میثاق معیشت کے دوہرے معیارات
’’ میثاق معیشت‘‘ کا نعرہ بھی صرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی لگا رہی ہے
پاکستان کی سیاست ، معیشت اور ریاستی نظام کی بڑی خوبی تضادات کی بنیاد پر اس نظام حکومت کو چلانا ہے۔ جب اصولوں کی بجائے تضادات یا ذاتی مفادات کو تقویت دی جائے گی تو اس کے نتیجے میں نظام میں تضادات مزید بڑھ جاتے ہیں ۔ ہمارے یہاں اوپر سے لے کر نچے تک بنیادی مسئلہ حکمرانی کے نظام کے تضادات ہیں ، جس کی وجہ سے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں ۔ یہ نظام طاقت ور طبقات کو تحفظ دیتا ہے اور کمزور طبقات پر ظلم ڈھاتا ہے۔
اہل سیاست اور اہل دانش کی سطح پر یہ بات بڑی شدت سے کی جاتی ہے کہ ہمیں '' میثاق جمہوریت'' کے ساتھ ساتھ '' میثاق معیشت '' کرنا چاہیے تاکہ معاشی مسائل کا علاج تلاش کیا جاسکے ۔کئی معاشی امور کے ماہر اور بڑے بڑے کاروباری یا صنعت سے جڑے بڑے نام بھی '' میثاق معیشت '' کی طرف توجہ دلاکر اپنے درد کا احساس دیتے ہیں ۔ ان کے بقول سیاست سے ہٹ کر ہمیں اپنی ترجیحات میں معیشت پر قومی اتفاق کو ممکن بنانا ہوگا تاکہ ہم معاشی ترقی اور اس سے جڑے اہداف حاصل کرسکیں۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ میثاق ہوگا کیسے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن '' میثاق جمہوریت '' پر دستخط کرچکے ہیں، لیکن اس کے باوجود پاکستان میں جمہوریت کا مقدمہ مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوا ہے ۔ پاکستان میںجمہوری اسپیس کم ہوئی ہے ۔یہ المیہ صرف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ سول سوسائٹی ، میڈیا کی کمزوری کے عمل کو دیکھیں تو ہم جمہوریت میں آگے نہیں پیچھے کی طرف جارہے ہیں ۔کؤنکہ اول '' میثاق جمہوریت '' کا عمل دو بڑی جماعتوں کے دائرہ کار سے باہر نہیں نکل سکا ، دوئم دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت تو کیا ہے لیکن اپنے اندر جمہوریت کو فروغ نہیں دیا۔ جمہوریت کو سیاست کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ پی ٹی آئی سمیت دوسری جماعتیں بھی داخلی جمہوریت سے محروم ہیں ، نتیجہ آج کمزور جمہوریت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔
'' میثاق معیشت'' کا نعرہ بھی صرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی لگا رہی ہے، اس کو مختلف طبقات کی طرف سے پزیرائی بھی ملی ۔لیکن سیاسی تقسیم ، سیاسی محاذ آرائی ، ٹکرائو کی سیاست سمیت ایک دوسرے کو سیاسی طور پر قبول نہ کرنے کی روش کے ہوتے ہوئے ایسے کسی میثاق کا طے پانا ممکن نہیں ہے۔ اس وقت بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اتحاد ہے اور حکومت کا حصہ ہیں ۔
اگرچہ پیپلز پارٹی براہ راست حکومت میں شامل نہیں اور نہ ہی وہ وفاقی حکومت کی معاشی پالیسؤں کی حمایت کرتی ہے مگر جب بھی حکومت پر کوئی بھی مشکل وقت سیاسی یا معاشی محاذ پر آتا ہے تو اسے ریلیف دینے یا اس میں سہولت کاری کرنے میں پیپلزپارٹی تمام تر اختلافات کو نظرانداز کرکے حکومت کی حمایت میں '' نظریہ ضرورت'' کے تحت کھڑی ہوجاتی ہے ۔ حالیہ بجٹ پر بھی پیپلز پارٹی نے شدید تنقید کی اور بلاول بھٹو اورآصفہ بھٹو دونوں نے اس بجٹ کو عوام دشمنی سے جوڑا۔ لیکن بجٹ پیپلزپارٹی ہی کی مدد سے منظور کیا گیا۔ پیپلزپارٹی نے دعوی کیا کہ اس نے بجٹ میں کئی کٹوتیاں پیش کی ہیں مگر جب ہم نے بجٹ کی منظوری دیکھی تو پیپلزپارٹی کی کوئی بھی ترمیم ایسی نہیں تھی جو لوگوں کے براہ راست مفادات سے جڑی ہوئی تھی ۔
