کچھ بھی ہوسکتا ہے
نہ میں ملٹن ہوں نہ کیٹس، نہ شیکسپیئر، نہ ورڈزورتھ…مگر دنیا تو میرے اردگرد وہی ہے۔
ISLAMABAD:
نہ میں ملٹن ہوں نہ کیٹس، نہ شیکسپیئر، نہ ورڈزورتھ...مگر دنیا تو میرے اردگرد وہی ہے۔ خوشی اور دکھ تو وہی ہیں، قدرت نے تو ساری دنیا کو فیاضی کے ساتھ آباد کیا مگر لوگ دنیا کو کیا سے کیا بنا رہے ہیں، محبت، پیار، انصاف، رواداری کی جگہ، درندگی وحشیانہ پن اور اکثریت کا وہی ردعمل بیچارگی۔ کراچی ایک جلتا ہوا شہر، ہر وقت گرم، کون جلاتا ہے یہ آگ کراچی میں؟ کوئی نہیں جانتا یا شاید کوئی جاننا نہیں چاہتا۔
سنتے آئے تھے اور سنتے ہیں، کراچی سب کا ہے تو سب مل کر ہی تو اسے اس حالت تک لائے ہیں، اب کوئی ایک تو اسٹیک ہولڈرز نہیں رہا مگر لاہور تو لاہور تھا، لاہور کو کیا ہوا، مقتل کیسے بن گیا، زندہ دلان کے دل دھڑکنا کیسے بھول گئے؟ کس نے بدل ڈالا لاہور کا نقشہ؟ مجھے یاد پڑتا ہے تھوڑے عرصے پہلے ایک معتبر کالم نگار نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ لاہور میں یہ کارروائی غیر ملکی آلہ کار لوگوں کی کارروائی ہے۔ کمال ہے بصیرت کا۔ اپنے شہر کے لوگوں کو نہیں پہچانتے یہ غیر ملکی آلہ کار وہی ہیں جو دن رات حکمرانوں اور ان کی اولاد کی حفاظت پر مامور ہیں۔ جن کے جلو میں وہ تقریبات میں تشریف لے جاتے ہیں، جو لوگوں کے راستے بند کردیتے ہیں تاکہ وہ گزر سکیں۔ وقت بہت ظالم ہے، سب فراموش کرا دیتا ہے اور پھر تیار کرتا ہے ایک اور ''وقت'' کے لیے۔
سوچ رہا ہوں ہم کالم نگار کس کے لیے لکھتے ہیں یا کام کرتے ہیں۔ اپنے ضمیر کے لیے، اخبار کے لیے، یا بادشاہوں کے لیے۔ بادشاہ کی تشریح ضروری نہیں ہے اسے ایک فون پر امریکا کا صدر ناشتے پر طلب کرسکتا ہے اور ملک میں اس کے کارندے عوام کا وہ حشر کرتے ہیں جو منہاج القرآن کے بیگناہوں کا ہوا، جو کراچی کولڈ اسٹوریج کا ہوا، جو کراچی کی ایک فیکٹری میں زندہ جل جانیوالوں کا ہوا، جو لاہور میں آگ بجھانے سے کیمیکل کے کارخانے میں ہوا۔ عباسی دور خلافت یاد آجاتا ہے لاہور کے واقعے کو دیکھ کر۔ اس جمہوریت کے پردے میں وہی نظام ہے کہ جہاں حق بات کہنے والے کے ساتھ ساتھ حمایت کرنے والے کو بھی پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن' کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
میں نے اس زمانے میں جب ''تعلیم'' ملتی تھی یونیورسٹیوں سے صرف ڈگری نہیں، سماجیات اور صحافت میں ایم اے کیے تھے، دونوں مضامین کا تعلق لوگوں سے ان کے رویوں سے ہے۔ آج پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر لکھنا خاصا دشوار ہے۔ کالم نگاری خاردار پگڈنڈی کا سفر ہے۔ کالم نگار میں دو چیزیں نہیں ہونی چاہئیں۔ تعصب اور مفاد پرستی۔ ورنہ اسے وہ مورخ سمجھا جانا چاہیے جو درباروں میں بیٹھ کر تاریخ مسخ کیا کرتے تھے اور بادشاہ کے رحم و کرم اور فیاضی کے جھوٹے قصے رقم کیا کرتے تھے۔ بادشاہ اور رحم و کرم کا آپس میں کیا تعلق ؟ دو چار ہی تاریخ میں ایسے گزرے ہونگے۔ ورنہ تو اکبر کی طرح ایمان کی قربانی دینی پڑتی ہے۔
