لیاری یونیورسٹی وائس چانسلر کی عدم موجودگی میں مالی بے قاعدگیاں سامنے آنے لگیں

کاپیوں کی خریداری میں افسران نے یونیورسٹی کوساڑھے 5 ملین سے زائد کاٹیکہ لگادیا، بغیر ٹینڈرامتحانی کاپیاں خریدیں، رپورٹ


Safdar Rizvi July 04, 2024
(فوٹو: فائل)

لیاری یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی عدم موجودگی میں مالی بے قاعدگیاں سامنے آنے لگیں۔


بینظیربھٹوشہید یونیورسٹی (لیاری یونیورسٹی) میں گزشتہ ڈھائی برس سے مستقل وائس چانسلرکی عدم موجودگی کے بھیانک نتائج کاسلسلہ جاری ہے۔ یونیورسٹی کی بدترین اکیڈمک تنزلی کے بعد اب عوامی ٹیکس سے چلنے والی اس سرکاری یونیورسٹی میں افسران کی جانب سے مختلف اشیا کی خریداری میں بے قاعدگیوں اوربے ضابطگیوں کی باقاعدہ اورآفیشل رپورٹس موصول ہورہی ہیں جس سے یونیورسٹی کوکروڑوں روپے کانقصان پہنچایاجارہاہے۔


اسی طرح کی ایک بے ضابطگی یونیورسٹی میں امتحانی کاپیوں کی خریداری کے معاملے میں رپورٹ ہوئی ہے، جہاں اطلاعات کے مطابق اس ادارے کومتعلقہ افسران کی جانب سے ساڑھے 5ملین روپے مالیت کاٹیکہ لگادیاگیاہے اورمن پسند وینڈرزسے امتحانی کاپیوں کی خریداری کے لیے اس کاٹینڈرجاری نہیں کیاگیا۔


ذرائع کا کہنا ہے کہ جن افسران کی جانب سے کاپیوں کی خریداری میں مذکورہ بدعنوانی رپورٹ ہوئی ہے وہ اس قدر بااثر ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے خلاف کسی براہ راست کارروائی سے اجتناب کرتے ہوئے محکمہ یونیورسٹیز اینڈبورڈ کواس معاملے کومحکمہ اینٹی کرپشن کے حوالے کرنے کی سفارش کی تاہم محکمہ یونیورسٹیزاینڈبورڈنے جوابً میں یونیورسٹی کواس معاملے کوپہلے سینڈیکیٹ میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔


اُدھر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے مستقل اورلیاری یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلرڈاکٹرامجد سراج نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ ہم اس سلسلے میں محکمہ یونیورسٹیزاینڈ بورڈ کومزید انکوائری کی سفارش کرسکتے ہیں کیوں کہ یونیورسٹی پر تودباؤڈالاجاسکتاہے لیکن محکمے پر دباؤ ڈالنامشکل ہوگیا۔


دوسری جانب حال ہی میں محکمہ یونیورسٹیزاینڈبورڈزکاچارج چھوڑنے والے سیکرٹری نوراحمد سموں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہم نے یونیورسٹی سے کہاہے کہ پہلے وہ اس معاملے کواپنی سینڈیکیٹ میں لے جائیں پھر سینڈیکیٹ جوفیصلہ کرے اس پر عمل کریں ۔


واضح رہے کہ لیاری یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلرکی عدم موجودگی اورقائم مقام وائس چانسلرکی عدم دستیابی کافائدہ اٹھاتے ہوئے محکمہ فنانس اورمحکمہ پروکیورمنٹ کے افسران کی جانب سے سالانہ اورسیمسٹرامتحانات کی کاپیاں مہنگے داموں خریدنے کے لیے اس کے پرچیز آرڈرکوکاپیوں کی تعدادکے حساب سے تقسیم کردیاتاکہ ایک معینہ حد سے کم کاپی خریدنے کے لیے ٹینڈرجاری نہ کیاجائے، جس میں یونیورسٹی کامحکمہ انجینئرنگ اورمحکمہ فنانس شامل تھا جبکہ ایک ایسے وینڈرکوبھی کاپی کی خریداری کے لیے آرڈرجاری کیاگیاجوکمپنی "کنسٹریکشن"کے نام سے اپناکاروبارکررہی ہے جن پانچ مختلف وینڈرزسے ٹینڈرکے اجرا کے بغیرکاپیاں خریدی گئیں۔ انہیں 3 مختلف کیٹگریز کی کاپیوں میں فی کاپی 58روپے،53روپے اور44روپے زائد اداکیے گئے جب کہ کاپیوں کی تعداد ہزاروں میں تھیں۔


