ذہنی بیماریوں کو نظرانداز مت کیجیے

رئیس فاطمہ  جمعـء 5 جولائی 2024
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

وہ رو رہی تھی اور آہستہ آہستہ سائیکاٹرسٹ کو سب کچھ بتاتی جا رہی تھی، جب وہ سب کچھ کہہ چکی تو ڈاکٹر نے انھیں دوسرے کمرے میں بھیجا اور مریضہ کی ماں کو اندر بلایا اور ان سے جب یہ کہا کہ ان کی بیٹی مرگی کی مریضہ نہیں ہے بلکہ اس پر خاندان کے ایک فرد نے قیامت ڈھائی ہے۔ سائیکاٹرسٹ نے ماں کو بتایا کہ ان کی بیٹی ہرگز مرگی کی مریضہ نہیں ہے۔ انھوں نے غلط ڈاکٹروں کو دکھایا جو اس کا مرض نہ پہچان سکے۔

ماں نے کہا کہ وہ اسی لیے ان کی تعریف سن کر بیٹی کو یہاں لائی ہیں۔ انھوں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ ان کی بیٹی کو کیا مرض ہے۔ ڈاکٹر نے انھیں بتایا کہ ان کی بیٹی کا جنسی استحصال ہوا ہے اور کرنے والا لڑکی کی سگی پھوپھی کا بیٹا ہے۔ یہ سلسلہ کافی عرصے سے چل رہا ہے۔

یہ شکر ہے کہ لڑکی حاملہ نہیں ہوئی۔ ماں یہ حقیقت جان کر دم بخود رہ گئیں۔ ان کے سامنے سبطین کا چہرہ گھوم گیا، انتہائی مہذب اور شائستہ! وہ پریشان ہوگئیں، ڈاکٹر نے ان سے کہا کہ وہ بیٹی کو اعتماد میں لیں اور باپ بھائی سب کو حقیقت بتا دیں، ڈاکٹر نے ذہنی و جسمانی سکون و آرام کی دوائیں دیں اور انھیں رخصت کیا۔ بعد میں پتا چلا کہ اس لڑکی کے والد نے اسلام آباد سے کہیں اور ٹرانسفر کروا لیا، اور وہاں سے چلے گئے تاکہ بیٹی کو ذہنی عذاب سے نجات دے۔ باپ نے بہن کو سب کچھ بتایا لیکن لڑکے سے شادی سے انکار کردیا، پھر بے چارے کیا کرتے پورے خاندان میں بدنامی ہونے سے بچنے کے لیے انھوں نے ٹرانسفر کروا لیا۔

ڈاکٹر اسامہ بن زبیر ایک سائیکاٹرسٹ ہیں، ان کا ذہنی امراض کا ایک اسپتال اؤب پارک کے سامنے جی ٹی روڈ پر ہے، ان کے اسپتال کا نام ہے Pakistan Institute of Mental Health، ان کے اسپتال میں خواتین اور مردوں کے علیحدہ علیحدہ وارڈ ہیں، میں نے خود یہ اسپتال دیکھا ہے، بڑا صاف ستھرا، کئی خواتین و حضرات وہاں داخل تھے اور علاج کروا رہے تھے۔

میں ایک ایسی شادی شدہ لڑکی سے بھی واقف ہوں جسے دورے پڑتے تھے، وہ گھر سے نکل جاتی تھی، چیختی چلاتی تھی، باہر نکل کر سر میں خاک ڈالتی تھی، اس کے والدین نے جو واقعی ناقص العقل ہیں، سارا ملبہ لڑکی کی ساس پر ڈال دیا، جب کہ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور لڑکی کے دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ یہ سب جادو ہے جو لڑکی کی ساس کر رہی ہے، لڑکی کے علاج کے لیے بہت سے عاملوں کو بلایا گیا، وہ عامل بڑی بڑی خطیر رقمیں لیتے اور اس بات کی گواہی دیتے کہ ہاں یہ جادو ہے اور ساس نے کروایا ہے۔

لڑکی پر جب دورہ پڑتا تو وہ یہی کہتی کہ اس پر جادو ہے اور ساس نے کیا ہے۔ اس نے شوہر کو بھی ماں سے بدظن کر دیا، بیٹے نے ماں سے یکلخت رابطہ ختم کردیا، تقریباً دس سال گزرگئے، لڑکی کے ماں باپ اس کے پاس رہنے کو آگئے، پیسہ خرچ کرنے کے باوجود لڑکی کی طبیعت میں کوئی سدھار نہیں آیا تو اس کے دوستوں میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ وہ اپنی بؤی کو کسی ماہر نفسیات یا سائیکاٹرسٹ کو دکھائے، جب لڑکا اپنی بؤی کو سائیکاٹرسٹ کے پاس لے کر گیا تو طویل نشست کے بعد انھوں نے بتایا کہ اس کی پرسنالٹی ڈس آرڈر اور شیزوفرینیا کا شکار ہے۔ تب اس کا علاج شروع ہوا، اسے الیکٹرک شاکس بھی دیے گئے، اب وہ مکمل صحت یاب ہے، اس نے اپنی ساس سے معافی بھی مانگی اور اپنے ماں باپ کے سحر سے نکل آئی۔

