کارل مارکس بنام ابراہام لنکن

جمیل مرغز  جمعرات 4 جولائی 2024

یورپی آبادکاروں نے امریکا قدم رکھا تو وسیع و عریض زمینوں‘ صحراؤں‘جنگلات ‘دریاؤںاور سمندروں کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں‘ یورپی اقوام وہاں تیز سے آبادیاں بنانے لگے ۔ انھیں کاشت کاری ‘تجارت ‘کان کنی اور دوسری معاشی سرگرمیوں کے لیے افرادی قوت کی ضرورت تھی ‘ یوں براعظم افریقہ سے سیاہ فاموں کی تجارت شروع ہوئی۔ یوں امریکا میں بھی غلامی کا آغاز ہوگیا ، یہ غلام بلا معاوضہ کام کرتے تھے، انھیں کوئی قانونی حقوق حاصل نہیں تھے۔

امریکا میں انسانوں کی غلامی کو باقاعدہ آئین میں تسلیم کیا گیا‘اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے غلاموں نے بغاوتیں بھی کیں‘ لیکن انھیں بے رحمی سے کچل دیا گیا۔بالآخرڈیڑھ صدی قبل امریکا میں غلامی کا عملاً خاتمہ ہوا‘اس کے لیے امریکا کے رہنماء ابراہام لنکن 1809) (1865- نے بہت جدوجہد کی تھی ‘وہ امریکا کے16 ویں صدر رہے‘ انھیں 14 اپریل 1865 کو اپنے دوسرے دور صدارت کی ابتداء میں غلامی کے حامی ایک دہشت گرد نے گولی ماردی ‘اگلے دن وہ فوت ہوگئے۔ 1864 میںان کے دوبارہ بطور صدر انتخاب پر کارل مارکس نے ان کے نام ایک خط تحریر کیا تھا ‘اس خط میں ہمارے حکمران طبقوں کے لیے کوئی سبق نہیں‘ کیونکہ اب تک پاکستان میں کسی لکڑہارے کے بیٹے کو کوئی کرسی نہیں ملی البتہ پاکستانی غریب عوام اس خط سے آگہی حاصل کرسکتے ہیں۔

محترم صدر امریکا ‘جناب ابرا ہام لنکن۔

میں آپ کے دوبارہ انتخاب پر امریکی عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں‘پہلی بار آپ کے انتخاب میں غلام داری کی مزاحمت کے نعرے نے بنیادی کردار ادا کیا اور دوسری بار غلامانہ نظام کی موت چیخ چیخ کر آپ کی کامیابی کا اعلان کر رہی تھی ۔ امریکا کی وسیع و عریض زمین اس لیے نہیں ہے کہ اس پر مٹھی بھر سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور چرچ کا راج ہوگا اور غلامانہ نظام کا حامی امیرطبقہ غریبوں اور غلاموں کو بے رحمانہ انداز میں ایک طوائف کے طور پر استعمال کرے گا۔

جب دنیا کے روزنامچے پر پہلی بار تین لاکھ غلام دار آقاؤں کے ایک محدود طبقے نے‘ مسلح جدوجہد کے نام پر غلامانہ نظام کو مسلط کرتے ہوئے اپنی حکمرانی کو مسلط کیا ‘جہاں ایک صدی پہلے ‘پہلی بار ایک عظیم جمہوری ریپبلک وجود میں آئی تھی‘جہاں پہلی بار انسانی حقوق کا اعلامیہ جاری ہوا تھا اور جس نے 18ویں صدی کے یورپی انقلاب کوبھر پور مہمیز دی ۔جب ایک باقاعدہ قطعیت کے ساتھ رد انقلاب کی علامتیں ظاہر ہوئیںاور انقلاب کو رد کرنے کے تصورات کے پیچھے عظمت کے وہ تصورات تھے ‘جو پرانے آئین کی تشکیل کے وقت قائم کیے گئے تھے اور غلامانہ نظام کو ایک کارآمد ادارہ کہا گیا تھا۔

