پاکستانی سماج اور کچھ سوالات
پاکستان میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کے بدنوں سے زیادہ ان کے اذہان بیمار ہیں۔
KARACHI:
399 ق م میں اہل ایتھنز کی ایک جیوری کے سامنے جو 500 آدمیوں پر مشتمل تھی تین اشخاص نے، جن میں ایک خطیب لائے کن ، ایک معمولی شاعر ملے ٹس اور ایک با اثر لیڈر انائیٹس تھا، سقراط پر دو الزام لگائے ایک یہ کہ وہ ایتھنزکے دیوتائوں کا قائل نہیں بلکہ نئے دیوتائوں کو مانتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ نوجوانوں کے اخلاق کو بگاڑتا ہے۔ سقراط نے جیوری کے سامنے اپنی آخری تقریر کرتے ہوئے کہا مجھے موت کی ذرا برابر پرواہ نہیں بلکہ صرف ایک بات کی فکر اور بہت بڑی فکر ہے کہ مجھ سے کوئی برا اور نا پاک فعل سر زد نہ ہونے پائے، میرے دوستوں میں بھی انسان ہوں اور دوسرے انسانوں کی طرح گوشت اور خون کا بنا ہوا ہوں نہ کہ پتھر اورلکڑی کا جیسا۔
ہومر نے کہا ہے میں بھی صاحب اولاد ہوں میں دیوتائوں کو مانتاہوں اور اس سے برتر اور بلند تر معنی میں جیسے میرے مدعی مانتے ہیں، میں اپنا مقدمہ خدا پر اور تم لوگوں پر چھوڑتا ہوں، تم جیسا اپنے لیے اور میرے لیے بہتر سمجھو ویسا فیصلہ کرو اہل ایتھنز کئی وجوہ سے مجھے اس کا رنج نہیں کہ تم نے کثرت رائے سے مجھے مجر م قرار دیا مجھے پہلے ہی اس کی توقع تھی بلکہ اس بات پر تعجب ہے کہ آراء قریب قریب برابر ہیں جب کہ میرا خیال تھا کہ میرے خلاف بہت بڑی اکثریت ہوگی مگر یہاں یہ صورت ہے کہ اگر 30 رائے ادھر کی ادھر ہوگئی ہوتیں تو میں چھوڑ دیا جاتا۔
مجھے یقین ہے کہ میں نے کسی اور کے ساتھ برائی نہیں کی اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ میں اپنے ساتھ برائی کروں میں یہ تسلیم نہیں کروں گا کہ میں کسی برے سلوک کا مستحق ہوں اور اپنے لیے کوئی سزا تجویز کروں گا آخر کیوں کروں اسی لیے کہ میں سزائے موت سے جو 'ملے ٹس' نے تجویز کی ہے ڈرتاہوں جب مجھے یہ نہیں معلوم کہ موت اچھی چیز ہے یا بری تو میں ایسی سزا کیوں تجویز کروں جو یقیناً بری ہو۔کیا قید پسند کروں مجھے کیا پڑی ہے کہ میں جیل میں رہوں، مجسٹریٹ کی اور گیارہ حاکموں کی غلامی پسند کروں یا جرمانہ اور قید تا ادائیگی جرمانہ کی سزا ہونی چاہیے اسی پر بھی وہی اعتراض ہے کہ مجھے جیل میں سڑنا پڑے گا۔
اس لیے کہ روپیہ تو میرے پاس ہی نہیں کہ جرمانہ ادا کروں اور اگر جلاوطنی تجویز کروں ممکن ہے تم یہ ہی سزا مقرر کرو تو اس کے یہ معنیٰ ہوں گے کہ مجھے زندگی کی محبت نے اندھا کر دیا ہے اور میں اس قدر بے عقل نہیں ہوں کہ جب تم لوگ جو میرے ہم وطن ہومیری گفتگو برداشت نہیں کرسکتے اور سخت مضر اور قابل نفرت سمجھ کر مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہو۔ تومیں یہ کیسے توقع کروں کہ دوسرے میری باتوں کو برداشت کرلیں گے۔ میرا خطاب تم سب سے نہیں ہے بلکہ صرف ان لوگوں سے ہے جنہوں نے میرے لیے سزا ئے موت تجویزکی ہے اور مجھے ان سے ایک بات اور کہنی ہے تم سمجھتے ہو مجھے اس لیے سزا ہوئی ہے کہ مجھے ایسے الفاظ کہنے نہیں آتے جن کی بدولت میں رہا ہو جاتا حقیقت میں ایسا نہیں ہے کہ وہ کمی جو میری سزا کا باعث ہوئی الفاظ کی کمی نہ تھی۔