رحم و کرم اور انصاف کے لیے! انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی پٹی کا مطلب شاید اب سمجھ میں آنے لگا ہے۔ قانون اندھا ہوتا ہے کیوں کہتے ہیں؟ اور پھر ساتھ تشریح بھی کیوں ہوتی ہے؟ اب تشریح تو فضول لگنے لگی ہے۔ ہمیں سیاست کا نہیں اس سے حاصل ہونیوالے دکھوں کا دکھ ہے جو قوم کے جسم پر پھوڑے بن گئے ہیں۔ سیاست تو اب ''بازیگری'' اور اعلیٰ قسم کی ''دھوکہ بازی'' کا نام ہے ان دنوں...جمہوریت لوگوں کے لیے... لوگوں کے ذریعے...کی تعریف بدل چکی ہے پاکستان میں۔
یہاں جمہوریت ایک نظام ہے جس کے ذریعے ظالم مظلوموں پر ظلم کرنے کا اختیار مظلوموں کے ووٹ سے حاصل کرتا ہے۔ اور پھر حلف اٹھاکر یہ ظلم کرتا ہے۔ منقسم مزاج لوگوں کے لیے جیسے کہ ایک وزیر مملکت کے لیے جمہوریت ووٹرز کو گالیاں دینے کا قانونی لائسنس ہے جو ووٹرز نے انھیں دلوایا ہے اور صرف وہی اکیلے نہیں ہیں کچھ اور بھی ہیں وہ ذرا دبے دبے لہجے میں گالیاں شائستگی کے ساتھ دیتے ہیں کہ لگ جائے تو گالی ورنہ بات ہے۔ایک اور وزیر محاورات کے بھی وزیر ہیں اوراپنے محکمے کی فیکٹری کے تیار کردہ محاورے استعمال کرتے ہیں۔ تم ہم تو محض تماشائی ہیں ان وزرا کے بلبلوں کے۔
کیا کہیں قلم کند ہو گیا ہے، جب بھی نظروں کے سامنے لاہور کے مناظر اور حکمراں جماعت کے وزیروں کی قومی اسمبلی میں مسکراہٹیں اور شرمندہ نہ ہونے والی نگاہیں نظر آتی ہیں تو انسانیت کی تذلیل کا احساس شدید ہوجاتا ہے۔ کیا کہیں ہم تو یہاں کراچی پر بھی پورے آنسو کبھی نہ بہا پائے کہ ایک کے بعد ایک حادثہ اور سانحہ اس شہر کو گھیرے رہتا ہے۔ کس کس پر افسوس کریں۔ خیر چلو شاید پورے ملک میں اب سوچ لیا ہے کہ ایک سی فضا کر دیں۔
خوشی نہیں دے سکتے تو غم تو یکساں دے سکتے ہیں۔ جو لوگ دوسرے کراچی کا نظارہ کر کے زیر لب بڑبڑایا کرتے تھے ان کو اب سمجھ میں آگیا ہوگا کہ یہ سب کچھ کیا اور کیوں ہوتا ہے اور اب تو یہ بھی سمجھ گئے ہونگے کہ کیسے ہوتا ہے۔ پنجاب میں پولیس مقابلہ سنا کرتے تھے دیکھا اب ہے۔ ایسا ہوتا ہے پولیس مقابلہ... اور ایسے ہوتے ہیں مرنیوالے ''بدمعاش'' سب نہیں تو اکثر۔ کراچی میں اور دوسری جگہوں پر تو...کچھ اور عناصر واقعی ہیں جو بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ ہیں یا اپنی فطرت سے مجبور ہیں یا مجبوریاں ہیں، یا طالبانیت ہے، پر لاہور؟ وہ تو پیرس بننے جا رہا تھا، حکمراں صوبے کے اس ملکہ کی طرح ہیں جو روٹی نہ ملنے پر کہتی ہے غریبوں سے کہ ''کیک کھاؤ'' گھر کا خرچ پورا نہیں ہو رہا میٹروبس میں سفر کرو اور نہ جانے کیا کیا۔
دنیا بھر میں یہ چیزیں ان معاشروں کے لیے ہیں جو آئیڈیل ہیں اور آئیڈیل معاشرہ بنتا ہے آسودگی سے۔ جب عوام آسودہ ہونگے تو سب کچھ اچھا لگے گا۔ ابھی تو بڑے لوگوں کے ''چھوٹے'' ہی ان سہولتوں کا فائدہ حاصل کرسکیں گے۔ایک بیمار اور کمزور معاشرے کا علاج پیسے کی تقسیم نہیں ہے۔روزگار کی فراہمی، زندگی کی ضرورتوں کی فراہمی ہے جو اس کے تصرف میں ہوں جو وہ حاصل کرسکتا ہو۔ اس کے بعد وہ ان چیزوں سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ ہے ہمارے معاشرے میں یہ سب کچھ؟ ہیں ہمارے ملک کے باشندے آسودہ؟ پینے کو صاف پانی نہیں ہے، چلنے کو راستے نہیں ہیں، دیانتداری سے معاشرہ محروم ہے، طاقت ہی اصول ہے،طاقت کا فلسفہ ہے اور وہ جو جھکے سروں والے تھے اب ان کے سر پیٹ سے جالگے ہیں، کیا کریں؟
ملک بنا تھا تو سوچا تھا سر اٹھاکر چلیں گے، ہمارا ملک ہے، یہ کیا پتا تھا کہ آزاد ہوکر پھر کچھ نادیدہ ''دیدہ'' ہاتھوں کے قیدی بن جائینگے۔ کس کو خواب دکھائیں، اب تو خواب بھی نہیں ہیں دھوکہ دینے کو ہی ہمارے پاس۔ اور قانون یہ بن گیا ہے کچل دو، کاٹ دو! جو سر بلند ہو کاٹ دو، جو ہاتھ اٹھے کچل دو۔ اشارہ بھی نہ کرنے دو۔ ایک آمر کی دی ہوئی میڈیا کو آزادی نہ ہوتی تو آج آپ کو یہ بھی نہ معلوم ہوتا کہ کس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اور کیا پتا یہ آزادی رہے گی یا نہیں۔ کل مزاج شاہی کے خلاف کچھ ہوگیا تو کیا پتا کہ حاکم وقت آپ کو کیا حکم دے دے۔ آپ کی زبان، آپ کا قلم پابند سلاسل ہوجائے، ضابطے آجائیں، اخلاقیات Ethics ، قومی مفاد کے نام پر...کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
نہ میں ملٹن ہوں نہ کیٹس، نہ شیکسپیئر، نہ ورڈزورتھ...مگر دنیا تو میرے اردگرد وہی ہے۔ خوشی اور دکھ تو وہی ہیں، قدرت نے تو ساری دنیا کو فیاضی کے ساتھ آباد کیا مگر لوگ دنیا کو کیا سے کیا بنا رہے ہیں، محبت، پیار، انصاف، رواداری کی جگہ، درندگی وحشیانہ پن اور اکثریت کا وہی ردعمل بیچارگی۔ کراچی ایک جلتا ہوا شہر، ہر وقت گرم، کون جلاتا ہے یہ آگ کراچی میں؟ کوئی نہیں جانتا یا شاید کوئی جاننا نہیں چاہتا۔
سنتے آئے تھے اور سنتے ہیں، کراچی سب کا ہے تو سب مل کر ہی تو اسے اس حالت تک لائے ہیں، اب کوئی ایک تو اسٹیک ہولڈرز نہیں رہا مگر لاہور تو لاہور تھا، لاہور کو کیا ہوا، مقتل کیسے بن گیا، زندہ دلان کے دل دھڑکنا کیسے بھول گئے؟ کس نے بدل ڈالا لاہور کا نقشہ؟ مجھے یاد پڑتا ہے تھوڑے عرصے پہلے ایک معتبر کالم نگار نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ لاہور میں یہ کارروائی غیر ملکی آلہ کار لوگوں کی کارروائی ہے۔ کمال ہے بصیرت کا۔ اپنے شہر کے لوگوں کو نہیں پہچانتے یہ غیر ملکی آلہ کار وہی ہیں جو دن رات حکمرانوں اور ان کی اولاد کی حفاظت پر مامور ہیں۔ جن کے جلو میں وہ تقریبات میں تشریف لے جاتے ہیں، جو لوگوں کے راستے بند کردیتے ہیں تاکہ وہ گزر سکیں۔ وقت بہت ظالم ہے، سب فراموش کرا دیتا ہے اور پھر تیار کرتا ہے ایک اور ''وقت'' کے لیے۔
