانی ترقی کا بہترین حل یہ قرار پایا ہے کہ مذہبی امتیاز کے بغیر تمام انسانوں کو ریاست کا مساوی رکن تسلیم کر لیا جائے اور مختلف الوہی یا نظریاتی مقاصد کی بجائے ریاست کو انسانوں کی دنیاوی زندگی بہتر بنانے کا ذریعہ قرار دیا جائے۔ عقیدہ انفرادی انسانی ضمیر سے تعلق رکھتا ہے اور کسی فرد یا ادارے کیلئے ممکن نہیں کہ کسی کے عقیدے کو پرکھے۔ پس مذہب میں مداخلت یا مذہب کی بالادستی قائم کرنا یا کسی مذہب کوغلط قرار دینا ریاست کا کام نہیں۔ ریاست اگر ایک مذہب کی ترویج کرے گی تو دیگر مذہب کے پیروکاروں کی حق تلفی یقینی ہے اور ساتھ ہی ترجیحی مذہب کے پیشوائوں کی ریاست میں مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے۔
اگر آج کے مذہبی طبقے کو دیکھا جائے تو شدت پسندی اور مفاد پرستی اُن کے انگ انگ سے ٹپکتی ہوتی ہے توکیا اس کا یہمطلب لیا جائے کہ مذہب بذاتِ خود شدت پسندی اور مفاد پرستی کا نام ہے؟ یقینا جواب نفی میں ہی ہو گا۔ ایسے ہی ہم سیکولر ریاست کے نظرئے کو یکسر مسترد نہیں کر سکتے۔ پاکستانی سیکولر حضرات اگر نظریاتی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کر رہے تو اس بنیاد پر ہم سیکولر ریاست کے ثمرات سے خود کو محروم کیوں رکھیں؟ اسلامی تاریخ تو ہم بہت پڑھتے ہیں لیکن صرف جنگوں کی کہانیاں۔ امن کے معاہدے تو طلباء کو ایسے پڑھا دے جاتے ہیں جیسے وہ اسلام کا حصہ ہی نہیں۔ میثاقِ مدینہ کی دوسری شق میں لکھا ہے کہ اس معاہدے میں شامل تمام لوگ امتِ واحدہ تصور ہونگے۔ حلانکہ اُس معاہدے میں مسلمان، یہودی اور مشرک بھی شامل تھے۔ وجہ پوچھ سکتا ہوں کیوں؟ قارئین اس سوال پر غور کریں ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
سیکولر ازم کو ہمیشہ سے پاکستانی مسلم معاشرے کے لئے نہ صرف غیر ضروری قرار دیا گیا ہے بلکہ کفر کے مترادف بھی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جہاں کہیں (انڈیا اور ترکی) سیکولر اپروچ کو بطورِاجتماعی نظریہ اپنایا گیا ہے وہاں نہ صرف سماجی اور معاشی ترقی نسبتاََ جلد ممکن ہوئی ہے بلکہ اُن معاشروں میں مذہب کو بھی پنپنے کا برابر موقع دیا گیا ہے ۔
بحر حال اس موقف سے تو اتفاق کرنا پڑے گا کہ اگر ایک طرف مذہبی طبقہ مسائل کا حل دینے میں ناکام ہے تو دوسری طرف سیکولر طبقہ بھی صرف ذہنی عیاشی تک محدود ہے اور عملی طور پر مسائل کے حل سے کوسوں دور ہے۔ بلکہ نظریات کی جنگ میں ملائیت سے زیادہ شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ ہم سیکولرلوگ اکثر و بیشتر مذہب سے خود کو کاٹلیتے ہیں اور جن نظریات کو ہم معاشرے کی ترقی کے لئے ضروری تصور کرتے ہیں اُن کے متعلق اپنے قریبی دوستوں کو بھی قائل نہیں کر پاتے۔ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ سیکولر ذہن رکھنے والے لوگ عدم برداشت اور ذہنی تنگی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ قوی دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ مذہبی طبقے کو تو ہم مذہب کا حوالہ دے کر کسی صورت اُن کی تشدد پسند ذہنیت کو لگام دے سکتے ہیں لیکن سیکولر طبقہ تو خود کوکسی بھی قید و بند سے آزاد تصور کرتا ہے اور اپنے ذہن کو عقلِ کُل مانتا ہیجس کی بنا پر سیکولر مُلائیت کو لگام دینا ناممکن نظر آتا ہے۔