البتہ نہ مجھ میں اتنی جرأت اور بے با کی تھی اور نہ میری یہ خواہش تھی کہ تم سے اس طرح خطاب کروں جس طرح تم پسند کرتے ہو یعنی تمہارے آگے روئوں اور گڑ گڑائوں اور وہ باتیں کہوں جو تم دوسرے سے سننے کے عادی ہو اور جو میرے خیال میں میری شان کے خلاف ہے۔ تمہارے انداز میں تقریر کر کے زندہ رہنے سے تو میں یہ اچھا سمجھتا ہوں کہ اپنے انداز میں تقریر کروں اور مار ڈالا جائوں۔ میں بوڑھا اور سست قدم ہوں اور مجھے آہستہ چلنے والی چیزیعنی موت نے پکڑلیا ہے اور میرے مدعی تیز ہیں اور انھیں تیز رو چیز یعنی بدی نے پکڑ لیا ہے۔
میرے دوستو اب اگر تم یہ سمجھو کہ مرنے کے بعد کسی قسم کا شعور باقی نہیں رہتا بلکہ ایک گہری نیند ہوتی ہے جس میں خواب تک خلل انداز نہیں ہوتا تو پھر موت کا کیا کہنا۔ اگر موت ایسی چیز ہے تو میں کہتا ہوں کہ مرنے میں سراسر فائدہ ہے اس لیے کہ پھر تو ازل سے ابد تک صرف ایک ہی رات ہے لیکن اگر موت کسی دوسری جگہ کاسفر ہے جہاں لوگوں کے قول کے مطابق سب گزری ہوئی روحیں رہتی ہیں۔ تو اے میرے دوستو اور منصفو اس سے اچھی اور کیا چیز ہوسکتی ہے اگر واقعی مسافر عالم اسفل میں پہنچ کر اس دنیا کے مدعیان انصاف کے پنجے سے چھوٹ جاتا ہے اور سچے منصفو ں کو پالیتا ہے جو وہاں داد رسی کرتے ہیں تو ایسا سفر واقعی کرنے کے لائق ہے کون شخص دل سے نہ چاہتا ہوکہ اسے آر فیس ، بیوزئیس ، ہیسیڈ اور ہومر سے باتیں کرنے کا موقع ملے۔
اگر یہ سچ ہے تو میں ایک بار نہیں ہزار بار مرنے کو تیار ہوں مجھے تو پیلمیٹر یس اورٹیلا من کے بیٹے اجے کس اوردوسرے سورمائوں سے جو غیر منصفانہ فیصلوں کی بنا پر مارے گئے ملنے اور باتیں کرنے سے انتہائی دلچسپی ہوگی اور اپنی تکلیف کا ان کی تکلیف سے مقابلہ کرنے میں بہت لطف آئے گا ۔ اے منصفو کسی شخص کے لیے اس سے بڑھ کر کیا بات ہوسکتی ہے کہ و ہ ٹرائے کی عظیم الشان مہم کے رہنما اودیسیں ، سیفس اور بے شمار دوسرے مردوں اور عورتوں کا امتحان لے کیا ٹھکانہ ہے اس خو شی کا جوان سے گفتگو کر نے اور سوالات پوچھنے سے حاصل ہوگی دوسری دنیا میں لوگ کسی شخص کو سوالات پوچھنے کے جرم میں قتل نہیں کرتے ہونگے ہرگز نہیں کرتے ہونگے۔
سقراط کی ساری زندگی اور ساری حکمت کا نچوڑ ہے اپنے آپ کو پہچانو اور نیکی علم کا نام ہے۔ تاریخ میں وہ قومیں آگے بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں جن کے ہاں نئے افکار او ر نظریات پیدا ہوتے رہتے ہیں تاکہ وہ بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرسکیں روایت پسندی اور قدامت پرستی افکار و خیالات کو فر سو دہ کردیتی ہیں ایسے معاشرے تاریخ کو باربار دہراتے ہیں۔ پاکستانی سماج کے سلسلہ میں ہمیں یہ ہی نظر آتا ہے کہ اس میں جدید حالات و تقاضوں کا چیلنج قبول کرنے کے لیے فکر ی تحریک نہیں اٹھ رہی ہے اور انتہا پسندی ، رجعت پسندی نے سوچ کی تمام راہوں کو بند کر دیا ہے آخر نصف صدی گذر جانے کے بعد بھی ہم ابھی تک ان ہی مسائل کا شکار کیوں ہیں اب ہمیں اپنی قومی شناخت کی اس بنیاد کو ڈھو نڈنکلالنا ہوگا جو جہل پسندی کے برف تلے کہیں دفن ہے۔
