منفرد قلم کار
لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا وقت آرام طلبی میں گزارتے ہیں لیکن فقیر محمد سومروکا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے
عرصہ ہوا کہ ہم نے اپنے ایک کالم میں حاجی فقیر محمد سومروکی کتاب بعنوان ''روح پرور سفر'' پر مختصر اظہار خیال کیا تھا اور آج ہم ان کا تفصیلی تعارف کرا رہے ہیں۔ سومرو صاحب کا تعلق اندرون سندھ کے شہر ہنگورجا سے ہے جہاں ان کی پیدائش اور پرورش ہوئی۔ حصول علم اور لکھنے لکھانے کا شوق و ذوق ان کے خمیر میں شامل تھا لیکن زندگی کے حالات نے ان کے ہاتھوں میں قلم تھمانے کے بجائے آری، ہتھوڑا اور بسولہ تھما دیا اور انھیں روزی کمانے کے لیے بڑھئی کا پیشہ اختیارکرنا پڑا جس میں بھی انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ بقول حسرتؔ موہانی۔
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
لکھنے کا آغازکیا تو فقیر محمد سومرو نے مڑکر نہیں دیکھا۔ وہ مضامین نو کے انبار لگا رہے ہیں اور ان کی کئی کتابیں شایع ہوکر قارئین سے داد و خراج تحسین وصول کرچکی ہیں جن میں روح پرور سفر (اردو)، خفتگان جنت البقیع، سندھ میں بڑھئی کا ہنر (سندھی، زیر طبع)، پر وقار سفر، زیارات عراق مقدسہ، اے ماں! تیری عظمت کو سلام، ذکرِ مقبول، سوانح پروفیسر میر محمد مقبول سومرو شامل ہیں۔
سومرو صاحب کا اختصاص یہ ہے کہ انھیں سندھی اور اردو زبانوں پر یکساں عبور حاصل ہے۔ سندھی اُن کی مادری زبان ہے جب کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ سادگی، روانی اور سلاست ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔ عام طور پر ملازمت کرنے والے لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا وقت آرام طلبی میں گزارتے ہیں لیکن فقیر محمد سومروکا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ملازمت سے فراغت حاصل کرنے کے بعد ان کا زور قلم روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی علمی کاوشوں کے لیے وقف کردی ہے۔ ہمارا اور ان کا تعلق چالیس سال کے طویل عرصے پر محیط ہے اور ہم اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ فروغ علم اور فروغ محبت ان کی زندگی کا مشن ہے۔ شاعر بے بدل سرورؔ بارہ بنکوی کا یہ شعر ان پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
سومرو صاحب کا تعلق ایک مذہبی اور ادبی گھرانے سے ہے۔ وہ ایک سفر نامہ نگار، محقق، مضمون نگار اور محنتی انسان ہیں۔ انھوں نے اپنی منفرد خوبیوں اور صلاحیتوں کی بدولت علم وادب کے میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ ان کے والد بزرگوار کا اسم گرامی مولانا اللہ بخش سومرو ہے جن کا شمار اپنے وقت کے جید علمائے کرام میں ہوتا تھا۔ حاجی فقیر محمد سومروکی والدہ ماجدہ محترمہ ہاجرہ بیگم ایک نیک سیرت، نمازی، پرہیزگار، رحمدل اور باپردہ خاتون تھیں۔فقیر محمد سومرو کو ادبی ذوق ورثہ میں ملا ہے۔ انھوں نے اپنے علمی سفرکا آغاز مختصر مضامین اورکالم نگاری سے کیا۔ ان کی مختلف موضوعات پر مشتمل تحریریں مختلف اخبارات اور جرائد میں شایع ہوچکی ہیں۔ اُن کی تین شایع شدہ کتابوں کے عنوانات ہیں۔ سومرن جو شجرو، روح پرور سفر اور خفتگان جنت البقیع۔
ایک مشہور کہاوت ہے '' باپ پر پوت پتا پر گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔'' یہ کہاوت ان کے اکلوتے صاحبزادے فرزند محمد عارف سومرو پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے جو نوجوانی میں ہی اپنی ادبی شخصیت کا لوہا منوا رہے ہیں اور اپنے خاندان کی عظمت اور شہرت کو چار چاند لگا رہے ہیں۔