اصولی طور پر تو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ہی کی حکومت ہے ۔ مرکز، پنجاب ، سندھ ، بلوچستان میں براہ راست ان کی مشترکہ حکومتیں ہیں اور اؤان صدر اور چیئرمین سینیٹ میں بھی پیپلزپارٹی کے لوگ موجود ہیں اور مسلم لیگ ن کی حمایت سے ہی یہ سب کچھ پیپلزپارٹی کو ملا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی موجودہ سیاسی بندوبست میں سب سے بہتر پوزیشن میں نظر آتی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ دونوںجماعتیں مل کر بجٹ تیار کرتی اور معاشی چیلنج قبول کرتیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔یہ دونوں جماعتیں بجٹ میںکمزور طبقات کو ریلیف دے کر ثابت کرسکتی تھیں کہ وہ ایک مضبوط، مربوط میثاق معیشت کی بنیاد رکھ رہی ہیں ۔لیکن دونوں جماعتوں کی پالیسی میں یہ ہی نقطہ غالب ہے کہ کوئی بھی معاشی ذمے داری کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ دونوں جماعتیں یا تو ایک دوسرے پر الزامات لگاتی ہیں یا سابقہ حکمرانوں اور آئی ایم ایف پر سارا ملبہ ڈال کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
پیپلزپارٹی نے اس بجٹ کی منظوری سے پہلے خود کو متبادل حزب اختلاف کے طور پر پیش کیا، بجٹ سیشن کا بائیکاٹ کیا ، بھرپور احتجاج کیا اور یہ تاثر دیا کہ ہم نے اپنے احتجاج کی بنیاد پر مسلم لیگ ن کو راضی کرلیا ہے کہ وہ عوام دشمن بجٹ یا عوام پر براہ راست بوجھ ڈالنے سے گریز کرے اور اسی بنیاد پر وزیراعظم اوربلاول بھٹو کی ملاقات اور مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ۔یہ جس بھی بنیاد پر بجٹ منظور ہوا، بھاری ٹیکسز اور بجلی کی قیمتوںمیں جو اضافہ ہورہا ہے، پیپلزپارٹی بھی اس کام میں برابر کی شریک ہے اور اس کو شریک ہی سمجھنا چاہیے۔
اؤان صدر جہاں آصف علی زرداری موجود ہیں اس کے بجٹ میں سابقہ سال کے مقابلے میں 62فیصد اضافہ کیا گیا اور اس کی منظوری مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی سے لی گئی ہے ۔اسی طرح پیپلزپارٹی نے بدلے میں اؤان وزیر اعظم کے بجٹ میںاضافہ کی منظوری بھی دی ۔ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں ، مراعات میں اضافہ کی منظوری ، پارلیمنٹ سیکریٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ اور تین برس کی تنخواہوں کے برابر بونس کی منظوری بھی شامل ہے۔ اسی طرح حکومتی اخراجات میں کمی کرنے کی بجائے اس میں 21فیصد اضافہ سمیت بجلی ، گیس اور پٹرول پر حکومتی ٹیکسزمیں اضافہ کی منظوری بھی شامل ہے ۔
افسر شاہی کی مراعات میں اضافہ جن میں مفت بجلی ، پٹرول ، جہازوں کا کرایہ، رہائش گاہوں اور دیگر اضافی اخراجات بھی شامل ہیں۔اسی طرح اشرافیہ کو جو بھاری سبسڈی دی جاتی ہے اس پر بھی یہ دونوں جماعتیں کچھ نہ کرسکیں۔تعلیم اور صحت میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو نہیں مل سکا اور نہ ہی حکومتی اخراجات میںکمی ہوئی، اور نہ کابینہ کا سائز چھوٹا کیا گیا ہے ، البتہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کا سارا بوجھ ڈال کر بؤروکریسی کے لیے جائیداد کی خرید وفروخت اور انتقال پرعملاً ایڈوانس ٹیکس کا خاتمہ کیاگیا ۔میثاق جمہوریت ہو یا میثاق معیشت دونوں نعروں میں سوائے خود غرضی اور کھوکھلے پن کے اور کچھ بھی نہیں ۔