پاکستانی سماج میں سوال کرنا ہمیشہ ہی سے قابل مذمت رہا ہے سوالات پر قدغن لگا کر منافقوں ، انتہا پسندوں اوربہروپیوں نے ہماری آزادی سلب کر لی ہے اور اسے چیلنج کر نے والوں کے لیے موت کی سزائیں دی جاتی رہیں زبردستی لاگو کیے گئے اس کلچر میں سوال کر نے والے حساس ذہن کو قدم قدم پر خطرات کا سامنا ہے لیکن چند انتہا پسند سو چ رکھنے والوں کا یہ جبر سوالات کو ختم نہیں کر سکتا۔ آج صدیوں بعد وہ ہی سب کچھ ہمارے ملک میں بھی ہورہا ہے خدا کے نام پر قتل کیے جارہے ہیں مذہب کے نام پر وحشیانہ سزائیں دی جارہی ہیں۔ اپنے عقائد اور نظریا ت جبر اً لوگوں پر مسلط کیے جارہے ہیں۔
پاکستان میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کے بدنوں سے زیادہ ان کے اذہان بیمار ہیں۔ ہمارے سارے عذابوں کی جڑ یہ ہی بیمار اذہان ہیں ان کے اذہان اس لیے بیمار ہیں کہ انھیں زہریلے اور منفی خیالات سے آلودہ کر دیاجاتا ہے اور وہ ذہنی طور پر بیمار ہوجاتے ہیں اگر ان بیمار ذہنوں کا علاج نہ کیاگیا اور انتہاپسندی اور جنونیت کا بڑھتا ہوا یہ جنون اس قدر وسیع ہوگیاکہ اس پر طاقت سے قابو پانا بھی مشکل ہوگیا تو شاید یہ ایک ایسی تباہی ہوگی جس کی لپیٹ میں پوری دنیا آسکتی ہے۔
ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا ہے پاکستان کو واقعی روشن خیال ، حقیقی جمہوری اور قانون کی بالادستی رکھنے والا ملک بنا کر اور ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ کرکے میرٹ پر عمل درآمد کر کے اس صورت حال سے محفوظ رہا جا سکتا ہے اس کے لیے عوام کو متحر ک کر نا بہت ضروری ہے ۔اور ساتھ ساتھ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی انتہائی ضروری ہے ۔
399 ق م میں اہل ایتھنز کی ایک جیوری کے سامنے جو 500 آدمیوں پر مشتمل تھی تین اشخاص نے، جن میں ایک خطیب لائے کن ، ایک معمولی شاعر ملے ٹس اور ایک با اثر لیڈر انائیٹس تھا، سقراط پر دو الزام لگائے ایک یہ کہ وہ ایتھنزکے دیوتائوں کا قائل نہیں بلکہ نئے دیوتائوں کو مانتا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ نوجوانوں کے اخلاق کو بگاڑتا ہے۔ سقراط نے جیوری کے سامنے اپنی آخری تقریر کرتے ہوئے کہا مجھے موت کی ذرا برابر پرواہ نہیں بلکہ صرف ایک بات کی فکر اور بہت بڑی فکر ہے کہ مجھ سے کوئی برا اور نا پاک فعل سر زد نہ ہونے پائے، میرے دوستوں میں بھی انسان ہوں اور دوسرے انسانوں کی طرح گوشت اور خون کا بنا ہوا ہوں نہ کہ پتھر اورلکڑی کا جیسا۔
ہومر نے کہا ہے میں بھی صاحب اولاد ہوں میں دیوتائوں کو مانتاہوں اور اس سے برتر اور بلند تر معنی میں جیسے میرے مدعی مانتے ہیں، میں اپنا مقدمہ خدا پر اور تم لوگوں پر چھوڑتا ہوں، تم جیسا اپنے لیے اور میرے لیے بہتر سمجھو ویسا فیصلہ کرو اہل ایتھنز کئی وجوہ سے مجھے اس کا رنج نہیں کہ تم نے کثرت رائے سے مجھے مجر م قرار دیا مجھے پہلے ہی اس کی توقع تھی بلکہ اس بات پر تعجب ہے کہ آراء قریب قریب برابر ہیں جب کہ میرا خیال تھا کہ میرے خلاف بہت بڑی اکثریت ہوگی مگر یہاں یہ صورت ہے کہ اگر 30 رائے ادھر کی ادھر ہوگئی ہوتیں تو میں چھوڑ دیا جاتا۔
