دال میں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ تو ’’گلو بٹ‘‘ ہے

’’کے ڈی پاٹک‘‘ کاایک مشہور اورکثیر الاستعمال قول زریں ہے کہ جو ہوتا ہے وہ دِکھتا نہیں اور جو دِکھتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq June 28, 2014
[email protected]

لاہور: ''کے ڈی پاٹک'' کا ایک مشہور اور کثیر الاستعمال قول زریں ہے کہ جو ہوتا ہے وہ دِکھتا نہیں اور جو دِکھتا ہے وہ ہوتا نہیں ہے، کیا یہ سیاست اور دنیائے سیاست کی مکمل تفسیر اور خلاصہ نہیں ہے کہ جو ہوتا ہے وہ دِکھتا نہیں اور جو دِکھتا ہے وہ ہوتا نہیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو گلو بٹ ہے وہ گلو بٹ نہیں ہے اور جو گلو بٹ نہیں ہے وہ گلو بٹ ہے۔یہ سب کچھ عیاں ہے اور عیاں کے لیے کسی بیان کی ضرورت نہیں ہوتی البتہ عیاں کو چھپانے کے لیے سو ''بیان'' دیے جا سکتے ہیں ۔

میرے بھی گلو بٹ ہیں تیرے بھی گلو بٹ ہیں

ایرے بھی گلو بٹ ہیں غیرے بھی گلو بٹ ہیں

نتھو بھی گلو بٹ ہیں خیرے بھی گلو بٹ ہیں

''ٹی وی'' بھی گلو بٹ ہیں کیمرے بھی گلو بٹ ہیں

گلو بٹ کے ظہور اور عروج و زوال کا کوئی تعلق ہم علامہ طاہر القادری سے تو ثابت نہیں کر سکتے کیوں کہ موصوف کا دامن اتنا صاف اور اجلا ہے کہ اس پر گلو بٹ ڈالنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

بقول روایات یزدان نے جام جم والے بادشاہ کو سلطنت کے لیے تین نشانیاں دی تھیں ایک جام، ایک عصا اور ایک بیل ۔۔۔ اور دیکھا جائے تو آج بھی حکومت سیاست اور ملوکیت کے لیے ان ہی تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، جام تو خود حاکم کی بصیرت اور اس کے چمچے ہوتے، لاٹھی لوگوں کو سیدھا کرنے کے لیے اور بیل کام کرنے کے لیے آخر الذکر کو آج کل عوام کہا جاتا ہے اور جام سفال مٹی کا آب خورہ جسے ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے ۔۔۔

یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جام سفال، گلو بٹ اور شہید کارکن ریزگاری ہوتے ہیں اور ریز گاری کا وجود ہی خرچ کرنے کے لیے ہوتا ہے جمع کرنے کے لیے اور سنبھال کر رکھنے کے لیے بلکہ بچا بچا کے رکھنے کے لیے ''نوٹ'' ہوتے ہیں جام جم ہوتا ہے اور ۔۔۔۔ وہ ہوتے ہیں جن کو آپ جانتے ہیں لیکن ''پہچانتے'' نہیں ہیں، ہاں وہ آپ کو بھی پہچانتے ہیں گلو بٹ کو بھی اور مٹی کے ''آب خوروں'' کو بھی حضرت علامہ قادری کے شفاف دامن پر تو ہم کسی گلو بٹ کا دھبہ نہیں لگا سکتے کیوں کہ موصوف کو جتنا ہم جانتے ہیں بڑے شفاف آدمی ہیں خاص طور پر میڈیا اور میڈیا کے استعمال کے بارے میں تو کچھ بھی نہیں جانتے اور یہ تو بالکل بھی نہیں جانتے کہ ''ہونے'' اور ''دکھانے'' کا ہنر کیا ہے؟

وہ تو سیدھے سادھے ریاست بچانے کیا جذبہ صادق لے کر چلے تھے اور آرام سے بیٹھ کر انقلاب کی ہنڈیا چڑھانا چاہتے تھے لیکن برا ہو اس گلو بٹ کا ۔۔۔ بلکہ کچھ اور ٹلو بٹ جلو بٹ لوگوں کا ۔۔۔ جو ان کے جذبہ ملی جذبہ دینی اور جذبہ انقلابی کے آڑے آ گئے اور لاہور کے اس حادثہ فاجعہ کا باعث بن گئے