جن دنوں ڈاکٹر اسامہ UK میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو وہاں کے ایک بڑے اسپتال کے نفسیاتی وارڈ میں ان کی ملاقات ایک مریضہ سے ہوئی جو ایک ہفتے سے بھوکی تھی اور کہتی تھی کہ خدا نے اسے کچھ کھانے سے منع کیا ہے۔ وہ لوگ بہت سمجھدار ہیں، انھوں نے اس عورت کو نفسیاتی اسپتال منتقل کردیا، پھر اس نے علاج کے بعد کچھ کھانا پینا شروع کردیا۔ شیزوفرینیا میں اکثر مریض illusion کا شکار ہو جاتے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ کوئی اس کا دشمن ہے،کوئی رشتے دار یا جاننے والا اس کا دشمن ہے۔ وہ خود فریبی کا شکار ہوکر ایک دشمن تراش لیتا ہے اور لوگوں کو بھی اس کا نام بتاتا ہے، لوگ مریض کے منہ سے کسی کا نام سن کر سمجھتے ہیں کہ اس پر جنات کا سایہ ہے اور وہی یہ نام بتا رہا ہے۔

کبھی کبھی مریض کو سرگوشیاں بھی محسوس ہوتی ہیں اور وہ ان سے بھی اپنے رشتے داروں کو بتاتا ہے۔ اوپر جس لڑکی کا ذکر میں نے کیا اس کے ساتھ یہی مسئلہ تھا، اس نے اپنی ساس کو دشمن مان لیا تھا، شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ اس کی ساس ایک پڑھی لکھی باوقار خاتون ہیں جب کہ اس کی ماں معمولی تعلیم یافتہ، ماں اندر سے بیٹی کی ساس سے جلتی تھی، وہ دن میں کئی بار بیٹی کے سامنے اس کی ساس کی برائیاں کرتی تھی اور داماد کو بھی تنگ کرتی تھی، شاید اسی لیے وہ لڑکی اپنی ساس کو دشمن سمجھنے لگی تھی، لیکن شکر ہے خدا کا کہ اس کے شوہر نے بروقت سائیکاٹرسٹ سے رابطہ کر لیا، ورنہ جعلی پیروں اور عاملوں کے چکر میں پتا نہیں کیا ہو جاتا۔

اسی طرح اکثر لوگ ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، اگرکسی کا کسی کام میں دل نہیں لگتا، بستر سے اٹھنے کو جی نہیں چاہتا، زندگی سے جی بے زار ہے، کسی سے ملنے جلنے کو جی نہیں چاہتا، بھوک نہیں لگتی، کئی کئی دن لوگ بھوکے رہ جاتے ہیں، انھیں کوئی اپنا دوست نہیں لگتا، ہلکا پھلکا ڈپریشن تو ہر ایک کو ہوتا ہے اور یہ زیادہ عرصہ نہیں رہتا، ماحول بدلنے پر خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن ایک ڈپریشن ہوتا ہے جسے Severe قسم کا ڈپریشن کہتے ہیں۔ اسے Clinical Depression بھی کہتے ہیں، اس کے ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن جب کوئی شخص طویل عرصے تک شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار رہے تو اسے ماہر نفسیات کے پاس ضرور جانا چاہیے، بغیر دوا لیے ایسے مریض اکیلے پن اور اداسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک عجیب سوچ ہے کہ اگر کسی کو ماہر نفسیات کے پاس بھیجنے کو کہیں تو لوگ کہتے ہیں ’’کیا ہم پاگل ہیں‘‘ اسی سوچ کی بنا پر لوگ بعض ایسے ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں جن کا علاج ہی ممکن نہیں۔ ایک اور بات یہ کہ لوگ کہتے ہیں کہ ڈپریشن کی دوائیں بہت لمبے عرصے تک کھانی پڑتی ہیں۔ تو ہم یہ کہیں گے کہ ہومؤپیتھک کی دوائیں بھی تو کئی کئی ماہ کھانی پڑتی ہیں، تب ان کا اثر ہوتا ہے اور پھر بقول ڈاکٹر اسامہ کہ آپ شوگر اور بلڈ پریشر کی دوائیں بھی تو مستقل کھاتے ہیں، کھانا نہ کھائیں لیکن دوا کھانا ضروری ہے تو پھر ذہنی امراض کے لیے ماہرین نفسیات کی تجویز کردہ دوائیں کھانے میں کیا قباحت ہے؟

دراصل ہمارے ہاں تعلیم کی بہت کمی ہے، پڑھے لکھے لوگ اب ذہنی بیمارؤں کو سمجھنے لگے ہیں، لیکن بعض پڑھے لکھے لوگ بھی لفظ ’’نفسیاتی‘‘ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ دراصل لوگوں میں شعور نہیں ہے کہ ذہنی بیمارؤں کا علاج جنرل فزیشن نہیں ہے، بعض فزیشن ذہنی بیمارؤں کا علاج ضرور کرتے ہیں لیکن ماہر نفسیات انسان سے اس کے حالات اور ماحول سے آگاہی حاصل کرتا ہے، کاؤنسلنگ کرتا اور پھر علاج کرتا ہے۔ شروع میں جس لڑکی کا میں نے ذکر کیا تھا اس کا مسلسل علاج ہوتا رہا اور سب ڈاکٹر اسے مرگی کا مرض ہی سمجھتے رہے، لیکن جب وہ ڈاکٹر کے کلینک پہنچی تو انھوں نے اس کے اصل مرض کا پتا لگایا۔ اب وہ لڑکی بالکل ٹھیک ہے، اسی لیے میرا کہنا صرف یہ ہے کہ ذہنی امراض کو نظرانداز نہ کیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