بات کچھ اِدھر اُدھر کی 1 راستہ بند ہوتا ہے تو 10 کھل جاتے ہیں

پاکستان کا یہ ایک المیہ ہے کہ یہاں تو سب سے زیادہ کرپشن ہوتی ہی ترقی کے نام پر ہے


عاقب علی June 27, 2014
کشمیر سے کراچی تک کی سڑکوں میں کئی جگہوں کی حالت ایسی ہے کہ جھٹکے لگ لگ کر پتھری کے مریض کی پتھری منہ سے نکل آئے. فوٹو: فائل

ایک عام تاثر یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ چیزیں بہتری کی جانب سفر طے کرتی ہیں۔ یعنی اگر آج کسی چیز میں خامی ہے تو وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تجربات کو حاصل کرتے ہوئے اُس خامی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اِس بات کو سمجھانے کے لیے بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن ناجانے آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ جیسے جیسے وقت آگے کی جانب سفر طے کررہا ہے ویسے یسے ہم پیچھے کی جانب جارہے ہیں۔ یعنی ترقی کا پہیا آگے کے بجائے پیچھے کی طرف ہجرت کررہا ہے۔

یہ تو شاید پُرانی بات ہوگئی جب ہم ریلوے کے نظام پر کُڑتے تھے اور ٹرینیں لیٹ ہونے ،انجنوں کی خراب حالت پر ،شیخ رشید اور غلام احمد بلور کی کرامتوں کے قصے سنا کر ریلوے کی بدحالی پر ماتم کررہے تھے اور خراب کارکردگی پر لب کشائی بھی کیا کرتے تھے۔ مگر جناب یہ تو اب جدید دور ہے۔ یعنی بات صرف ریلوے تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ معاملہ آگے نکل چکا ہے۔ یعنی اب ''ریلوے کے بعد پی آئی اے بھی تباہی کی شاہراہ پر گامزن ہوچکا ہے ''۔ شاید وجہ یہ ہے کہ تمام حکومتوں نے پی آئی اے ، اسٹیل ملز اور ریلوے کی تباہی میں سیاسی بھرتیاں کرکے خوب حصہ ڈالا ہے۔

ایک وقت تھا جب کوئی بھی شخص جہاز میں بیٹھے کے بعد تو خود کو محفوظ ہی سمجھ تھا!یقیناً آپ کا جواب بھی ہاں میں ہی ہوگا نا؟ لیکن گزشتہ دنوں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے پشاور آنے والی فلائیٹ پر شرپسندوں نے اس وقت حملہ کردیا جب وہ 350میٹر فضا میں تھی ۔ کراچی ائیر پورٹ پر دہشتگردوں کے حملے اور طاہر القادری صاحب کے جہاز پر قبضے کے بعد یہ تیسر ا واقعہ ہے، جس سے ہوابازی کے ادارے کی دنیا میں سُبکی ہوئی ہے۔مجھے تو لگتا ہے کہ اس صورتحال اور حکومت کی جانب سے مسلسل نظر انداز کئے جانے کے بعد بس سمجھ لو کہ یہ قومی ادارہ '' لٹ گیا،پٹ گیا بلکہ مٹ گیا ''۔

ٹرین لیٹ گئی،ائیر پورٹ اور ہوائی جہاز پر حملے ہورہے ہیں،تو اس میں آنسو بہانے اور افسوس کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے،جناب پاکستانی تو ویسے بھی ہر حال میں جیناجانتے ہیں،ہم سب کو پتا ہے ، وفاقی اور صوبائی حکومت نے موٹر ویز سمیت مواصلات کا جدید نظام بنانے کیلئے ہر سال کی طرح اس برس بھی لگ بھگ 1ہزار ارب روپے کی رقم رکھی ہے۔بس پھر کیا ہے،پکی سڑکوں پر بلور فیملی کی کوچز کی طرح،چوہدریوں، بٹوں،قریشیوں، گیلانیوں،مخدوموں اور سیدوں سمیت کئی سیاسی خاندانوں کی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی بڑی بسیں دوڑ رہی ہوں گی،پھر کراچی سے کشمیر تک کا سفر ہوگا ،ہم ہونگے اور'' لڈی ہو جمالو پائو ،لڈی ہوجمالو '' ہوگی۔اور پھر ہر بڑے شہر میں میٹرو بس اور میٹرو ٹرین کے منصوبے ناگزیر ہوجائیں گے ،اور بڑے لوگ جیبیں بھر کر لڈی ڈال رہے ہونگے۔

میں جانتا ہوں کہ اتنی رقم خرچ ہونے کے باوجود بھی،کشمیر سے کراچی تک کی سڑکوں میں کئی جگہوں کی حالت ایسی ہے کہ جھٹکے لگ لگ کر پتھری کے مریض کی پتھری منہ سے نکل آئے۔ بالکل درست بات ہے، اس میں سے صرف5 سو ارب بھی سڑکوں پر لگ جائے تو صورتحال ہر گز ایسی نہ ہو،مگر کیا کہیں، جو لوگ ریلوے ، اسٹیل ملز اور پی آئی اے کو ڈکار گئے ، انہوں نے سڑکوں کی کمائی کو کہاں بخشنا تھا ،ویسے بھی یوہی تو اربوں ڈالر ملک سے باہر نہیں چلے گئے۔ ایک بات کسی نہ کسی حد تک ٹھیک ہے کہ کرپشن تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتی ہے مگر وہاں،اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ عام آدمی کی زندگی اس سے متاثر نہ ہو۔ ریلوے، ائیر لائن، سڑکوں کی تعمیر میں طے شدہ معیار کو ہر صورت فالو کیا جاتا ہے،امن و امان کا قیام بنیادی اہمیت رکھتا ہے اس لیے پولیس بھی سیاست ، سیاستدانوں اور کرپٹ عناصر سے تقریباً پاک ہوتی ہے، لیکن ہمارے یہاں تو سب سے زیادہ کرپشن ہوتی ہی ترقی کے نام پر ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