مجھے یقین ہے کہ میں نے کسی اور کے ساتھ برائی نہیں کی اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ میں اپنے ساتھ برائی کروں میں یہ تسلیم نہیں کروں گا کہ میں کسی برے سلوک کا مستحق ہوں اور اپنے لیے کوئی سزا تجویز کروں گا آخر کیوں کروں اسی لیے کہ میں سزائے موت سے جو 'ملے ٹس' نے تجویز کی ہے ڈرتاہوں جب مجھے یہ نہیں معلوم کہ موت اچھی چیز ہے یا بری تو میں ایسی سزا کیوں تجویز کروں جو یقیناً بری ہو۔کیا قید پسند کروں مجھے کیا پڑی ہے کہ میں جیل میں رہوں، مجسٹریٹ کی اور گیارہ حاکموں کی غلامی پسند کروں یا جرمانہ اور قید تا ادائیگی جرمانہ کی سزا ہونی چاہیے اسی پر بھی وہی اعتراض ہے کہ مجھے جیل میں سڑنا پڑے گا۔
اس لیے کہ روپیہ تو میرے پاس ہی نہیں کہ جرمانہ ادا کروں اور اگر جلاوطنی تجویز کروں ممکن ہے تم یہ ہی سزا مقرر کرو تو اس کے یہ معنیٰ ہوں گے کہ مجھے زندگی کی محبت نے اندھا کر دیا ہے اور میں اس قدر بے عقل نہیں ہوں کہ جب تم لوگ جو میرے ہم وطن ہومیری گفتگو برداشت نہیں کرسکتے اور سخت مضر اور قابل نفرت سمجھ کر مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہو۔ تومیں یہ کیسے توقع کروں کہ دوسرے میری باتوں کو برداشت کرلیں گے۔ میرا خطاب تم سب سے نہیں ہے بلکہ صرف ان لوگوں سے ہے جنہوں نے میرے لیے سزا ئے موت تجویزکی ہے اور مجھے ان سے ایک بات اور کہنی ہے تم سمجھتے ہو مجھے اس لیے سزا ہوئی ہے کہ مجھے ایسے الفاظ کہنے نہیں آتے جن کی بدولت میں رہا ہو جاتا حقیقت میں ایسا نہیں ہے کہ وہ کمی جو میری سزا کا باعث ہوئی الفاظ کی کمی نہ تھی۔
البتہ نہ مجھ میں اتنی جرأت اور بے با کی تھی اور نہ میری یہ خواہش تھی کہ تم سے اس طرح خطاب کروں جس طرح تم پسند کرتے ہو یعنی تمہارے آگے روئوں اور گڑ گڑائوں اور وہ باتیں کہوں جو تم دوسرے سے سننے کے عادی ہو اور جو میرے خیال میں میری شان کے خلاف ہے۔ تمہارے انداز میں تقریر کر کے زندہ رہنے سے تو میں یہ اچھا سمجھتا ہوں کہ اپنے انداز میں تقریر کروں اور مار ڈالا جائوں۔ میں بوڑھا اور سست قدم ہوں اور مجھے آہستہ چلنے والی چیزیعنی موت نے پکڑلیا ہے اور میرے مدعی تیز ہیں اور انھیں تیز رو چیز یعنی بدی نے پکڑ لیا ہے۔
میرے دوستو اب اگر تم یہ سمجھو کہ مرنے کے بعد کسی قسم کا شعور باقی نہیں رہتا بلکہ ایک گہری نیند ہوتی ہے جس میں خواب تک خلل انداز نہیں ہوتا تو پھر موت کا کیا کہنا۔ اگر موت ایسی چیز ہے تو میں کہتا ہوں کہ مرنے میں سراسر فائدہ ہے اس لیے کہ پھر تو ازل سے ابد تک صرف ایک ہی رات ہے لیکن اگر موت کسی دوسری جگہ کاسفر ہے جہاں لوگوں کے قول کے مطابق سب گزری ہوئی روحیں رہتی ہیں۔ تو اے میرے دوستو اور منصفو اس سے اچھی اور کیا چیز ہوسکتی ہے اگر واقعی مسافر عالم اسفل میں پہنچ کر اس دنیا کے مدعیان انصاف کے پنجے سے چھوٹ جاتا ہے اور سچے منصفو ں کو پالیتا ہے جو وہاں داد رسی کرتے ہیں تو ایسا سفر واقعی کرنے کے لائق ہے کون شخص دل سے نہ چاہتا ہوکہ اسے آر فیس ، بیوزئیس ، ہیسیڈ اور ہومر سے باتیں کرنے کا موقع ملے۔