اہل سیاست اور اہل دانش کی سطح پر یہ بات بڑی شدت سے کی جاتی ہے کہ ہمیں '' میثاق جمہوریت'' کے ساتھ ساتھ '' میثاق معیشت '' کرنا چاہیے تاکہ معاشی مسائل کا علاج تلاش کیا جاسکے ۔کئی معاشی امور کے ماہر اور بڑے بڑے کاروباری یا صنعت سے جڑے بڑے نام بھی '' میثاق معیشت '' کی طرف توجہ دلاکر اپنے درد کا احساس دیتے ہیں ۔ ان کے بقول سیاست سے ہٹ کر ہمیں اپنی ترجیحات میں معیشت پر قومی اتفاق کو ممکن بنانا ہوگا تاکہ ہم معاشی ترقی اور اس سے جڑے اہداف حاصل کرسکیں۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہ میثاق ہوگا کیسے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن '' میثاق جمہوریت '' پر دستخط کرچکے ہیں، لیکن اس کے باوجود پاکستان میں جمہوریت کا مقدمہ مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوا ہے ۔ پاکستان میںجمہوری اسپیس کم ہوئی ہے ۔یہ المیہ صرف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں بلکہ سول سوسائٹی ، میڈیا کی کمزوری کے عمل کو دیکھیں تو ہم جمہوریت میں آگے نہیں پیچھے کی طرف جارہے ہیں ۔کؤنکہ اول '' میثاق جمہوریت '' کا عمل دو بڑی جماعتوں کے دائرہ کار سے باہر نہیں نکل سکا ، دوئم دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت تو کیا ہے لیکن اپنے اندر جمہوریت کو فروغ نہیں دیا۔ جمہوریت کو سیاست کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔ پی ٹی آئی سمیت دوسری جماعتیں بھی داخلی جمہوریت سے محروم ہیں ، نتیجہ آج کمزور جمہوریت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔
'' میثاق معیشت'' کا نعرہ بھی صرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی لگا رہی ہے، اس کو مختلف طبقات کی طرف سے پزیرائی بھی ملی ۔لیکن سیاسی تقسیم ، سیاسی محاذ آرائی ، ٹکرائو کی سیاست سمیت ایک دوسرے کو سیاسی طور پر قبول نہ کرنے کی روش کے ہوتے ہوئے ایسے کسی میثاق کا طے پانا ممکن نہیں ہے۔ اس وقت بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اتحاد ہے اور حکومت کا حصہ ہیں ۔
اگرچہ پیپلز پارٹی براہ راست حکومت میں شامل نہیں اور نہ ہی وہ وفاقی حکومت کی معاشی پالیسؤں کی حمایت کرتی ہے مگر جب بھی حکومت پر کوئی بھی مشکل وقت سیاسی یا معاشی محاذ پر آتا ہے تو اسے ریلیف دینے یا اس میں سہولت کاری کرنے میں پیپلزپارٹی تمام تر اختلافات کو نظرانداز کرکے حکومت کی حمایت میں '' نظریہ ضرورت'' کے تحت کھڑی ہوجاتی ہے ۔ حالیہ بجٹ پر بھی پیپلز پارٹی نے شدید تنقید کی اور بلاول بھٹو اورآصفہ بھٹو دونوں نے اس بجٹ کو عوام دشمنی سے جوڑا۔ لیکن بجٹ پیپلزپارٹی ہی کی مدد سے منظور کیا گیا۔ پیپلزپارٹی نے دعوی کیا کہ اس نے بجٹ میں کئی کٹوتیاں پیش کی ہیں مگر جب ہم نے بجٹ کی منظوری دیکھی تو پیپلزپارٹی کی کوئی بھی ترمیم ایسی نہیں تھی جو لوگوں کے براہ راست مفادات سے جڑی ہوئی تھی ۔