اُن کے چار بھائی ہیں جن کے نام یہ ہیں۔ میر محمد مقبول سومرو، محمد جمن سومرو، نصیر احمد سومرو اور غلام سرور سومرو۔ ان میں ادبی اور علمی ذوق کے حوالے سے میر محمد مقبول سومرو اور نصیر احمد سومرو قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات سے میرا دیرینہ تعلق ہے۔ حیدرآباد میں جب خاکسار اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا تھا تو پروفیسر میر محمد مقبول سومرو کی خدمات سے ہم نے خاطر خواہ استفادہ کیا تھا۔
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
لکھنے کا آغازکیا تو فقیر محمد سومرو نے مڑکر نہیں دیکھا۔ وہ مضامین نو کے انبار لگا رہے ہیں اور ان کی کئی کتابیں شایع ہوکر قارئین سے داد و خراج تحسین وصول کرچکی ہیں جن میں روح پرور سفر (اردو)، خفتگان جنت البقیع، سندھ میں بڑھئی کا ہنر (سندھی، زیر طبع)، پر وقار سفر، زیارات عراق مقدسہ، اے ماں! تیری عظمت کو سلام، ذکرِ مقبول، سوانح پروفیسر میر محمد مقبول سومرو شامل ہیں۔
سومرو صاحب کا اختصاص یہ ہے کہ انھیں سندھی اور اردو زبانوں پر یکساں عبور حاصل ہے۔ سندھی اُن کی مادری زبان ہے جب کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ سادگی، روانی اور سلاست ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔ عام طور پر ملازمت کرنے والے لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا وقت آرام طلبی میں گزارتے ہیں لیکن فقیر محمد سومروکا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ملازمت سے فراغت حاصل کرنے کے بعد ان کا زور قلم روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی علمی کاوشوں کے لیے وقف کردی ہے۔ ہمارا اور ان کا تعلق چالیس سال کے طویل عرصے پر محیط ہے اور ہم اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ فروغ علم اور فروغ محبت ان کی زندگی کا مشن ہے۔ شاعر بے بدل سرورؔ بارہ بنکوی کا یہ شعر ان پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
سومرو صاحب کا تعلق ایک مذہبی اور ادبی گھرانے سے ہے۔ وہ ایک سفر نامہ نگار، محقق، مضمون نگار اور محنتی انسان ہیں۔ انھوں نے اپنی منفرد خوبیوں اور صلاحیتوں کی بدولت علم وادب کے میدان میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ ان کے والد بزرگوار کا اسم گرامی مولانا اللہ بخش سومرو ہے جن کا شمار اپنے وقت کے جید علمائے کرام میں ہوتا تھا۔ حاجی فقیر محمد سومروکی والدہ ماجدہ محترمہ ہاجرہ بیگم ایک نیک سیرت، نمازی، پرہیزگار، رحمدل اور باپردہ خاتون تھیں۔فقیر محمد سومرو کو ادبی ذوق ورثہ میں ملا ہے۔ انھوں نے اپنے علمی سفرکا آغاز مختصر مضامین اورکالم نگاری سے کیا۔ ان کی مختلف موضوعات پر مشتمل تحریریں مختلف اخبارات اور جرائد میں شایع ہوچکی ہیں۔ اُن کی تین شایع شدہ کتابوں کے عنوانات ہیں۔ سومرن جو شجرو، روح پرور سفر اور خفتگان جنت البقیع۔
ایک مشہور کہاوت ہے '' باپ پر پوت پتا پر گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔'' یہ کہاوت ان کے اکلوتے صاحبزادے فرزند محمد عارف سومرو پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے جو نوجوانی میں ہی اپنی ادبی شخصیت کا لوہا منوا رہے ہیں اور اپنے خاندان کی عظمت اور شہرت کو چار چاند لگا رہے ہیں۔
اُن کے چار بھائی ہیں جن کے نام یہ ہیں۔ میر محمد مقبول سومرو، محمد جمن سومرو، نصیر احمد سومرو اور غلام سرور سومرو۔ ان میں ادبی اور علمی ذوق کے حوالے سے میر محمد مقبول سومرو اور نصیر احمد سومرو قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات سے میرا دیرینہ تعلق ہے۔ حیدرآباد میں جب خاکسار اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا تھا تو پروفیسر میر محمد مقبول سومرو کی خدمات سے ہم نے خاطر خواہ استفادہ کیا تھا۔