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

ہمیں تو اس سارے قصے میں اگر کچھ کالا نظر آتا ہے تو وہ یہ ہے کہ حکومت بے حد شریف ہے اور اگر شریف ہے تو پھر حد سے اوپر نادان بھی ہے کہ خواہ مخواہ اتنی کالی کیچڑ اٹھا کر نہ صرف خود پر اچھال لی بلکہ حکومت کے چہرے پربھی اسے لتھڑ دیا حالانکہ ہم نے سنا تھا کہ بڑے میاں نہ سہی چھوٹے میاںصاحب تو بڑے ہوشیار ہیں۔

اتنا عرصہ حکومت میں رہ کربھی اپنا دامن تو صاف رکھے ہوئے تھے پھر نہ جانے کیا ہوا کہ بغیر کسی وجہ کے، بغیر کسی مقصد اور بغیر کچھ حاصل حصول کے یہ سب کچھ کر دیا 'اب یہ داغ صابن کی ایک پوری ٹکیہ رانا سوپ بھی خرچ کر گئے لیکن لاگا چنری میں داغ ۔۔۔ چھپائیں کیسے اور دھوئیں کیسے ۔۔۔ لے دے کر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ خواہ مخواہ ہوشیار بنے پھرتے تھے لیکن اصل میں تھے نہیں ورنہ یوں آپریشن نہ کیا جاتا، خواہ مخواہ ایک گلو بٹ اوپر آٹھ دس صالحین بھی خرچ ہوئے اور ہاتھ آئی تو صرف بدنامی و رسوائی ۔۔۔ اسے ہم نادانی بلکہ حماقت کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں ایسا تو کوئی بچہ بھی شاید نہ کرے

من از بیگانگاں ہر گز نہ نالم

کہ بامن ہر چہ کرد آں آشنا کرد

بلکہ خود کردہ را علاجے نیست لیکن اسے صرف حکمرانوں کی نادانی بھی نہیں کہہ سکتے ان کی نادانی اپنی جگہ کہ نہ کچھ کھایا نہ پیا اور گلاس کے بارہ آنے دینا پڑ رہے ہیں لیکن ہمیں کچھ ایسا لگتا ہے کہ علامہ قادری کی شخصیت ہی ایسی دبنگ ہے کہ ان کے آنے کا سن کر ان کے ہاتھوں کے طوطے، بٹیر، کوے، چیل اور گلو بٹ سارے کے سارے اڑ گئے اور وہ کام ان سے سرزد ہوا جو کوئی دشمن بھی دشمن کے ساتھ نہیں کرتا اور انھوں نے خود اپنے ساتھ اپنے ہی ہاتھوں کیا

کسی کے آتے ہی ساقی کے ایسے ہوش گئے

شراب سیخ پر ڈالی کباب شیشے میں

اسے ہم علامہ طاہر القادری کی سحر انگیز شخصیت کا کمال بھی کہہ سکتے ہیں کہ خواہ مخواہ کہیں سے باد مخالف میں ''تندی'' پیدا ہو گئی جو ان کو بغیر کچھ کیے اونچا اڑا لے گئی، ٹھیک ہے کچھ کارکن شہید ہوئے ہوں گے لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔۔۔ شہید تو پیدا ہی شہید ہونے کے لیے ہوتے ہیں، شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

قتل ہوں گے ترے ہاتھوں سے خوشی اس کی ہے

آج اِترائے ہوئے پھرتے ہیں مرنے والے

لگتا ہے یہ کچھ ستاروں کی جنگ بھی تھی حضرت علامہ کا ستارہ کچھ ایسا چمک دار تھا کہ دوسرے ستارے چکا چوند ہو کر وہیں کر گئے جو اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا، پورس کے ہاتھی سکندر کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے اور خود پورس کا کباڑہ کر گئے، پتہ نہیں یہ ہاتھی کس کے تھے پورس کے یا سکندر کے ۔۔۔ ہو سکتا ہے ہاتھی پورس کے ہی ہوں لیکن سکندر نے ہری ہری گھاس کی لالچ دے کر پلٹا دیا ہو۔

سیاق و سباق ہی سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ کو پہلے ہی سے ادراک تھا ممکن ہے کچھ ایسے عوام بھی ان کے پاس ہوں جو مستقبل کا حال بتاتے ہوں اور ان کو معلوم ہوا ہو کہ ان کو کچھ بھی کرنا کرانا نہیں ہے مخالف خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی اپنی صفوں پر ہاتھ اور اپنی قسمت پر گلو بٹ مارے گا اور اس کی غلطی ہی ان کی کامیابی پر منتج ہو گی اور ایسا ہی ہوا جو توپیں علامہ پر تنی تھیں وہ گھوم کر حکمرانوں پر دھنا دھن برسنے لگیں، ہمیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ''گلو بٹ'' کے ظہور سے پہلے ہی ''توپیں'' ان پر تنی ہوئی ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں