معیشت کی سمت درست ہے
اسٹیٹ بینک کے مطابق جی ڈی پی کی شرح نمو2 سے 3 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک معاشی طور پر درست سمت میں گامزن ہے، بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات کیے،کاروباری شخصیات کے وفد سے ملاقات میں انھوں نے مزید کہا کہ کاروبار دوست پالیسیوں کی بدولت ملکی معیشت مستحکم اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ برآمدی صنعت کی ترقی کے لیے بجٹ اقدامات یقینی بنا رہے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا بجا ہے کہ ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہوچکی ہے۔ اسی تناسب سے معیشت کا پہیہ چلتا رہا تو مہنگائی میں بھی مزید کمی آئے گی۔ ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام دیکھاگیا اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان پایا جا رہا ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق جی ڈی پی کی شرح نمو2 سے 3 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے، شرح نمو میں اضافے کا کلیدی محرک زراعت کا شعبہ ہے، مالی سال 2024 میں گندم، چاول، مکئی اور کپاس کی فصلوں میں بمپر اضافہ ہوا ہے، زراعت کے شعبے کی شرح نمو 7 فیصد سے زائد رہی ہے، ترسیلات زر میں اضافے سے کرنٹ اکاؤنٹ میں اضافہ ہوا ہے۔
ایشین ڈیولپمنٹ بینک (اے ڈی بی)، اسٹیٹ بینک اور شماریات بیورو نے اپنی رپورٹس میں پاکستان کی معاشی کارکردگی کو مثبت سمت کی جانب گامزن قرار دیا ہے۔ رپورٹس 3 سہ ماہیوں کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایس آئی ایف سی نے معیشت کو درست راہ پر لانے کے لیے پالیسی سطح پر کوششیں کیں۔ رپورٹس کے مطابق گزشتہ 9 ماہ سے پاکستان کی معیشت درست سمت پر چل رہی ہے، سال 2023 کی نسبت رواں سال پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر رہی۔
دراصل ہمیں آمدن میں کمی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کے نتیجے میں جاری کھاتے میں خسارے کا سامنا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اقتصادی ماہرین کی جانب سے دو اہم ترین حل پیش کیے جاتے ہیں۔ اوّل یہ کہ محصولات کا دائرہ دیگر شعبوں اور افراد تک بھی بڑھایا جائے، دوم برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ موخر الذکر عمل کے لیے ہمیں طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنا پڑے گی اور انفرا اسٹرکچر بنانا پڑے گا، لیکن اولذکر عمل کے لیے ہمیں محض ایک مستحکم فیصلہ کرنا ہوگا اور اس پر ڈٹ جانا ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں امیر برآمدکنندگان، لاکھوں ایکڑ اراضی رکھنے والے کاشت کاروں، تاجروں، خوردہ فروشوں اور رئیل اسٹیٹ میں کام کرنے والے افراد برائے نام ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ حکومت تنخواہ دار طبقے سے جس قدر ٹیکس لے رہی ہے وہ پہلے ہی بہت زیادہ ہے، اگر حکومت ٹیکس نیٹ میں اضافے کی خواہش مند ہے تو اسے اب دیگر شعبہ جات کی جانب دیکھنا ہوگا۔
ہماری پہلی معاشی فالٹ لائن یہ ہے کہ ہم اپنے خطے میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تجارت نہیں بڑھا سکے۔ اس کی وجوہات پر دو آراء ہو سکتی ہیں لیکن اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ یہ معاشی فالٹ لائن بہت نمایاں ہے۔ انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات نہ ہونے کے برابر ہیں، اس کی ذمے داری یقینا پاکستان پر نہیں ڈالی جاسکتی تاہم مسئلہ تو موجود ہے۔ افغانستان کے ساتھ باقاعدہ اور قانونی تجارت کا حجم معمولی سا ہے جب کہ بے قاعدہ اور غیرقانونی تجارت کا حجم بہت زیادہ ہے۔ چین کے ساتھ تجارت کا حجم بتاتا ہے کہ معاملہ یک طرفہ ہے اور ہم صرف کنزیومر مارکیٹ بن کر رہ گئے ہیں۔