اگر یہ سچ ہے تو میں ایک بار نہیں ہزار بار مرنے کو تیار ہوں مجھے تو پیلمیٹر یس اورٹیلا من کے بیٹے اجے کس اوردوسرے سورمائوں سے جو غیر منصفانہ فیصلوں کی بنا پر مارے گئے ملنے اور باتیں کرنے سے انتہائی دلچسپی ہوگی اور اپنی تکلیف کا ان کی تکلیف سے مقابلہ کرنے میں بہت لطف آئے گا ۔ اے منصفو کسی شخص کے لیے اس سے بڑھ کر کیا بات ہوسکتی ہے کہ و ہ ٹرائے کی عظیم الشان مہم کے رہنما اودیسیں ، سیفس اور بے شمار دوسرے مردوں اور عورتوں کا امتحان لے کیا ٹھکانہ ہے اس خو شی کا جوان سے گفتگو کر نے اور سوالات پوچھنے سے حاصل ہوگی دوسری دنیا میں لوگ کسی شخص کو سوالات پوچھنے کے جرم میں قتل نہیں کرتے ہونگے ہرگز نہیں کرتے ہونگے۔
سقراط کی ساری زندگی اور ساری حکمت کا نچوڑ ہے اپنے آپ کو پہچانو اور نیکی علم کا نام ہے۔ تاریخ میں وہ قومیں آگے بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں جن کے ہاں نئے افکار او ر نظریات پیدا ہوتے رہتے ہیں تاکہ وہ بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرسکیں روایت پسندی اور قدامت پرستی افکار و خیالات کو فر سو دہ کردیتی ہیں ایسے معاشرے تاریخ کو باربار دہراتے ہیں۔ پاکستانی سماج کے سلسلہ میں ہمیں یہ ہی نظر آتا ہے کہ اس میں جدید حالات و تقاضوں کا چیلنج قبول کرنے کے لیے فکر ی تحریک نہیں اٹھ رہی ہے اور انتہا پسندی ، رجعت پسندی نے سوچ کی تمام راہوں کو بند کر دیا ہے آخر نصف صدی گذر جانے کے بعد بھی ہم ابھی تک ان ہی مسائل کا شکار کیوں ہیں اب ہمیں اپنی قومی شناخت کی اس بنیاد کو ڈھو نڈنکلالنا ہوگا جو جہل پسندی کے برف تلے کہیں دفن ہے۔
پاکستانی سماج میں سوال کرنا ہمیشہ ہی سے قابل مذمت رہا ہے سوالات پر قدغن لگا کر منافقوں ، انتہا پسندوں اوربہروپیوں نے ہماری آزادی سلب کر لی ہے اور اسے چیلنج کر نے والوں کے لیے موت کی سزائیں دی جاتی رہیں زبردستی لاگو کیے گئے اس کلچر میں سوال کر نے والے حساس ذہن کو قدم قدم پر خطرات کا سامنا ہے لیکن چند انتہا پسند سو چ رکھنے والوں کا یہ جبر سوالات کو ختم نہیں کر سکتا۔ آج صدیوں بعد وہ ہی سب کچھ ہمارے ملک میں بھی ہورہا ہے خدا کے نام پر قتل کیے جارہے ہیں مذہب کے نام پر وحشیانہ سزائیں دی جارہی ہیں۔ اپنے عقائد اور نظریا ت جبر اً لوگوں پر مسلط کیے جارہے ہیں۔
پاکستان میں ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کے بدنوں سے زیادہ ان کے اذہان بیمار ہیں۔ ہمارے سارے عذابوں کی جڑ یہ ہی بیمار اذہان ہیں ان کے اذہان اس لیے بیمار ہیں کہ انھیں زہریلے اور منفی خیالات سے آلودہ کر دیاجاتا ہے اور وہ ذہنی طور پر بیمار ہوجاتے ہیں اگر ان بیمار ذہنوں کا علاج نہ کیاگیا اور انتہاپسندی اور جنونیت کا بڑھتا ہوا یہ جنون اس قدر وسیع ہوگیاکہ اس پر طاقت سے قابو پانا بھی مشکل ہوگیا تو شاید یہ ایک ایسی تباہی ہوگی جس کی لپیٹ میں پوری دنیا آسکتی ہے۔
ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا ہے پاکستان کو واقعی روشن خیال ، حقیقی جمہوری اور قانون کی بالادستی رکھنے والا ملک بنا کر اور ملک سے کرپشن کا مکمل خاتمہ کرکے میرٹ پر عمل درآمد کر کے اس صورت حال سے محفوظ رہا جا سکتا ہے اس کے لیے عوام کو متحر ک کر نا بہت ضروری ہے ۔اور ساتھ ساتھ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی انتہائی ضروری ہے ۔