لیکن وہ پہلو جس کی طرف آج تک توجہ نہیں دہ گئی وہ سیکولر ازم کا اجتماعی پہلو ہے۔ سیکولرازم کی اصطلاح انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ فرد عقیدہ یا نظریہ پرست ہوتا ہے اور سٹیٹ سیکولر۔ سیکولر ازم کا کسی مذہب کی مخالفت یا حمایت سے کوئی تعلق نہیں۔ سیکولر ازم ایک ایسا ریاستی نظام ہے جو مذہبی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کے تحفظ، بہبود اور ترقی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ جمہوریت بنیادی طور پر ملوکیت اور پاپائیت کے خلاف رد ِعمل کے طور پر وجود میں آئی تھی جس میں عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے حکومت چلاتے ہیں اور حکومت فیصلہ سازی کیلئے مذہبی پیشوائوں کے رائے کی پابند نہیں ہوتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی ہند سیکولر ازم کی حمایت کرتی ہے ۔اور انڈیا میں جب بھی کسی مذہبی فرقے کو ٹارغٹ کیا جاتا ہے توجماعتِ اسلامی پاکستان انڈیا کو سیکولر ہونے کا طعنہ دیتا ہے۔
ہزاروں برس کی کوشش کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ریاستی بندوبست کی تمام صورتیں معاشرے میں امن، انصاف اور ترقی کی راہ میں کسی نہ کسی صورت رکاوٹ بنتے ہیں۔ انسانی ترقی کا بہترین حل یہ قرار پایا ہے کہ مذہبی امتیاز کے بغیر تمام انسانوں کو ریاست کا مساوی رکن تسلیم کر لیا جائے اور مختلف الوہی یا نظریاتی مقاصد کی بجائے ریاست کو انسانوں کی دنیاوی زندگی بہتر بنانے کا ذریعہ قرار دیا جائے۔ عقیدہ انفرادی انسانی ضمیر سے تعلق رکھتا ہے اور کسی فرد یا ادارے کیلئے ممکن نہیں کہ کسی کے عقیدے کو پرکھے۔ پس مذہب میں مداخلت یا مذہب کی بالادستی قائم کرنا یا کسی مذہب کوغلط قرار دینا ریاست کا کام نہیں۔ ریاست اگر ایک مذہب کی ترویج کرے گی تو دیگر مذہب کے پیروکاروں کی حق تلفی یقینی ہے اور ساتھ ہی ترجیحی مذہب کے پیشوائوں کی ریاست میں مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے۔
اگر آج کے مذہبی طبقے کو دیکھا جائے تو شدت پسندی اور مفاد پرستی اُن کے انگ انگ سے ٹپکتی ہوتی ہے توکیا اس کا یہمطلب لیا جائے کہ مذہب بذاتِ خود شدت پسندی اور مفاد پرستی کا نام ہے؟ یقینا جواب نفی میں ہی ہو گا۔ ایسے ہی ہم سیکولر ریاست کے نظرئے کو یکسر مسترد نہیں کر سکتے۔ پاکستانی سیکولر حضرات اگر نظریاتی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کر رہے تو اس بنیاد پر ہم سیکولر ریاست کے ثمرات سے خود کو محروم کیوں رکھیں؟ اسلامی تاریخ تو ہم بہت پڑھتے ہیں لیکن صرف جنگوں کی کہانیاں۔ امن کے معاہدے تو طلباء کو ایسے پڑھا دے جاتے ہیں جیسے وہ اسلام کا حصہ ہی نہیں۔ میثاقِ مدینہ کی دوسری شق میں لکھا ہے کہ اس معاہدے میں شامل تمام لوگ امتِ واحدہ تصور ہونگے۔ حلانکہ اُس معاہدے میں مسلمان، یہودی اور مشرک بھی شامل تھے۔ وجہ پوچھ سکتا ہوں کیوں؟ قارئین اس سوال پر غور کریں ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