اصولی طور پر تو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ہی کی حکومت ہے ۔ مرکز، پنجاب ، سندھ ، بلوچستان میں براہ راست ان کی مشترکہ حکومتیں ہیں اور اؤان صدر اور چیئرمین سینیٹ میں بھی پیپلزپارٹی کے لوگ موجود ہیں اور مسلم لیگ ن کی حمایت سے ہی یہ سب کچھ پیپلزپارٹی کو ملا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی موجودہ سیاسی بندوبست میں سب سے بہتر پوزیشن میں نظر آتی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ دونوںجماعتیں مل کر بجٹ تیار کرتی اور معاشی چیلنج قبول کرتیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔یہ دونوں جماعتیں بجٹ میںکمزور طبقات کو ریلیف دے کر ثابت کرسکتی تھیں کہ وہ ایک مضبوط، مربوط میثاق معیشت کی بنیاد رکھ رہی ہیں ۔لیکن دونوں جماعتوں کی پالیسی میں یہ ہی نقطہ غالب ہے کہ کوئی بھی معاشی ذمے داری کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ دونوں جماعتیں یا تو ایک دوسرے پر الزامات لگاتی ہیں یا سابقہ حکمرانوں اور آئی ایم ایف پر سارا ملبہ ڈال کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
پیپلزپارٹی نے اس بجٹ کی منظوری سے پہلے خود کو متبادل حزب اختلاف کے طور پر پیش کیا، بجٹ سیشن کا بائیکاٹ کیا ، بھرپور احتجاج کیا اور یہ تاثر دیا کہ ہم نے اپنے احتجاج کی بنیاد پر مسلم لیگ ن کو راضی کرلیا ہے کہ وہ عوام دشمن بجٹ یا عوام پر براہ راست بوجھ ڈالنے سے گریز کرے اور اسی بنیاد پر وزیراعظم اوربلاول بھٹو کی ملاقات اور مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ۔یہ جس بھی بنیاد پر بجٹ منظور ہوا، بھاری ٹیکسز اور بجلی کی قیمتوںمیں جو اضافہ ہورہا ہے، پیپلزپارٹی بھی اس کام میں برابر کی شریک ہے اور اس کو شریک ہی سمجھنا چاہیے۔
اؤان صدر جہاں آصف علی زرداری موجود ہیں اس کے بجٹ میں سابقہ سال کے مقابلے میں 62فیصد اضافہ کیا گیا اور اس کی منظوری مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی سے لی گئی ہے ۔اسی طرح پیپلزپارٹی نے بدلے میں اؤان وزیر اعظم کے بجٹ میںاضافہ کی منظوری بھی دی ۔ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں ، مراعات میں اضافہ کی منظوری ، پارلیمنٹ سیکریٹریٹ کے ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ اور تین برس کی تنخواہوں کے برابر بونس کی منظوری بھی شامل ہے۔ اسی طرح حکومتی اخراجات میں کمی کرنے کی بجائے اس میں 21فیصد اضافہ سمیت بجلی ، گیس اور پٹرول پر حکومتی ٹیکسزمیں اضافہ کی منظوری بھی شامل ہے ۔
افسر شاہی کی مراعات میں اضافہ جن میں مفت بجلی ، پٹرول ، جہازوں کا کرایہ، رہائش گاہوں اور دیگر اضافی اخراجات بھی شامل ہیں۔اسی طرح اشرافیہ کو جو بھاری سبسڈی دی جاتی ہے اس پر بھی یہ دونوں جماعتیں کچھ نہ کرسکیں۔تعلیم اور صحت میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو نہیں مل سکا اور نہ ہی حکومتی اخراجات میںکمی ہوئی، اور نہ کابینہ کا سائز چھوٹا کیا گیا ہے ، البتہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کا سارا بوجھ ڈال کر بؤروکریسی کے لیے جائیداد کی خرید وفروخت اور انتقال پرعملاً ایڈوانس ٹیکس کا خاتمہ کیاگیا ۔میثاق جمہوریت ہو یا میثاق معیشت دونوں نعروں میں سوائے خود غرضی اور کھوکھلے پن کے اور کچھ بھی نہیں ۔