اس بات کاانکشاف یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلرڈاکٹرامجد سراج کی جانب سے اس سلسلے میں بنائی گئی "آڈٹ اینڈ انسپکشن کمیٹی"کی رپورٹ میں کیاگیاہے۔ 5 رکنی اس کمیٹی کے کنوینرواجاکیفے کریم داد waja kefah karimdadتھے۔


"ایکسپریس"نے اس معاملے پر ان سے رابطہ کیااورپوچھا کہ اس سارے معاملے میں یونیورسٹی کا کون سا شعبہ ملوث پایاگیااورکس کوذمے دار ٹھہرایا گیا، جس پر ان کاکہناتھاکہ"ہم نے تحقیقات کرکے وائس چانسلرکے حوالے کردی ہیں۔


اطلاعات کے مطابق وائس چانسلرنے بھی متعلقہ تحقیقاتی اداروں سے اس معاملے پر مزیدتفتیش کی گزارش کی ہے۔ اب یہ تحقیقاتی اداروں کاکام ہے کہ وہ اس معاملے کی چھان بین کرکے ذمے داروں کاتعین کرے کیوں کہ بظاہرجوکردارہمیں اس معاملے میں ملوث نظرآئے ہم نے رپورٹ میں اس کاذکرکردیاہے۔ ایک سوال پر ان کاکہناتھاکہ یہ 5 رکنی کمیٹی تھی جس نے مشترکہ طورپر اپنی فائندنگز دی ہیں۔


واضح رہے کہ کمیٹی کی فائنڈنگز اورآبزرویشن کے مطابق کاپیوں کی خریداری کاآرڈرکسی باقاعدہ ٹینڈر کے بجائے ایک split processکے ذریعے دیاگیااوریونیورسٹی کے قائم مقام اسسٹنٹ انجینئر کے مطابق پرچیز آرڈرکی منظوری اور پراسس "ایکس ای این"اینڈایکٹنگ ڈپٹی ڈائریکٹرفنانس کی جانب سے کیاگیا۔


اس رپورٹ کے مطابق ایک قابل توجہ بے ضابطگی کمیٹی کے مشاہدے میں آئی کہ ایک ہائی ٹیک کنسٹریکشن کے نام سے متعارف کمپنی کوساڑھے 7ہزارکاپیوں کاآرڈردے دیاگیاجبکہ صورتحال اس وقت مزید مشکوک ہوگئی جب یہ بات سامنے آئی کہ تمام ہی وینڈرزنے انتہائی بلند یازیادہ قیمتیں پیش کیں۔ یہ آنسرزکاپیزایک ساتھ کے بجائے مختلف ادوار میں یونیورسٹی کودی جاتی رہیں اورشعبہ امتحانات مسلسل متعلقہ شعبے سے امتحانی کاپیوں کی فراہمی کا کرتقاضاکرتارہا۔


واضح رہے کہ جن وینڈرسے یہ امتحانات کی کاپیاں خریدی گئیں ان میں سے 12صفحات کی اے امتحانی کاپی 77روپے سے 79روپے تک خریدی گئی جبکہ 24صفحات کی اے کاپی 79روپے سے 83روپے تک میں خریدی گئی۔ اسی طرح 4صفحات کی بی کاپی 49روپے سے کچھ زیادہ کی خریدی گئی جبکہ تحقیقات کرنے والی مذکورہ کمیٹی نے ان ہی کاپیوں کے جب مارکیٹ سے قیمت معلوم کی تومارکیٹ سے موصولہ کوٹیشن کے مطابق اے کاپی کے پرائس 59روپے اور53روپے جبکہ بی کاپی کی پرائس 44روپے تک کم تھی۔


کمیٹی اپنی رپورٹ میں کہتی ہے کہ متعلقہ شعبوں سے حاصل کی گئی انوائسزاوربلز کے مطابق 24صفحات کی 25250اے کاپیزکی مد میں 1.362ملین روپے،12صفحات کی 70ہزاراے کاپیز کی مد میں 4.126ملین روپے جبکہ 11ہزاربی کاپیز کی مد میں 4لاکھ 85ہزار یعنی 0.485ملین روپے کی اضافی بلنگ کی گئی اورمجموعی طورپر 5.974ملین یا 59لاکھ 74ہزارسے زائد کی اووربلنگ کی گئی۔ اس کمیٹی میں کنوینرکے علاوہ سجن کھوکر،مرزا وسیم،عبدالحفیظ اورمشرف کاشف شامل تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں