پاکستان تاجکستان تعلقات کا فروغ
دونوں ممالک محض 16 کلومیٹر (10 میل) کی دوری پر واقع ہیں
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے پاکستان اور تاجکستان کے درمیان دوطرفہ دوستانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک زراعت، صحت، تعلیم، تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے مل کر کام کریں گے، خطے میں امن و خوشحالی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تاجکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
بلاشبہ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخطوں سے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی جہت ملے گی، کیونکہ دونوں دوست ممالک کے لیڈروں کی عالمی معیشت کو درپیش چیلنجوں اور اقتصادی و معاشی صورتحال پر گہری نظر ہے۔
جغرافیائی قربت کے اعتبار سے پاکستان اور تاجکستان کے مابین معیشت، صنعت، توانائی، دفاع اور دیگر شعبہ جات میں تعاون کے لیے بہت مواقعے موجود ہیں۔ سفارتی کاوشوں سے دونوں طرف خاطر خواہ گرم جوشی پیدا ہوئی ہے اور عوامی سطح پر روابط بھی فروغ پا رہے ہیں۔ خطے کے بدلتے حالات کے تناظر میں لازم ہے کہ ثقافتی و تہذیبی اور دیگر سفارتی رشتوں میں جڑے ممالک سے پاکستان اِس طرح کی گرم جوشی میں اضافہ کرے۔ تاجکستان کے پاس قدرتی وسائل اور پاکستان کے پاس گرم پانیوں تک پہنچنے کا راستہ ،ان عناصر نے مل کر اِن دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے لیے ایک گاڑی کے دو پہیوں کی مانند بنا دیا ہے۔
پاکستان، تاجکستان کو اپنی اسٹرٹیجک ڈپتھ پالیسی کے تناظر میں دیکھتا ہے، دراصل وسطیٰ ایشیائی ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں تو پاکستان توانائی کے شعبے میں بحران کا سامنا کر رہا ہے، اس تناظر میں وسطیٰ ایشیائی ممالک خصوصاً تاجکستان کے ساتھ اچھے تعلقات اس بحران سے احسن انداز میں نمٹنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ پاکستان بطور ایٹمی طاقت کے بھرپور معاشی اور دفاعی صلاحیتیں رکھتا ہے، خطے میں عالمی طاقتوں کے بڑھتے اثر و رسوخ اور مذموم بھارتی عزائم پاکستان کی اہمیت کو کم کرنے کی ایک ناکام سازش کا حصہ ہیں چین امریکا تعلقات کا معاملہ ہو، افغان وار ہو، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو، چاہے چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ہو، یا چین، روس اور خشکی میں گھرے وسطیٰ ایشیائی ممالک کی بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک پہنچنے کی کوشش ہو، خطے کی ہر بڑی پالیسی پاکستان کے گرد گھومتی ہے۔
دوسری طرف چین، پاکستان اور تاجکستان کے مابین سڑکوں اور ریل ٹریک کا ایسا جال ترتیب دیا جا رہا ہے جو خطے کے تمام ممالک کو ملا کر اُن کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ تاجکستان نے اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کی تھی کہ سال 2025کو گلیشئیر کے سال کے طور پر منایا جائے جس پر پاکستان نے بھر پور حمایت کی اور اب آیندہ سال 2025ء کو گلیشئیر کے سال کے طور پر منایا جائے گا۔ ایک طرف تو پاکستان، بھارت کی آبی دہشت گردی کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے تو دوسری طرف اندرونی چیلنجز کے باعث پاکستان حقیقتاً پن بجلی کی وافر صلاحیت ہونے کے باوجود توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ تاجکستان وسیع پہاڑی سلسلوں کی قدرتی نعمت سے مالا مال ہے اور اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پن بجلی پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے، ایسے میں توانائی کے شعبے میں تعاون اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
