- پاکستان کو بدنام کرنے والوں کو جمہوریت سے کوئی دلچسپی نہیں ، نواز شریف
- 9 مئی مقدمات؛ عمران خان کی عبوری ضمانتوں کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
- لاہور: سابق شوہر نے شیر خوار بیٹا نہ دینے پر مطلقہ بیوی کو قتل کردیا
- سیاست صرف سیاستدانوں، ججوں اور فوجیوں پر نہیں چھوڑسکتے، مفتاح اسماعیل
- لاہور میں ٹرک نے پل کو ٹکر ماردی، اوپر موجود ریلوے پٹری کو نقصان
- شاہد خاقان، مفتاح اسماعیل نے نئی جماعت عوام پاکستان پارٹی لانچ کردی
- عمران خان کو جیل میں سہولیات کیلیے صدر اور وزیراعظم کو خط
- محرم الحرام کیلیے پنجاب سول سیکریٹریٹ میں کنٹرول روم قائم
- بی آر ٹی پشاور کرپشن اسکینڈل میں ملوث ٹھیکدار کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع
- سعودی عرب میں محرم الحرام کا آغاز کل ہوگا
- ہمیں ادارے سے مسئلہ نہیں شخصیات سے اختلاف ہے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا
- بنگلادیشی کرکٹر برین ہیمرج کا شکار
- گمبٹ میں پہلی بار ہائبرڈ کورونری ریواسکولرائزیشن کے ذریعے دل کا کامیاب آپریشن
- پیپلزپارٹی تحریک انصاف کے ساتھ زیادتیوں پر کیوں بات نہیں کرتی؟ اسد قیصر
- پاک بھارت مقابلہ؛ شائقین ہوجائیں تیار! آج سابق اسٹارز مدمقابل آئیں گے
- ایکسپورٹ فنانس اسکیم میں کروڑوں روپے کے فراڈ کا انکشاف
- چھوٹی مچھلیوں پر مبنی خوراک عمر میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے
- اسرائیل کے غزہ میں 50 سے زائد مقامات پر فضائی حملے، 58 فلسطینی شہید
- پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں جلسہ منسوخ کردیا
- گزشتہ مالی سال واپڈا پن بجلی گھروں سے 34 ارب یونٹ سے زائد سستی بجلی پیدا کی گئی
سنیارٹی کا اصول پھر نظر انداز
جیوڈیشل کمیشن نے اتفاق رائے سے جسٹس عالیہ نیلم کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا ہے۔ وہ سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھیں۔ جسٹس شجاعت علی خان اور جسٹس باقر نجفی ان سے سینئر ہیں۔ ایک خاتون کا لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس بننا یقیناً اعزاز کی بات ہے اور یہ اعزاز بھی پنجاب کے حصے میں ہی آیا ہے۔ اس وقت پنجاب میں وزیرعلیٰ بھی خاتون ہیں۔
کچھ دوست سنیارٹی کی بات بھی کر رہے ہیں حالانکہ ماضی میں اس اہم تقرری کے لیے سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب حکومت چیف جسٹس تعینات کیا کرتی تھی‘ تب سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی کا اصول نظر انداز کیا گیا تھا۔ البتہ جب سے ججز تعیناتی کے اختیارات جیوڈیشری یعنی ڈویشل کمیشن کے پاس آئے ہیں ‘ چیف جسٹسز کی تعیناتی کے لیے سنیارٹی کے اصول پر ہی عمل کیا جاتا ہے۔
بہرحال اس بار جیوڈیشل کمیشن نے سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں کئی بار جونئیرز کو لیے جانے کی روایت دیکھی گئی ہے۔ اس کی یہ توجیح پیش کی جاتی ہے کہ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ جانا کوئی ترقی نہیں ہوتی بلکہ ایک نئی تعیناتی ہے‘ ایک نئی تقرری ہے‘ اس لیے سنیارٹی کے اصول کو لاگو کرناضروری نہیں۔کچھ قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ ہائی کورٹس سے سپریم کورٹ جانا نئی تعیناتی تو نہیں ہے بلکہ ترقی ہے اور ترقی کے لیے اصول و ضوابط ہونے چاہیے۔اس کے لیے سنیارٹی بہترین اصول ہے۔ بہرحال سپریم کورٹ میں جونئیر ججز کی تعیناتیاںہوتی رہی ہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ اگر جیوڈیشل کمیشن میں ووٹ ہی فیصلے کا واحد معیار ہے تو پھر یہ درست ہے جس کے حق میں زیادہ ووٹ ہوں گے وہ چیف جسٹس بن جائے گا۔ ووٹ دینے والوں کے لیے کسی اصول ضابطے کو مدنظر رکھنا ضروری نہیں ہے‘ بس اپنی ترجیح کے مطابق رائے یا ووٹ دینا ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ صرف اتفاق رائے ہونے کی دلیل سنیارٹی کے اصول کو نظر اندازکرنے کے لیے کافی ہے۔ کسی بھی کام کے لیے کوئی معقول وجہ اور بنیاد ہونی ضروری ہے‘ صرف اتفاق رائے کوئی معقول وجہ نہیں ہو سکتی۔بہرحال جیوڈیشل کمیشن کے اراکین آئین اور قانون کو مجھ سے زیادہ سمجھتے ہیں۔
میرے بعض دوستوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا اب لاہور ہوئی کورٹ میں دو سینئر جج صاحبان جونیئر جج کے ماتحت کام کر سکیں گے؟ ویسے فوج میں تو جونیئر افسران سپر سیڈ ہو جائیں توسینئرمستعفی ہو جاتے ہیںلیکن یہاں بھی یہ اپنی چوائس ہوتی ہے۔ سول اداروں میں سینئر کو جونئیر کے ماتحت کام کرنے کی روایت موجود ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ جیوڈیشل کمیشن کے اندر کیا بات ہوئی ہے۔ ابھی تک تو ہمارے پاس سنی سنائی معلومات ہیں۔ جیوڈیشل کمیشن کی کارروائی ظاہر نہیں کی جاتی۔ اب میں سنی سنائی باتوں پر یہاں کیا رائے دوں۔ ججز کے عزت واحترام کو بھی سامنے رکھنا ہے۔ جب تک تصدیق نہ ہو جائے اس پر رائے دینا ٹھیک نہیں۔ لیکن سنیارٹی کے اصول پر عمل کیوں نہیں ہوا‘پتہ لگنا چاہیے تا کہ قیاس آرائیاں نہ ہوں۔
ایک دوست نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ اگر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے تو پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے کیوں نہیں کیا جا سکتا؟لیکن دوست ہی دلیل دیتے ہیں کہ وہاں کے لیے ایک عدالتی فیصلہ موجود ہے کہ صرف سنیارٹی کے اصول کو ہی مدنظر رکھا جائے گا۔ جب کہ باقی تعیناتیوں اور تقرریوں کے لیے کوئی عدالتی فیصلہ موجود نہیں ہے۔ مستقبل میں کیا ہو گا‘ اس کے بارے میں بھی فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ لہٰذا اندازے‘ قیاس آرائیاں اور پیش گوئی کرنے سے بہتر ہے انتظار کیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