جب تک کوئی ملک اپنے خطے میں پڑوسیوں کے ساتھ معاشی امکانات تلاش نہیں کرتا، اس کی معیشت کا سنبھل جانا اور پھلنا پھولنا ایک خواب ہی رہتا ہے۔ پڑوسیوں سے قانون کے دائرہ میں تجارت نہ ہونا پاکستانی معیشت کی ایک بہت بڑی فالٹ لائن ہے۔ یہ فالٹ لائن کیسے اور کیوں کر بھری جا سکتی ہے، دوسری فالٹ لائن ہمارا حکومتی و انتظامی و قانونی ڈھانچہ ہے۔ ایسے سرکاری محکموں کی بھرمار ہے جن کے ملازمین سوائے تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے کوئی کام نہیں کرتے ہیں۔
ضابطوں کی پیچیدگیاں سرمایہ کار کو نچوڑ دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ مسئلے کو ٹھوس بنیادوں پر حل کرنے کے بجائے ایڈہاک متبادل تلاش کرنے کی روایت عام ہے اس لیے اس مسئلے کے حل کے لیے خصوصی سرمایہ کاری کونسل بنائی گئی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری کوئی ایسی چیز نہیں جو الگ سے ایک جزیرے کی صورت آباد ہو۔ یہ مقامی سرمایہ کاری سے جڑی ہوئی چیز ہے اور یہ ایک مربوط عمل ہے۔ مقامی سرمایہ کار اگر بیوروکریسی کے خود ساختہ پیچیدہ بندوبست میں الجھے رہیں گے تو غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی گہن لگے گا۔ جب تک بیوروکریسی سرمایہ کار کو ذمے داری کے بجائے موقع اور امکان سمجھتی رہے گی، معیشت بہتر نہیں ہو سکتی۔ ہم زرعی ملک ہیں لیکن کسان کو غریب کر دیا گیا ہے۔وجہ؟ سب کو معلوم ہے۔
اس وقت توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ ہورہی ہیں، بجلی کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے اور متوسط طبقہ اب بجلی کے بلز ادا کرنے قابل نہیں رہا ، ہوشربا مہنگی کے ہاتھوں عوام پریشان ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورت حال میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں غربت میں کمی کے لیے کچھ کر سکتی ہیں؟ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ غیرملکی قرضوں کی ادائیگی، اور آئی پی پیز کے واجبات کی ادائیگی کے بعد حکومت کے پاس بہت کم پیسہ بچتا ہے کہ وہ عوامی خدمت یا غربت کو کم کرنے کے لیے کوئی منصوبہ شروع کرے۔ تاہم سماجی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر حکومت تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر بھرپور توجہ دے، تو اس غربت کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ گزشتہ کچھ دہائیوں میں ایک عام آدمی کا تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی پہ خرچہ بڑھ گیا ہے۔
متوسط طبقے سے لے کر نچلے طبقات تک عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں پڑھاتی ہے۔ علاج کے لیے نجی اسپتالوں میں جاتی ہے جب کہ پینے کے لیے پانی خرید کر پیتی ہے۔ پاکستان میں دو کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور ان کے باہر رہنے کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ غربت ہے۔ دیہاتوں میں یہ بچے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ فصلوں کی کٹائی کے وقت انھیں اسکول سے چھٹی لینی پڑتی ہے جو بالاخر اسکول چھوڑنے پر منتہج ہوتی ہے۔ شہروں میں بچے ورکشاپس، چھوٹی دکانوں اور ہوٹلوں پر کام کرتے ہیں اور انھیں تعلیم کو خیرباد کہنا پڑتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ایک عام آدمی کا پانی کا خرچہ ایک ہزار روپے سے لے کر تین ہزار روپے تک ہے اور یہ بھی اس صورت میں جب وہ انتہائی غیر معیاری پانی خرید رہا ہو۔ بالکل اسی طرح آج کچی آبادیوں میں رہنے والے غریب افراد بھی گلی محلے کے نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں میں اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں اور اگر ایک عام آدمی کے اوسطا پانچ بچے ہیں تو وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر تین سے آٹھ ہزار روپے خرچ کرتا ہے۔ زیادہ تر غریب افراد سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں لیکن ان کو نجی اسپتالوں کی طرف بھی جانا پڑتا ہے اور اگرکسی نجی اسپتال میں کوئی سرجری کرا لی جائے تو وہ معاشی طور پر 10 سال پیچھے جا سکتا ہے۔