تاجکستان میں شرح خواندگی تقریباً سو فیصد ہے جو شعبہ تعلیم میں تعاون کے مواقعے کی نشاندہی کرتا ہے، پاکستان میں اِس وقت تقریباً ایک ملین تاجک باشندے آباد ہیں جو افغانستان اور سوویت یونین کی جنگ کے دوران پاکستان میں ہجرت کر کے آباد ہوئے تھے، یہ لوگ پاکستان کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں جِن کے توسط سے پاکستان کے عام شہری تاجکستان میں تعلیم کے حصول کے لیے اچھے اور کم خرچ اداروں کے بارے میں معلومات اکٹھا کر کے اِن سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان کی زرعی پیداوار دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں پاکستان میں پیدا ہونے والی کاٹن، آم، سنگترے، چاول اور دوسری زرعی اجناس پوری دنیا کے ساتھ ساتھ تاجکستان میں سپلائی کی جاتی ہیں، دونوں ممالک کے درمیان زرعی اجناس و ادویات کے ساتھ ساتھ زرعی مشینری کی صنعت میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دونوں ممالک محض 16 کلومیٹر (10 میل) کی دوری پر واقع ہیں۔ واخان راہداری شمال مشرقی افغانستان میں ایک تنگ خطہ ہے، جو چین تک پھیلا ہوا ہے یہ خطہ تاجکستان کو پاکستان سے الگ کرتا ہے۔ دونوں ریاستوں کے مابین تعلقات اس وقت قائم ہوئے جب سوویت اتحاد کے خاتمے کے بعد جمہوریہ تاجک آزاد ہوا۔ تجارت اور تعاون دونوں ممالک کے مابین مستقل طور پر فروغ پا رہا ہے۔
پاکستان کی طرح تاجکستان نے بھی عالمی امور، دوطرفہ تعلقات اور پاکستان کو درپیش دیرینہ ایشوز پر ہمیشہ پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے اور پاک تاجک تعلقات میں یہ شیرینی دونوں ملکوں کے تاریخی، سیاسی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کی اساسی بنیاد ہے، پاکستان نے تاجکستان کو وسط ایشیا میں اپنا حلیف، دوست اور معاصرانہ سیاسی و ثقافتی رشتوں میں قریبی تعلقات کو اہمیت دی ہے، تاجکستان نے بھی خطے میں پاکستان کی امن کے قیام میں کوششوں کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔
دونوں ملکوں کے مابین باہمی احترام اور خطے میں امن و ترقی کے تناظر میں مشترکہ مفادات کو بڑی قدر و منزلت حاصل رہی ہے، تاجکستان اپنی آبادی، پاکستانی عوام کے ساتھ تاجکستانی عوام کی والہانہ محبت و الفت، تاریخی و ثقافتی رشتے تاریخ پر محیط ہیں، مزید براں صنعتی شعبے، توانائی کے وسائل، تجارتی، تعلیمی، دفاعی اور عالمی امور میں پاک تاجک وژن بھی قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ایٹمی ملک ہے جِس کے پاس دنیا کی بہترین تربیت یافتہ اور اعلیٰ کارکردگی کی حامل فوج موجود ہے جو جدید ہتھیاروں و ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیز دنیا میں پہلے نمبر پر شمار ہوتی ہیں۔ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیوں نے دنیا کے سامنے پاکستان کی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ تاجکستان کو پاکستانی فوج کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جیسا کہ پاکستان نے روس کے ساتھ مل کر فوجی مشقوں کا اہتمام کیا اِسی طرح تاجکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ بھی مشقیں کی جا سکتی ہیں۔
خطے میں اٹھنے والے نئے خطرات دونوں ممالک سے مزید تعاون کا تقاضا کرتے ہیں، خطے میں بڑھتے بھارتی مذموم مقاصد و مغربی اثر و رسوخ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے علاقائی دوستوں کے ساتھ مل کر ''بیلنس آف پاور''کی خارجہ پالیسی پر گامزن ہو، دونوں ممالک کو مل کر ہر شعبے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور خطے کی امن و ترقی کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور تاجکستان ایک حساس محل وقوع پر واقع اہم ممالک ہیں، جیو پولیٹیکل حساسیت اور خطے میں معدنی وسائل اور ہمسایہ ملکوں میں قریبی تعلقات قدرت کا بڑا عطیہ ہیں، امن و استحکام سے دونوں ممالک دنیا میں جنگ، بدامنی، اور غربت کا راستہ روک سکتے ہیں، سائنس و ٹیکنالوجی میں زبردست پیش قدمی سے ترقی پذیر ملکوں کے لیے پاک تاجک تعلقات مثالی ترقی، مشترکہ مفادات کی تکمیل اور خطے میں خوشحالی کے غیر معمولی سنگ میل قائم کر سکتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے دورہ تاجکستان میں چین، تاجکستان اور افغانستان تجارتی راہداری کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار بھی کردیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان تاجکستان نے سرکاری پاسپورٹ کو ویزا سے مستثنیٰ کرنے کے سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں، توقع ہے کہ کاسا 1000منصوبہ آیندہ سال مکمل ہوجائے گا جس سے خطے میں خوشحالی ہوگی، دنیا کو یوکرین جنگ اور غزہ میں پیدا صورتحال جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ دوسری جانب تاجکستان کے صدر نے کہا کہ پاکستان کی بندرگاہوں کے استعمال کے ذریعے تجارت میں اضافہ کرسکتے ہیں، ریل اور روڈ لنک کے ذریعے علاقائی روابط کو تقویت ملے گی اور تجارت کے حوالے سے دونوں ممالک کو فائدہ پہنچے گا۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھانے کے حوالے سے اقدامات کریں گے۔
درحقیقت تاجکستان کی خارجہ پالیسی میں ترقی، مساوی انسانی حقوق کا فروغ دیگر ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنا عالمی سطح پر قیام امن اور سلامتی کو استحکام دینے کے لیے کوششیں کرنا بھی شامل ہے۔ تاجکستان کی خواہش ہے کہ وسط ایشیائی ممالک اور دیگر ممالک کے ساتھ معاشی تعاون کو فروغ حاصل ہو۔ تاجکستان میں تعمیر و ترقی اور معیشت کی بحالی پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ ٹیکس، نجکاری اور بینکنگ کے نظام میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔ تاجکستان حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کو معدنی ذخائر میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بھی ترغیبات دے رہی ہے تاکہ بیرونی ممالک کے ساتھ معاشی روابط و تعلقات تیزی سے مضبوط ہوں۔
یہ بات اب حقیقت ہے کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر عصرِ حاضر کے چیلنجز اور ان گنت مسائل کا خاتمہ نہیں کر سکتے، مگر اِس کے لیے دونوں ممالک کو اپنے اپنے مقامی ملکی ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہو گا کیونکہ یہ اقدامات مزید امن و ترقی کی پر اعتماد فضا قائم کرسکتے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخطوں سے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی جہت ملے گی، کیونکہ دونوں دوست ممالک کے لیڈروں کی عالمی معیشت کو درپیش چیلنجوں اور اقتصادی و معاشی صورتحال پر گہری نظر ہے۔
جغرافیائی قربت کے اعتبار سے پاکستان اور تاجکستان کے مابین معیشت، صنعت، توانائی، دفاع اور دیگر شعبہ جات میں تعاون کے لیے بہت مواقعے موجود ہیں۔ سفارتی کاوشوں سے دونوں طرف خاطر خواہ گرم جوشی پیدا ہوئی ہے اور عوامی سطح پر روابط بھی فروغ پا رہے ہیں۔ خطے کے بدلتے حالات کے تناظر میں لازم ہے کہ ثقافتی و تہذیبی اور دیگر سفارتی رشتوں میں جڑے ممالک سے پاکستان اِس طرح کی گرم جوشی میں اضافہ کرے۔ تاجکستان کے پاس قدرتی وسائل اور پاکستان کے پاس گرم پانیوں تک پہنچنے کا راستہ ،ان عناصر نے مل کر اِن دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے لیے ایک گاڑی کے دو پہیوں کی مانند بنا دیا ہے۔
پاکستان، تاجکستان کو اپنی اسٹرٹیجک ڈپتھ پالیسی کے تناظر میں دیکھتا ہے، دراصل وسطیٰ ایشیائی ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں تو پاکستان توانائی کے شعبے میں بحران کا سامنا کر رہا ہے، اس تناظر میں وسطیٰ ایشیائی ممالک خصوصاً تاجکستان کے ساتھ اچھے تعلقات اس بحران سے احسن انداز میں نمٹنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ پاکستان بطور ایٹمی طاقت کے بھرپور معاشی اور دفاعی صلاحیتیں رکھتا ہے، خطے میں عالمی طاقتوں کے بڑھتے اثر و رسوخ اور مذموم بھارتی عزائم پاکستان کی اہمیت کو کم کرنے کی ایک ناکام سازش کا حصہ ہیں چین امریکا تعلقات کا معاملہ ہو، افغان وار ہو، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو، چاہے چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ہو، یا چین، روس اور خشکی میں گھرے وسطیٰ ایشیائی ممالک کی بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک پہنچنے کی کوشش ہو، خطے کی ہر بڑی پالیسی پاکستان کے گرد گھومتی ہے۔