سوچ رہا ہوں ہم کالم نگار کس کے لیے لکھتے ہیں یا کام کرتے ہیں۔ اپنے ضمیر کے لیے، اخبار کے لیے، یا بادشاہوں کے لیے۔ بادشاہ کی تشریح ضروری نہیں ہے اسے ایک فون پر امریکا کا صدر ناشتے پر طلب کرسکتا ہے اور ملک میں اس کے کارندے عوام کا وہ حشر کرتے ہیں جو منہاج القرآن کے بیگناہوں کا ہوا، جو کراچی کولڈ اسٹوریج کا ہوا، جو کراچی کی ایک فیکٹری میں زندہ جل جانیوالوں کا ہوا، جو لاہور میں آگ بجھانے سے کیمیکل کے کارخانے میں ہوا۔ عباسی دور خلافت یاد آجاتا ہے لاہور کے واقعے کو دیکھ کر۔ اس جمہوریت کے پردے میں وہی نظام ہے کہ جہاں حق بات کہنے والے کے ساتھ ساتھ حمایت کرنے والے کو بھی پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن' کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
میں نے اس زمانے میں جب ''تعلیم'' ملتی تھی یونیورسٹیوں سے صرف ڈگری نہیں، سماجیات اور صحافت میں ایم اے کیے تھے، دونوں مضامین کا تعلق لوگوں سے ان کے رویوں سے ہے۔ آج پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر لکھنا خاصا دشوار ہے۔ کالم نگاری خاردار پگڈنڈی کا سفر ہے۔ کالم نگار میں دو چیزیں نہیں ہونی چاہئیں۔ تعصب اور مفاد پرستی۔ ورنہ اسے وہ مورخ سمجھا جانا چاہیے جو درباروں میں بیٹھ کر تاریخ مسخ کیا کرتے تھے اور بادشاہ کے رحم و کرم اور فیاضی کے جھوٹے قصے رقم کیا کرتے تھے۔ بادشاہ اور رحم و کرم کا آپس میں کیا تعلق ؟ دو چار ہی تاریخ میں ایسے گزرے ہونگے۔ ورنہ تو اکبر کی طرح ایمان کی قربانی دینی پڑتی ہے۔
رحم و کرم اور انصاف کے لیے! انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی پٹی کا مطلب شاید اب سمجھ میں آنے لگا ہے۔ قانون اندھا ہوتا ہے کیوں کہتے ہیں؟ اور پھر ساتھ تشریح بھی کیوں ہوتی ہے؟ اب تشریح تو فضول لگنے لگی ہے۔ ہمیں سیاست کا نہیں اس سے حاصل ہونیوالے دکھوں کا دکھ ہے جو قوم کے جسم پر پھوڑے بن گئے ہیں۔ سیاست تو اب ''بازیگری'' اور اعلیٰ قسم کی ''دھوکہ بازی'' کا نام ہے ان دنوں...جمہوریت لوگوں کے لیے... لوگوں کے ذریعے...کی تعریف بدل چکی ہے پاکستان میں۔
یہاں جمہوریت ایک نظام ہے جس کے ذریعے ظالم مظلوموں پر ظلم کرنے کا اختیار مظلوموں کے ووٹ سے حاصل کرتا ہے۔ اور پھر حلف اٹھاکر یہ ظلم کرتا ہے۔ منقسم مزاج لوگوں کے لیے جیسے کہ ایک وزیر مملکت کے لیے جمہوریت ووٹرز کو گالیاں دینے کا قانونی لائسنس ہے جو ووٹرز نے انھیں دلوایا ہے اور صرف وہی اکیلے نہیں ہیں کچھ اور بھی ہیں وہ ذرا دبے دبے لہجے میں گالیاں شائستگی کے ساتھ دیتے ہیں کہ لگ جائے تو گالی ورنہ بات ہے۔ایک اور وزیر محاورات کے بھی وزیر ہیں اوراپنے محکمے کی فیکٹری کے تیار کردہ محاورے استعمال کرتے ہیں۔ تم ہم تو محض تماشائی ہیں ان وزرا کے بلبلوں کے۔