حکومت چاہے تو ان تین مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک بڑی تعداد میں سرکاری تعلیمی اداروں کا رقبہ نجی تعلیمی اداروں سے بہت بہتر ہے لیکن مسئلہ اساتذہ کی عدم دلچسپی یا غیر حاضری ہے۔ اگر ان اسکولوں میں قانون نافذ کرنے والوں کی مدد سے عملے کی سو فیصد حاضری کو یقینی بنایا جائے اور معیار تعلیم کو بہتر کیا جائے تو عوام کی ایک بڑی تعداد دوبارہ اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھیج سکتی ہے۔ پھر یہاں دوسری اور ممکنہ طور پر تیسری شفٹ شروع کر کے کروڑوں اسکول چھوڑ جانے والے طالب علموں کو واپس لایا جا سکتا ہے۔
تاہم اس کے لیے ممکنہ طور پر شفٹ کے گھنٹے کم کرنے ہوں گے۔ بالکل اسی طرح بڑے پیمانے پر واٹر فلٹر پلانٹس لگا کر پینے کا صاف پانی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ آلودہ پانی آسانی سے روکی جانے والی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ملک میں 80 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ بنیادی صحت کے مراکز اور سرکاری اسپتالوں میں مفت معیاری علاج فراہم کر کے غریب آدمی کے اس بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے، جو مہنگے علاج کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اسپتالوں میں بھی تین شفٹیں شروع کی جا سکتی ہیں۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان تین مسائل پر بھی بھرپور توجہ دیں تو ایک عام آدمی اپنے ماہانہ اخراجات سے ایک مناسب رقم بچا سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق بہ راہ راست ٹیکسز کُل ٹیکسز کا محض30فی صد ہیں۔ حکومت کا زیادہ تر انحصار ِان ڈائریکٹ ٹیکسز پر ہے جو غریب اور امیر یکساں ادا کرتے ہیں۔ غریب طبقے کی آمدن محدود ہونے کے باوجود انھیں زیادہ رقم حکومتی خزانے میں جمع کرانی پڑتی ہے۔ ملک میں ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کی تعداد محض 30 لاکھ ہے اور یہاں ملکی دولت (جی ڈی پی) کا محض 10.2 فی صد محاصل کی مد میں جمع ہوتا ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ غریبوں کا مزید خون نچوڑنے کے بجائے امیروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے اور ہم یہ کرسکتے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا بجا ہے کہ ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہوچکی ہے۔ اسی تناسب سے معیشت کا پہیہ چلتا رہا تو مہنگائی میں بھی مزید کمی آئے گی۔ ڈالرکے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام دیکھاگیا اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان پایا جا رہا ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق جی ڈی پی کی شرح نمو2 سے 3 فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے، شرح نمو میں اضافے کا کلیدی محرک زراعت کا شعبہ ہے، مالی سال 2024 میں گندم، چاول، مکئی اور کپاس کی فصلوں میں بمپر اضافہ ہوا ہے، زراعت کے شعبے کی شرح نمو 7 فیصد سے زائد رہی ہے، ترسیلات زر میں اضافے سے کرنٹ اکاؤنٹ میں اضافہ ہوا ہے۔
ایشین ڈیولپمنٹ بینک (اے ڈی بی)، اسٹیٹ بینک اور شماریات بیورو نے اپنی رپورٹس میں پاکستان کی معاشی کارکردگی کو مثبت سمت کی جانب گامزن قرار دیا ہے۔ رپورٹس 3 سہ ماہیوں کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایس آئی ایف سی نے معیشت کو درست راہ پر لانے کے لیے پالیسی سطح پر کوششیں کیں۔ رپورٹس کے مطابق گزشتہ 9 ماہ سے پاکستان کی معیشت درست سمت پر چل رہی ہے، سال 2023 کی نسبت رواں سال پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر رہی۔
