جمہوریتیں کیسے رہنما پیدا کر رہی ہیں

برطانیہ میں پچھلی دو دہائؤں میں گورڈن برائون کے علاوہ کوئی پائے کا سیاست دان وزیرِ اعظم نہیں بنا

gfhlb169@gmail.com

ہمارے ہاں یہ تاثر عام ہے کہ اگر انتخابات ہوتے رہیں تو جمہوریت مضبوط ہوتی ہے اور عوام کے اچھے اور بہتر نمایندے اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔یہ بات بہت حد تک صحیح ہے کہ جمہوریت کے لاتعداد فائدے ہیں۔جمہوریت میں عوام کی شراکت داری ہوتی ہے۔جمہوریت کی بنیاد انتخابات کے ذریعے عوامی نمایندوں کا منتخب ہونا اور پھر اکثریتی رائے سے حکومت کا قیام ہے۔قرآنِ کریم بھی مشورے سے معاملات چلانے کا حکم دیتا ہے ۔

جمہوریت میں ہر فرد کو اپنی آزاد رائے رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کا حق ہوتا ہے۔جمہوریت میں عوامی فلاح کو ہر صورت مقدم رکھا جاتا ہے۔عوام کے نمایندے قانون بناتے اور قانون کی عملداری کو یقینی بناتے ہیں جمہوریت میں ہر کسی پر قانون کا یکساں اطلاق ہوتا ہے۔قانون کا اطلاق کرتے ہوئے کسی کو بڑا یا چھوٹا نہیں سمجھا جاتا۔ؤں جمہوریت کی روح یہ ہے کہ قانون کی عملداری ہو اور قانون عوامی فلاح و بہبود کے لیے بنایا جائے۔جمہوریت میں حکومت ہر کام عوام کے لیے کرتی ہے،اس لیے شفافیت کی بہت اہمیت ہوتی ہے ۔کچھ چھپایا نہیں جاتا۔عوام کو اندھیرے میں نہیں رکھا جاتا۔ ہر فرد اہم ہوتا ہے۔ہر فرد کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے۔

جمہوریت میں کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی اپنے حقوق سے محروم نہ رہے اور کسی دوسرے فرد کے حقوق غصب نہ کر سکے۔عوام کی زندگؤں میں آسانی لانے کے لیے معیشت کو مضبوط کیا جاتا ہے،فرد کی قوتِ خرید بڑھائی جاتی ہے اور ہر ممکن ریلیف دیا جاتا ہے۔معیشت مضبوط ہو تو خوش حالی آتی ہے،لوگ خوش ہو کر اپنی ریاست کے ساتھ جڑتے ہیں۔جمہوریت میں تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔پڑھے لکھے،صحت مند افراد ریاست کی مضبوطی کے ضامن ہوتے ہیں۔

جمہوریت میں سماجی انصاف کی بھی بہت اہمیت ہوتی ہے۔جمہوریت کے علاوہ دوسرے حکومتی نظاموں میں انتقالِ اقتدار ایک مشکل عمل ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ خونیں بن جاتا ہے،لیکن جمہوریت میں اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ انتقالِ اقتدار پر امن ہو۔جمہوریت میں اقلیتیں پھلتی پھولتی ہیں اور قانون پر عمل داری سے ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔وہ شریکِ اقتدار بھی ہوتی ہیں۔جمہوریت میں اکثر جھگڑوں کو گفتگو اور افہام و تفہیم سے حل کر لیا جاتا ہے۔

محض انتخابات کو عام طور پر جمہوریت سمجھ لیا جاتا ہے جب کہ انتخابات جمہوریت کا صرف ایک جزو ہیں اور یہ جزو بھی تب بنتا ہے جب انتخابات پر امن فضا میں ہوں،بالکل آزاد اور قانون کے مطابق ہوں ورنہ محض دکھاوا بن جاتے ہیں۔ہر کوئی جانتا ہے کہ انتخابی عمل پر ایک خطیر رقم خرچ ہوتی ہے،جو اصل میںعوام کے خون پسینے کی کمائی پر ٹیکسوں کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔پھر اسمبلؤں کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات کے علاوہ اسمبلؤں کو چلانے پر بہت زیادہ خرچ ہوتا ہے۔اگر انتخابات ہی ٹھیک نہ ہوں،اگر عوام کے اصل نمایندوں کو نمایندگی کے حق سے محروم رکھا جائے توکیا اتنی بڑی رقم خرچ کرنا ایک جرمِ عظیم نہیں۔


جمہوریت کے جتنے فوائد اوپر بیان ہوئے ہیں،ان میں سے کوئی بھی فائدہ پارلیمانی جمہوریت سے پاکستان کے عوام کو حاصل نہیں ہوا ہے ۔پاکستان میں آمریتوں کے لمبے دورانؤں کو چھوڑ کر باقی عرصے میں گاہے بگاہے انتخابات ہوتے رہے ہیں لیکن انتخابات میں پاکستانی عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے محروم رکھا گیا ہے۔ انتخابات،اسمبلؤں اور حکومتوں پر اُٹھنے والے اخراجات عوام کے اوپر محض بوجھ ہیں۔پاکستانی سیاست کچھ اس ڈھب سے آگے بڑھی ہے کہ غریب آدمی چاہے کتنا ہی اہل،باکردار اور اچھا ہو،اس کا انتخاب لڑنا محال ہے۔ایک عام آدمی کروڑوں کے اخراجات کا متحمل کیسے ہو سکتا ہے۔اچھے پاک دامن،باکردار فرد کی ویسے بھی ہمارے معاشرے میں قدر نہیں۔جو افراد کروڑوں خرچ کر کے نمایندہ بنتے ہیں وہ ہر طرح کی مار دھاڑ روا رکھ کر دگنا چوگنا بٹورتے ہیں۔

