سپریم کورٹ؛ 12 سال بعد قتل کا نامزد ملزم رہا

ویب ڈیسک  بدھ 3 جولائی 2024
شریکِ مجرمہ کی عمر قید کی سزا بھی کالعدم قرار (فوٹو: فائل)

شریکِ مجرمہ کی عمر قید کی سزا بھی کالعدم قرار (فوٹو: فائل)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 12 سال بعد قتل کے نامزد ملزم کو رہا کر دیا۔

جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر اور جسٹس نعیم افغان نے ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم محمد اعجاز عرف بِلے کی سزائے موت اور شریکِ مجرمہ کی عمر قید کی سزا کالعدم قرار دیدی۔

عدالتی حکمنامے میں لکھا ہے کہ مدعی مقدمہ کے مطابق دونوں ملزمان مقتول کو الیکٹرک شاک دیتے پائے گئے تھے، ملزم کو رنگے ہاتھوں پکڑا تو اس نے فائرنگ شروع کر دی۔ مدعی مقدمہ کے مطابق محمد اعجاز کی فائرنگ سے شریک مجرمہ کا شوہر جاں بحق ہوگیا اور وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ خودکشی کے کیس کو قتل قرار دیا گیا۔

وکیل صفائی کے مطابق دونوں مجرمان میں کوئی ناجائز تعلقات ثابت نہیں ہوتا، وکیل صفائی کے مطابق مقتول کو مدعی نے خاندانی وراثت سے حصہ نہیں دیا جس پر مقتول نے خودکشی کرلی۔ پرایسکیوٹر کے مطابق مدعی مقدمہ وقوعہ کا عینی شاہد ہے اور دونوں مجرمان مقتول کو اپنی زندگی سے ختم کرنا چاہتے تھے۔

حکمنامے میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ نے ثبوتوں کا بغور جائزہ لیا جس سے معلوم ہوا کہ بیانات اور ثبوتوں میں تضادات ہیں، مدعی مقدمہ کے مطابق مقتول نے اسے ملزمان کے ناجائز تعلقات کا بتایا، مدعی مقدمہ خود سے ملزمان کے ناجائز تعلقات کا عینی شاہد نہیں اور بیانات میں تضاد ہے، مقتول نے اپنی اہلیہ اور محمد اعجاز عرف بِلا کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کروایا تھا۔

سپریم کورٹ نے حکمنامے میں لکھا کہ حیرت ہوئی کہ ماتحت عدلیہ نے بغیر کسی ثبوت کے ناجائز تعلقات قرار دے دیا، وقوعہ دن کی روشنی میں ہوا لیکن کسی نے مدعی مقدمہ کی کہانی کی حمایت نہیں کی، ریکارڈ کے مطابق ملزمہ اپنے شوہر کو خاندانی وراثت میں سے حصہ لینے کا پریشر ڈالتی تھیں، بچوں سے ماں کو بھی لیگل سسٹم کے ذریعے جدا کر دیا گیا جس سے بچوں پر ذہنی اثر پڑ رہا ہے۔

واضح رہے کہ ملزم محمد اعجاز پر 2010 میں شریک ملزمہ کے شوہر کو قتل کرنے کا الزام تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