دراصل ہمیں آمدن میں کمی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کے نتیجے میں جاری کھاتے میں خسارے کا سامنا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے اقتصادی ماہرین کی جانب سے دو اہم ترین حل پیش کیے جاتے ہیں۔ اوّل یہ کہ محصولات کا دائرہ دیگر شعبوں اور افراد تک بھی بڑھایا جائے، دوم برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ موخر الذکر عمل کے لیے ہمیں طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنا پڑے گی اور انفرا اسٹرکچر بنانا پڑے گا، لیکن اولذکر عمل کے لیے ہمیں محض ایک مستحکم فیصلہ کرنا ہوگا اور اس پر ڈٹ جانا ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں امیر برآمدکنندگان، لاکھوں ایکڑ اراضی رکھنے والے کاشت کاروں، تاجروں، خوردہ فروشوں اور رئیل اسٹیٹ میں کام کرنے والے افراد برائے نام ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ حکومت تنخواہ دار طبقے سے جس قدر ٹیکس لے رہی ہے وہ پہلے ہی بہت زیادہ ہے، اگر حکومت ٹیکس نیٹ میں اضافے کی خواہش مند ہے تو اسے اب دیگر شعبہ جات کی جانب دیکھنا ہوگا۔
ہماری پہلی معاشی فالٹ لائن یہ ہے کہ ہم اپنے خطے میں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تجارت نہیں بڑھا سکے۔ اس کی وجوہات پر دو آراء ہو سکتی ہیں لیکن اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ یہ معاشی فالٹ لائن بہت نمایاں ہے۔ انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات نہ ہونے کے برابر ہیں، اس کی ذمے داری یقینا پاکستان پر نہیں ڈالی جاسکتی تاہم مسئلہ تو موجود ہے۔ افغانستان کے ساتھ باقاعدہ اور قانونی تجارت کا حجم معمولی سا ہے جب کہ بے قاعدہ اور غیرقانونی تجارت کا حجم بہت زیادہ ہے۔ چین کے ساتھ تجارت کا حجم بتاتا ہے کہ معاملہ یک طرفہ ہے اور ہم صرف کنزیومر مارکیٹ بن کر رہ گئے ہیں۔
جب تک کوئی ملک اپنے خطے میں پڑوسیوں کے ساتھ معاشی امکانات تلاش نہیں کرتا، اس کی معیشت کا سنبھل جانا اور پھلنا پھولنا ایک خواب ہی رہتا ہے۔ پڑوسیوں سے قانون کے دائرہ میں تجارت نہ ہونا پاکستانی معیشت کی ایک بہت بڑی فالٹ لائن ہے۔ یہ فالٹ لائن کیسے اور کیوں کر بھری جا سکتی ہے، دوسری فالٹ لائن ہمارا حکومتی و انتظامی و قانونی ڈھانچہ ہے۔ ایسے سرکاری محکموں کی بھرمار ہے جن کے ملازمین سوائے تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے کوئی کام نہیں کرتے ہیں۔
ضابطوں کی پیچیدگیاں سرمایہ کار کو نچوڑ دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ مسئلے کو ٹھوس بنیادوں پر حل کرنے کے بجائے ایڈہاک متبادل تلاش کرنے کی روایت عام ہے اس لیے اس مسئلے کے حل کے لیے خصوصی سرمایہ کاری کونسل بنائی گئی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری کوئی ایسی چیز نہیں جو الگ سے ایک جزیرے کی صورت آباد ہو۔ یہ مقامی سرمایہ کاری سے جڑی ہوئی چیز ہے اور یہ ایک مربوط عمل ہے۔ مقامی سرمایہ کار اگر بیوروکریسی کے خود ساختہ پیچیدہ بندوبست میں الجھے رہیں گے تو غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی گہن لگے گا۔ جب تک بیوروکریسی سرمایہ کار کو ذمے داری کے بجائے موقع اور امکان سمجھتی رہے گی، معیشت بہتر نہیں ہو سکتی۔ ہم زرعی ملک ہیں لیکن کسان کو غریب کر دیا گیا ہے۔وجہ؟ سب کو معلوم ہے۔
اس وقت توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ ہورہی ہیں، بجلی کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے اور متوسط طبقہ اب بجلی کے بلز ادا کرنے قابل نہیں رہا ، ہوشربا مہنگی کے ہاتھوں عوام پریشان ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس صورت حال میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں غربت میں کمی کے لیے کچھ کر سکتی ہیں؟ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ غیرملکی قرضوں کی ادائیگی، اور آئی پی پیز کے واجبات کی ادائیگی کے بعد حکومت کے پاس بہت کم پیسہ بچتا ہے کہ وہ عوامی خدمت یا غربت کو کم کرنے کے لیے کوئی منصوبہ شروع کرے۔ تاہم سماجی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر حکومت تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر بھرپور توجہ دے، تو اس غربت کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ گزشتہ کچھ دہائیوں میں ایک عام آدمی کا تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی پہ خرچہ بڑھ گیا ہے۔