اس کے علاوہ تنخواہ اور مراعات بھی لیتے ہیں حالانکہ آجکل ہماری کسی بھی اسمبلی کا کوئی بھی ایسا ممبر نہیں ہوگا جسے تنخواہ اور مراعات کی ضرورت ہو۔یہ سارے لوگ صاحبِ حیثیت ہیں لیکن کچھ دینے کے بجائے ہر آن کچھ لینے کی فکر میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔اسی لیے ہماری حکومتوں کو عوامی فلاح و بہبود کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔انھیں صرف اقتدار سے غرض ہوتی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت نے جہاں پاکستان کو بہت کم دیا وہیں دنیا بھر میں جمہوری رویے بتدریج زوال پذیر رہے۔ہر کہیں پاپولسٹ رہنمائوں کی واہ واہ ہو رہی ہے۔اکثر ممالک میں جمہوریت کے ذریعے پہلے کے مقابلے میں کمزور تر اور نا اہل رہنمائوں نے جگہ لی ہے۔پڑوس میں ہندوستان کو لیں تو گاندھی اور نہرو کا مقابلہ موجودہ ہندوستانی قیادت سے نہیں کیا جا سکتا۔

اب ہندوستان میں جھوٹ اور بناوٹی سیاست عروج پر ہے۔جناب نریندر مودی مسلسل تیسری بار حکومت بنا چکے ہیں لیکن جھوٹ اور نفرت کی سیاست چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔برطانیہ میں پچھلی دو دہائؤں میں گورڈن برائون کے علاوہ کوئی پائے کا سیاست دان وزیرِ اعظم نہیں بنا حتیٰ کہ رشی سوناک آ گیا۔فرانس میں ماضی میں ڈیگال کی سیاست پر نگاہ ڈالیں اور اب میکرون کو دیکھیں،غرضیکہ ہر جگہ جمہوری رویے اور سیاست زوال پذیر ہے۔ جمہوریت کی کوکھ سے بونے جنم لینے لگے ہیں۔

امریکا میں جمہوریت کا پودہ خاصا پائیدار ہے لیکن امریکی جمہوریت کس مقام پر آ کھڑی ہوئی ہے اس کا اندازہ 27جون کو اٹلانٹا جارجیا میں ہونے والے پہلے صدارتی ڈیبیٹ سے ہو تا ہے۔ڈیبیٹ میں بائیڈن اور ٹرمپ کی عامیانہ زبان اور Intellectual لؤل سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکی سیاست کس قدر زوال پذیر ہو چکی ہے۔صدر بائیڈن ڈیبیٹ سے پہلے مسلسل سات دن کیمپ ڈؤڈ میں اپنے معاونین کے ساتھ تیاری کرتے رہے لیکن ڈیبیٹ کے دوران ان کی زبان رکتی اور لڑکھڑاتی رہی۔ان کا چہرہ ایک ذہنی پسماندہ شخص کا چہرہ تھا۔یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر امریکا کے صدر اور امریکی افواج کے کمانڈر انچیف کا عہدہ سنبھالنے کے ہر گز لائق نہیں۔ دوسری طرف سابق صدر ٹرمپ کی گفتگو جھوٹ اور دھوکے اور مکاری کا ایک انبار تھی۔

افسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور فوجی قوت ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہے۔واٹر گیٹ اسکینڈل کے دوران ایک موقع پر مرحوم صدر نکسن کو جب یہ احساس ہو گیا کہ وہ اب صدر نہیں رہ سکتے تو نکسن نے خوب پی لی اور پھر دھمکیاں دینے لگے کہ میرے ہاتھ میں نؤکلر بٹن ہے۔بہکتے بہکتے انھوں نے کہا کہ میں ابھی اسی وقت حکم دینے لگا ہوں کہ تمام نؤکلر وار ہیڈز فائر کر دیے جائیں۔یہ سن کر ہنری کسنجر Panic ہوئے اور امریکی افواج کو کہا کہ اگر صدر نکسن حملے کا حکم دیں تو اس پر عمل کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھ لیں۔اب تو امریکی جمہوریت نے بائیڈن اور ٹرمپ جیسے رہنماء پیدا کر دیے ہیں۔خدا ہی ہمارے ملک اور دنیا کے ممالک کو جمہوریت کی کوکھ سے جنم لینے والے ایسے ذہنی پسماندہ سیاست دانوں سے بچائے۔اقبال نے کیاخوب کہا تھا کہ جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں،تولا نہیں کرتے۔
Load Next Story