امریکی عوام نے غلامانہ نظام کی شدت سے مخالفت کی ‘ادھر یورپ میں لوگوں نے اس عظیم مقصد کے لیے اپنے حصے کے خون کے نذرانے دیے ‘در اصل آقا غلاموں کی حقیقی آزادی کے تصور سے بے بہرہ تھے ‘تاہم اب ارتقاء کا عمل ساری رکاوٹوں کو بہا لے گیا۔یورپ کے مختلف محنت کش یہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکا کی جنگ آزادی نے متوسط طبقے کی برتری کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے اور اب غلامانہ نظام کے خلاف جنگ محنت کش طبقات کی کامیابیوں کے مزید ثمرات لائے گی ‘وہ یہ سمجھتے ہیںکہ اس عہد ساز کامیابی کا سہرا ابراہام لنکن کے سر جاتا ہے‘جو محنت کش لکڑ ہارے کا بیٹا ہے ‘جس نے جنگ آزادی میں اپنی یکسوئی برقرار رکھی ‘اس نے زنجیروں میں جکڑی ہوئی ایک نسل کو آزادی دی اور ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھنے کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔فقط۔ کارل مارکس۔

امریکا ایک عظیم ملک ہے ‘انسان کی ترقی اور شعور کی بلندی میں اس ملک کاایک بڑا مقام اور جدوجہد ہے ‘سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک دنیا میں جتنی ایجادات ہوئی ہیں ‘ان میں تقریباً 90 فی صد امریکا میں ایجاد ہوئی ہیں۔ تھامس ایلوا ایڈیسن کی 120 ایجادات سے لے کر آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت تک ‘ول برادران کے ہوائی جہاز سے لے کر ایٹمی توانائی تک کی ایجادات نے دنیا کو انسانی زندگی کے رہنے قابل بنوایا۔’’بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر‘‘ اور تھامس جیفرسن کے تحریر کردہ’’ اعلان آزادی‘‘ جیسے تاریخی دستاویزات سے لے کر‘ لیگ آف نیشن اور بعد میں اقوام متحدہ کا ادارہ وہاں پر وجود میں آئے ‘ہٹلر ‘مسولینی اور ٹوجو جیسے فاشسٹوں اور آمروں کو شکست دینے میں امریکا نے جمہوری دنیا کے لیے ہرقسم کے وسائل فراہم کیے اور قربانی دی اور دنیا کو فاشزم کے خطرے سے بچایا۔

جنگ عظیم دوم میں تباہ شدہ یورپ کو مارشل پلان کے تحت پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے اربوں ڈالر مختص کیے ‘ جاپان اور جرمنی کو دوبارہ مستحکم بنانے کے لیے مدد دی ۔آج بھی ایک طرف وہ خلاء میں انسانی زندگی کے مستقبل کے لیے امکانات کا جائزہ لے رہا ہے ‘دوسری طرف سمندر کی گہرائیوںاور انٹارکٹیکا کی برف پوش وادیوں میں انسانیت کی بقاء کے لیے سرگرم عمل ہے۔ امریکا وہ واحد ملک ہے جہاں پر غلامی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے ایک صدر نے اپنی زندگی قربان کردی ‘جمہوریت ‘قانون کی حکمرانی اور آزاد عدلیہ کے ادارے اس ملک میں تشکیل دیے گئے ‘کارل مارکس کا ابراہام لنکن کوخراج تحسین اس کا کھلا ثبوت ہے۔

جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا کے غلام ممالک اور نوآبادیات آزاد ہوگئے ‘دنیا نے ابھی سکون کا سانس بھی نہیں لیا تھا کہ سرمایہ داری نظام کا پرچم امریکا نے تھام لیا‘Bretton woods  میںسامراجی ممالک نے امریکا کی سرکردگی میں IMF-WTOاور عالمی بینک جیسے مالیات اور تجارت کو منضبط کرنے والے عالمی ادارے بناکر غریب ممالک کے وسائل کا رخ امریکا اور مغربی یورپ کی طرف کردیا۔افسوس کہ کارل مارکس کے یہ الفاظ کہ ’ ’یورپ کے محنت کش یہ محسوس کرتے ہیں کہ امریکا کی جنگ آزادی نے متوسط طبقے کی برتری کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے ‘اب غلامانہ نظام کے خلاف جنگ محنت کش طبقے کی کامیابیوں کے مزید ثمر لائے گی‘‘حقیقت نہ بن سکے ‘امریکا محنت کش طبقوں اور متوسط طبقے کے بجائے سرمائے اور اس کے حامیوں کا ملک بن گیا‘جوآکٹوپس کی طرح پوری دنیا کو جکڑ کے ہوئے ہے ۔ کاش کہ امریکا پھر جارج واشنگٹن‘تھامس جیفرسن ‘ ابراہام لنکن ‘روزا پارکس اور مارٹن لوتھر کنگ کے آدرشوں کا پرچم اٹھا لے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