متوسط طبقے سے لے کر نچلے طبقات تک عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں پڑھاتی ہے۔ علاج کے لیے نجی اسپتالوں میں جاتی ہے جب کہ پینے کے لیے پانی خرید کر پیتی ہے۔ پاکستان میں دو کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور ان کے باہر رہنے کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ غربت ہے۔ دیہاتوں میں یہ بچے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ فصلوں کی کٹائی کے وقت انھیں اسکول سے چھٹی لینی پڑتی ہے جو بالاخر اسکول چھوڑنے پر منتہج ہوتی ہے۔ شہروں میں بچے ورکشاپس، چھوٹی دکانوں اور ہوٹلوں پر کام کرتے ہیں اور انھیں تعلیم کو خیرباد کہنا پڑتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ایک عام آدمی کا پانی کا خرچہ ایک ہزار روپے سے لے کر تین ہزار روپے تک ہے اور یہ بھی اس صورت میں جب وہ انتہائی غیر معیاری پانی خرید رہا ہو۔ بالکل اسی طرح آج کچی آبادیوں میں رہنے والے غریب افراد بھی گلی محلے کے نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں میں اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں اور اگر ایک عام آدمی کے اوسطا پانچ بچے ہیں تو وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر تین سے آٹھ ہزار روپے خرچ کرتا ہے۔ زیادہ تر غریب افراد سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں لیکن ان کو نجی اسپتالوں کی طرف بھی جانا پڑتا ہے اور اگرکسی نجی اسپتال میں کوئی سرجری کرا لی جائے تو وہ معاشی طور پر 10 سال پیچھے جا سکتا ہے۔
حکومت چاہے تو ان تین مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک بڑی تعداد میں سرکاری تعلیمی اداروں کا رقبہ نجی تعلیمی اداروں سے بہت بہتر ہے لیکن مسئلہ اساتذہ کی عدم دلچسپی یا غیر حاضری ہے۔ اگر ان اسکولوں میں قانون نافذ کرنے والوں کی مدد سے عملے کی سو فیصد حاضری کو یقینی بنایا جائے اور معیار تعلیم کو بہتر کیا جائے تو عوام کی ایک بڑی تعداد دوبارہ اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھیج سکتی ہے۔ پھر یہاں دوسری اور ممکنہ طور پر تیسری شفٹ شروع کر کے کروڑوں اسکول چھوڑ جانے والے طالب علموں کو واپس لایا جا سکتا ہے۔
تاہم اس کے لیے ممکنہ طور پر شفٹ کے گھنٹے کم کرنے ہوں گے۔ بالکل اسی طرح بڑے پیمانے پر واٹر فلٹر پلانٹس لگا کر پینے کا صاف پانی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ آلودہ پانی آسانی سے روکی جانے والی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ ملک میں 80 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ بنیادی صحت کے مراکز اور سرکاری اسپتالوں میں مفت معیاری علاج فراہم کر کے غریب آدمی کے اس بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے، جو مہنگے علاج کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اسپتالوں میں بھی تین شفٹیں شروع کی جا سکتی ہیں۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان تین مسائل پر بھی بھرپور توجہ دیں تو ایک عام آدمی اپنے ماہانہ اخراجات سے ایک مناسب رقم بچا سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق بہ راہ راست ٹیکسز کُل ٹیکسز کا محض30فی صد ہیں۔ حکومت کا زیادہ تر انحصار ِان ڈائریکٹ ٹیکسز پر ہے جو غریب اور امیر یکساں ادا کرتے ہیں۔ غریب طبقے کی آمدن محدود ہونے کے باوجود انھیں زیادہ رقم حکومتی خزانے میں جمع کرانی پڑتی ہے۔ ملک میں ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کی تعداد محض 30 لاکھ ہے اور یہاں ملکی دولت (جی ڈی پی) کا محض 10.2 فی صد محاصل کی مد میں جمع ہوتا ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ غریبوں کا مزید خون نچوڑنے کے بجائے امیروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے اور ہم یہ کرسکتے ہیں۔