دوسری طرف چین، پاکستان اور تاجکستان کے مابین سڑکوں اور ریل ٹریک کا ایسا جال ترتیب دیا جا رہا ہے جو خطے کے تمام ممالک کو ملا کر اُن کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ تاجکستان نے اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کی تھی کہ سال 2025کو گلیشئیر کے سال کے طور پر منایا جائے جس پر پاکستان نے بھر پور حمایت کی اور اب آیندہ سال 2025ء کو گلیشئیر کے سال کے طور پر منایا جائے گا۔ ایک طرف تو پاکستان، بھارت کی آبی دہشت گردی کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے تو دوسری طرف اندرونی چیلنجز کے باعث پاکستان حقیقتاً پن بجلی کی وافر صلاحیت ہونے کے باوجود توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ تاجکستان وسیع پہاڑی سلسلوں کی قدرتی نعمت سے مالا مال ہے اور اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پن بجلی پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے، ایسے میں توانائی کے شعبے میں تعاون اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
تاجکستان میں شرح خواندگی تقریباً سو فیصد ہے جو شعبہ تعلیم میں تعاون کے مواقعے کی نشاندہی کرتا ہے، پاکستان میں اِس وقت تقریباً ایک ملین تاجک باشندے آباد ہیں جو افغانستان اور سوویت یونین کی جنگ کے دوران پاکستان میں ہجرت کر کے آباد ہوئے تھے، یہ لوگ پاکستان کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں جِن کے توسط سے پاکستان کے عام شہری تاجکستان میں تعلیم کے حصول کے لیے اچھے اور کم خرچ اداروں کے بارے میں معلومات اکٹھا کر کے اِن سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان کی زرعی پیداوار دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں پاکستان میں پیدا ہونے والی کاٹن، آم، سنگترے، چاول اور دوسری زرعی اجناس پوری دنیا کے ساتھ ساتھ تاجکستان میں سپلائی کی جاتی ہیں، دونوں ممالک کے درمیان زرعی اجناس و ادویات کے ساتھ ساتھ زرعی مشینری کی صنعت میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دونوں ممالک محض 16 کلومیٹر (10 میل) کی دوری پر واقع ہیں۔ واخان راہداری شمال مشرقی افغانستان میں ایک تنگ خطہ ہے، جو چین تک پھیلا ہوا ہے یہ خطہ تاجکستان کو پاکستان سے الگ کرتا ہے۔ دونوں ریاستوں کے مابین تعلقات اس وقت قائم ہوئے جب سوویت اتحاد کے خاتمے کے بعد جمہوریہ تاجک آزاد ہوا۔ تجارت اور تعاون دونوں ممالک کے مابین مستقل طور پر فروغ پا رہا ہے۔
پاکستان کی طرح تاجکستان نے بھی عالمی امور، دوطرفہ تعلقات اور پاکستان کو درپیش دیرینہ ایشوز پر ہمیشہ پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے اور پاک تاجک تعلقات میں یہ شیرینی دونوں ملکوں کے تاریخی، سیاسی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات کی اساسی بنیاد ہے، پاکستان نے تاجکستان کو وسط ایشیا میں اپنا حلیف، دوست اور معاصرانہ سیاسی و ثقافتی رشتوں میں قریبی تعلقات کو اہمیت دی ہے، تاجکستان نے بھی خطے میں پاکستان کی امن کے قیام میں کوششوں کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔
