کہاں کم ہوئی مہنگائی

کراچی اورلاہور موازنہ کیا جائے تو کراچی میں مہنگائی لاہور کے مقابلے میں زیادہ ہے


Muhammad Saeed Arain July 03, 2024
[email protected]

دونوں ایوانوں میں اپوزیشن نے نئے بجٹ کو حکومت کا نہیں بلکہ آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ سے مہنگائی بڑھے گی۔ جواب میں حکومت نے بھی تسلیم کیا کہ مہنگائی ختم کرنے میں وقت لگے گا۔ حکومت کی طرف سے مہنگائی کا برقرار رہنا تسلیم کیے جانے کے باوجود ایک سرکاری ادارہ مہنگائی میں واضح کمی کے بے بنیاد اعداد و شمار جاری کر رہا ہے اور یہ دعوے زیادہ تر پھلوں اور سبزیوں سے متعلق ہیں جب کہ وہ بھی درست نہیں اور عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ مہنگائی 38 سے 12 فی صد پر آگئی ہے جب کہ پٹرولیم مصنوعات میں کمی کے بعد بھی مہنگائی کم نہیں ہوئی اور اس عید قرباں پر مہنگائی بڑھی ہے۔ پنجاب حکومت کے سوا باقی تینوں صوبائی حکومتیں مہنگائی روکنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئیں اور کراچی اور حیدر آباد میں مہنگائی کا جن مسلسل بے قابو چلا آ رہا ہے اور حکومت کچھ نہ کرسکی۔

ملک کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں مہنگائی کا موازنہ کیا جائے تو پنجاب حکومت کی کارکردگی بہتر نظر آئے گی۔ کراچی اورلاہور موازنہ کیا جائے تو کراچی میں مہنگائی لاہور کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ آموں کا سیزن مئی میں شروع ہو جاتا ہے اور سندھ کا آم پنجاب جاتا ہے جو خود آموں کی سب سے زیادہ پیداوار دیتا ہے مگر پنجاب کا آم سندھ کے بعد شروع ہوتا ہے۔مئی میں پنجاب کے بڑے شہروں لاہور ، فیصل آباد ، ملتان اور راولپنڈی میں سندھڑی آم ایک سو ساٹھ روپے فی کلو گرام فروخت ہو رہا تھا جب کہ سندھ کا آم کراچی میں 180 سے دو سو روپے فروخت ہوا۔

جب جنوبی پنجاب کا آم لاہور کی مارکیٹ میں آجائے گا تو سندھڑی آم کی قیمت مزید کم ہوجائے گی ۔کراچی کے مقابلے میں سندھ کا آم پنجاب لے جانے پر اخراجات کہیں زیادہ ہیں مگر پھر بھی لاہور اور راولپنڈی میں آم کراچی سے سستا اس لیے فروخت ہوتا ہے کہ پنجاب کی حکومت اور مارکیٹ کمیٹیاں متحرک ہیں ۔ روزانہ پھلوں اور سبزیوں کے نرخ مقرر اور چیک ہوتے ہیں اور دکانوں، پتھاروں اور ریڑھیوں تک پر نرخ نامے لگے نمایاں نظر آتے ہیں مگر سندھ حکومت سوئی رہتی ہے اور سندھ کی مارکیٹ کمیٹیاں غیرفعال ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں کے مقابلے میں دودھ ہر گھر کی ضرورت ہے مگر کراچی میں دودھ لاہور کی نسبت ہمیشہ سے مہنگا چلا آرہا ہے۔سابق کمشنر کراچی نے گزشتہ سال دو سو پندرہ روپے لیٹر فروخت ہونے والے دودھ کا نرخ دو سو روپے لیٹر مقرر کیا تھا جس پر عمل بھی کرایا تھا لیکن اب دوبارہ دودھ کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ عیدالاضحی سے قبل دودھ کی قیمت دو سو بیس روپے فی لیٹر مقرر کردی گئی مگر دودھ کے معیار پر توجہ نہیں دی۔

لاہور میں دودھ ایک سو ساٹھ سے ایک سو اسی روپے لیٹر مل رہا ہے اور دہی دوسو روپے کلو ملتی ہے اور کراچی میں دہی کا نرخ مقرر ہی نہیں کیا جاتا اور دو سو اسی روپے کلو سے تین سو بیس روپے کلو کافی عرصے سے فروخت ہو رہی ہے مگر کراچی کی انتظامیہ نے دہی کے نرخ کبھی مقرر کیے نہ توجہ دی اور دکانداروں کو دہی من پسند نرخوں پر فروخت کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

سبزیاںامیروں سے زیادہ غریبوں کی ضرورت ہے جو پنجاب میں سستی اور سندھ و کراچی میں مہنگی ہیں۔ پنجاب میں اب بھی سبزی خریدنے پر سبزمرچ اور دھنیا بطور سپلمنٹری مل جاتا ہے مگر کراچی میں سبز دھنیے کی گڈی بیس روپے کی مل رہی ہے۔ ہول سیل سبزی منڈی میں دھنیا فروخت کرنے والوں کی چلتی ہے جو چھوٹی گڈی بھی بڑی گڈی کے نرخوں پر فروخت کرتے ہیں اور مرضی سے کمی وبیش کرنے کے مالک ہیں کیونکہ دھنیا پودینے کے نرخ مقرر کرنے کی کوئی سرکاری پالیسی نہیں ہے۔

عید قرباں پر جہاں جانور فروخت کرنے والوں نے مرضی کے نرخ وصول کیے وہاں سبزی فروش کیوں پیچھے رہتے۔ عید قرباں پر لہسن، ادرک، ٹماٹر، پیاز، لیموں، دھنیا، پودینا کی کھپت بڑھ جاتی ہے اور گوشت کے لیے ان اشیا کی ہر گھر میں ضرورت ہوتی ہے، اس لیے دودھ کی طرح ان اشیا کے نرخ بھی بڑھا دیے گئے کیونکہ گراں فروشوں نے دیکھ لیا کہ دودھ کی قیمت بڑھائے جانے پر جماعت اسلامی کے سوا کسی نے احتجاج نہیں کیا اس لیے یہ اشیا بھی منہ مانگے داموں فروخت ہوئیں۔

وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ حکومت نے سو دنوں میں پٹرول 35 روپے لیٹر سستا کیا مگر ملک میں مہنگائی کہیں کم نہیں ہوئی البتہ وفاقی ادارے کے اعداد و شمار ہر ہفتے جاری ہو رہے ہیں لیکن مہنگائی برقرار ہے۔ مرغی کے نرخ عید قرباں کی وجہ سے کم ہوتے ہی ہیں جب کہ شدید گرمی میں اب بھی انڈے دو سو ستر روپے درجن چل رہے ہیں۔ مہنگائی پر کنٹرول صوبائی حکومتوں نے کرنا ہے مگر نہیں کر رہیں اور مہنگائی وفاقی حکومت کا مسئلہ نہیں صرف وفاقی ادارہ مہنگائی کم ہونے کے اعداد و شمار جاری کر دیتا ہے اور مہنگائی روکنے کے لیے پنجاب حکومت ہی کے اقدامات صرف پنجاب ہی میں نظر آتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