کیا کہیں قلم کند ہو گیا ہے، جب بھی نظروں کے سامنے لاہور کے مناظر اور حکمراں جماعت کے وزیروں کی قومی اسمبلی میں مسکراہٹیں اور شرمندہ نہ ہونے والی نگاہیں نظر آتی ہیں تو انسانیت کی تذلیل کا احساس شدید ہوجاتا ہے۔ کیا کہیں ہم تو یہاں کراچی پر بھی پورے آنسو کبھی نہ بہا پائے کہ ایک کے بعد ایک حادثہ اور سانحہ اس شہر کو گھیرے رہتا ہے۔ کس کس پر افسوس کریں۔ خیر چلو شاید پورے ملک میں اب سوچ لیا ہے کہ ایک سی فضا کر دیں۔
خوشی نہیں دے سکتے تو غم تو یکساں دے سکتے ہیں۔ جو لوگ دوسرے کراچی کا نظارہ کر کے زیر لب بڑبڑایا کرتے تھے ان کو اب سمجھ میں آگیا ہوگا کہ یہ سب کچھ کیا اور کیوں ہوتا ہے اور اب تو یہ بھی سمجھ گئے ہونگے کہ کیسے ہوتا ہے۔ پنجاب میں پولیس مقابلہ سنا کرتے تھے دیکھا اب ہے۔ ایسا ہوتا ہے پولیس مقابلہ... اور ایسے ہوتے ہیں مرنیوالے ''بدمعاش'' سب نہیں تو اکثر۔ کراچی میں اور دوسری جگہوں پر تو...کچھ اور عناصر واقعی ہیں جو بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ ہیں یا اپنی فطرت سے مجبور ہیں یا مجبوریاں ہیں، یا طالبانیت ہے، پر لاہور؟ وہ تو پیرس بننے جا رہا تھا، حکمراں صوبے کے اس ملکہ کی طرح ہیں جو روٹی نہ ملنے پر کہتی ہے غریبوں سے کہ ''کیک کھاؤ'' گھر کا خرچ پورا نہیں ہو رہا میٹروبس میں سفر کرو اور نہ جانے کیا کیا۔
دنیا بھر میں یہ چیزیں ان معاشروں کے لیے ہیں جو آئیڈیل ہیں اور آئیڈیل معاشرہ بنتا ہے آسودگی سے۔ جب عوام آسودہ ہونگے تو سب کچھ اچھا لگے گا۔ ابھی تو بڑے لوگوں کے ''چھوٹے'' ہی ان سہولتوں کا فائدہ حاصل کرسکیں گے۔ایک بیمار اور کمزور معاشرے کا علاج پیسے کی تقسیم نہیں ہے۔روزگار کی فراہمی، زندگی کی ضرورتوں کی فراہمی ہے جو اس کے تصرف میں ہوں جو وہ حاصل کرسکتا ہو۔ اس کے بعد وہ ان چیزوں سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ ہے ہمارے معاشرے میں یہ سب کچھ؟ ہیں ہمارے ملک کے باشندے آسودہ؟ پینے کو صاف پانی نہیں ہے، چلنے کو راستے نہیں ہیں، دیانتداری سے معاشرہ محروم ہے، طاقت ہی اصول ہے،طاقت کا فلسفہ ہے اور وہ جو جھکے سروں والے تھے اب ان کے سر پیٹ سے جالگے ہیں، کیا کریں؟
ملک بنا تھا تو سوچا تھا سر اٹھاکر چلیں گے، ہمارا ملک ہے، یہ کیا پتا تھا کہ آزاد ہوکر پھر کچھ نادیدہ ''دیدہ'' ہاتھوں کے قیدی بن جائینگے۔ کس کو خواب دکھائیں، اب تو خواب بھی نہیں ہیں دھوکہ دینے کو ہی ہمارے پاس۔ اور قانون یہ بن گیا ہے کچل دو، کاٹ دو! جو سر بلند ہو کاٹ دو، جو ہاتھ اٹھے کچل دو۔ اشارہ بھی نہ کرنے دو۔ ایک آمر کی دی ہوئی میڈیا کو آزادی نہ ہوتی تو آج آپ کو یہ بھی نہ معلوم ہوتا کہ کس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اور کیا پتا یہ آزادی رہے گی یا نہیں۔ کل مزاج شاہی کے خلاف کچھ ہوگیا تو کیا پتا کہ حاکم وقت آپ کو کیا حکم دے دے۔ آپ کی زبان، آپ کا قلم پابند سلاسل ہوجائے، ضابطے آجائیں، اخلاقیات Ethics ، قومی مفاد کے نام پر...کچھ بھی ہوسکتا ہے۔