دونوں ملکوں کے مابین باہمی احترام اور خطے میں امن و ترقی کے تناظر میں مشترکہ مفادات کو بڑی قدر و منزلت حاصل رہی ہے، تاجکستان اپنی آبادی، پاکستانی عوام کے ساتھ تاجکستانی عوام کی والہانہ محبت و الفت، تاریخی و ثقافتی رشتے تاریخ پر محیط ہیں، مزید براں صنعتی شعبے، توانائی کے وسائل، تجارتی، تعلیمی، دفاعی اور عالمی امور میں پاک تاجک وژن بھی قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ایٹمی ملک ہے جِس کے پاس دنیا کی بہترین تربیت یافتہ اور اعلیٰ کارکردگی کی حامل فوج موجود ہے جو جدید ہتھیاروں و ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیز دنیا میں پہلے نمبر پر شمار ہوتی ہیں۔ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیوں نے دنیا کے سامنے پاکستان کی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ تاجکستان کو پاکستانی فوج کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جیسا کہ پاکستان نے روس کے ساتھ مل کر فوجی مشقوں کا اہتمام کیا اِسی طرح تاجکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ بھی مشقیں کی جا سکتی ہیں۔
خطے میں اٹھنے والے نئے خطرات دونوں ممالک سے مزید تعاون کا تقاضا کرتے ہیں، خطے میں بڑھتے بھارتی مذموم مقاصد و مغربی اثر و رسوخ یہ تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے علاقائی دوستوں کے ساتھ مل کر ''بیلنس آف پاور''کی خارجہ پالیسی پر گامزن ہو، دونوں ممالک کو مل کر ہر شعبے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور خطے کی امن و ترقی کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور تاجکستان ایک حساس محل وقوع پر واقع اہم ممالک ہیں، جیو پولیٹیکل حساسیت اور خطے میں معدنی وسائل اور ہمسایہ ملکوں میں قریبی تعلقات قدرت کا بڑا عطیہ ہیں، امن و استحکام سے دونوں ممالک دنیا میں جنگ، بدامنی، اور غربت کا راستہ روک سکتے ہیں، سائنس و ٹیکنالوجی میں زبردست پیش قدمی سے ترقی پذیر ملکوں کے لیے پاک تاجک تعلقات مثالی ترقی، مشترکہ مفادات کی تکمیل اور خطے میں خوشحالی کے غیر معمولی سنگ میل قائم کر سکتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے دورہ تاجکستان میں چین، تاجکستان اور افغانستان تجارتی راہداری کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار بھی کردیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان تاجکستان نے سرکاری پاسپورٹ کو ویزا سے مستثنیٰ کرنے کے سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں، توقع ہے کہ کاسا 1000منصوبہ آیندہ سال مکمل ہوجائے گا جس سے خطے میں خوشحالی ہوگی، دنیا کو یوکرین جنگ اور غزہ میں پیدا صورتحال جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ دوسری جانب تاجکستان کے صدر نے کہا کہ پاکستان کی بندرگاہوں کے استعمال کے ذریعے تجارت میں اضافہ کرسکتے ہیں، ریل اور روڈ لنک کے ذریعے علاقائی روابط کو تقویت ملے گی اور تجارت کے حوالے سے دونوں ممالک کو فائدہ پہنچے گا۔ آنے والے دنوں میں پاکستان کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھانے کے حوالے سے اقدامات کریں گے۔
درحقیقت تاجکستان کی خارجہ پالیسی میں ترقی، مساوی انسانی حقوق کا فروغ دیگر ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنا عالمی سطح پر قیام امن اور سلامتی کو استحکام دینے کے لیے کوششیں کرنا بھی شامل ہے۔ تاجکستان کی خواہش ہے کہ وسط ایشیائی ممالک اور دیگر ممالک کے ساتھ معاشی تعاون کو فروغ حاصل ہو۔ تاجکستان میں تعمیر و ترقی اور معیشت کی بحالی پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ ٹیکس، نجکاری اور بینکنگ کے نظام میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔ تاجکستان حکومت بیرونی سرمایہ کاروں کو معدنی ذخائر میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بھی ترغیبات دے رہی ہے تاکہ بیرونی ممالک کے ساتھ معاشی روابط و تعلقات تیزی سے مضبوط ہوں۔
یہ بات اب حقیقت ہے کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر عصرِ حاضر کے چیلنجز اور ان گنت مسائل کا خاتمہ نہیں کر سکتے، مگر اِس کے لیے دونوں ممالک کو اپنے اپنے مقامی ملکی ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہو گا کیونکہ یہ اقدامات مزید امن و ترقی کی پر اعتماد فضا قائم کرسکتے ہیں۔