سندھ ہائیکورٹ کا لاپتا شہریوں کی بازیابی کی درخواستوں پر مقدمات درج کرنے کا حکم
لاپتا شہریوں کے اہلخانہ کیلیے یہ بہت تکلیف دہ ہے کہ انہیں یہ تک پتا نہیں ہوتا کہ ان کے پیاروں کوکیوں اٹھایا گیا،عدالت
سندھ ہائیکورٹ نے کراچی کے مختلف علاقوں سے لاپتا شہریوں کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر مقدمات درج کرنے کا حکم دیدیا۔
جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو کراچی کے مختلف علاقوں سے لاپتا شہریوں کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی ۔ دوران سماعت لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق اہم پیش رفت سامنے آئی۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ شریف آباد کے علاقے سے لاپتا شہری محمد عمر اور تیموریہ تھانے کی حدود سے لاپتا شہری سید ایاز گھر واپس آگئے ہیں جبکہ ریحان یوسف پلازہ سے، محمد رضوان سعود آباد کے علاقے سے اور عرفان مومن آباد کے علاقے سے لاپتا ہیں۔
عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ جو شہری بازیاب ہو کر آگئے ہیں کیا انہوں نے بتایا کہ انہیں کون لے کر گیا تھا؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ وہ شہری بہت خوفزدہ ہیں وہ کچھ بتا نہیں پا رہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر طاقتور بار کے وکلاء بھی یہ کہیں کہ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے تو ایسے کیسز میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس دن کسی نے کچھ کہنا شروع کردیا تو اس دن یہ فائلیں بھی کم ہو جائیں گی۔
جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے رینجرز کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ لیگل کور نہ ہونے کی وجہ سے لوگ رینجرز کو اچھا نہیں سمجھتے، ایسا قانون بنانا چاہیے اگر رینجرز کو کسی بھی شخص کی کوئی انویسٹی گیشن کرنی ہو تو قانونی طور پر کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ لاپتا شہریوں کے اہلخانہ کے لیے یہ بہت ہی تکلیف دہ عمل ہے، ان کے پیارے سالوں سے لاپتا ہوتے ہیں لیکن انہیں یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ انہیں کیوں اٹھایا گیا۔
رینجرز کے وکیل نے موقف دیا کہ ایسا قانون 2015 میں لاگو کیا گیا تھا لیکن 2017 میں پھر سے حذف کردیا گیا۔ جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کے پاس اس قانون کی کاپی ہے تو عدالت میں پیش کردیں تاکہ آئندہ اس طرح کے آنے والے کیسز میں ایسا قانون بنانے کی تجویز دی جاسکے۔
عدالت نے لاپتا شہریوں کے مقدمات درج کرنے حکم دیتے ہوئے 15 جولائی تک پولیس و رینجرز سمیت دیگر فریقین سے جواب طلب کرلیا۔
جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو کراچی کے مختلف علاقوں سے لاپتا شہریوں کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی ۔ دوران سماعت لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق اہم پیش رفت سامنے آئی۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ شریف آباد کے علاقے سے لاپتا شہری محمد عمر اور تیموریہ تھانے کی حدود سے لاپتا شہری سید ایاز گھر واپس آگئے ہیں جبکہ ریحان یوسف پلازہ سے، محمد رضوان سعود آباد کے علاقے سے اور عرفان مومن آباد کے علاقے سے لاپتا ہیں۔
عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ جو شہری بازیاب ہو کر آگئے ہیں کیا انہوں نے بتایا کہ انہیں کون لے کر گیا تھا؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ وہ شہری بہت خوفزدہ ہیں وہ کچھ بتا نہیں پا رہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر طاقتور بار کے وکلاء بھی یہ کہیں کہ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے تو ایسے کیسز میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس دن کسی نے کچھ کہنا شروع کردیا تو اس دن یہ فائلیں بھی کم ہو جائیں گی۔
جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے رینجرز کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ لیگل کور نہ ہونے کی وجہ سے لوگ رینجرز کو اچھا نہیں سمجھتے، ایسا قانون بنانا چاہیے اگر رینجرز کو کسی بھی شخص کی کوئی انویسٹی گیشن کرنی ہو تو قانونی طور پر کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ لاپتا شہریوں کے اہلخانہ کے لیے یہ بہت ہی تکلیف دہ عمل ہے، ان کے پیارے سالوں سے لاپتا ہوتے ہیں لیکن انہیں یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ انہیں کیوں اٹھایا گیا۔
رینجرز کے وکیل نے موقف دیا کہ ایسا قانون 2015 میں لاگو کیا گیا تھا لیکن 2017 میں پھر سے حذف کردیا گیا۔ جسٹس مسز کوثر سلطانہ حسین نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کے پاس اس قانون کی کاپی ہے تو عدالت میں پیش کردیں تاکہ آئندہ اس طرح کے آنے والے کیسز میں ایسا قانون بنانے کی تجویز دی جاسکے۔
عدالت نے لاپتا شہریوں کے مقدمات درج کرنے حکم دیتے ہوئے 15 جولائی تک پولیس و رینجرز سمیت دیگر فریقین سے جواب طلب کرلیا۔