اسرائیل مغربی کنارہ کتر رہا ہے

جو ملک فلسطینی اتھارٹی کو تسلیم کرے گا اس کے بدلے اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں ایک اور نئی بستی بسائے گا


Wasat Ullah Khan July 06, 2024

چونکہ پوری دنیا کی توجہ اس وقت غزہ پر ہے لہٰذا وہاں سے اٹھنے والے گرد و غبار سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ غربِ اردن کو اسرائیل جس تیزی سے کتر رہا ہے اس کے نتائج غزہ پر یلغار کے نتائج سے زیادہ دوررس ہوں گے۔


اس وقت اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ پر ان آبادکار لیڈروں کا مکمل قبضہ ہے جو خود بھی ان بستیوں کے مکین ہیں جنھیں اقوامِ متحدہ متعدد بار غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ایسی ہی ایک غیر قانونی بستی کے رہائشی انتہائی نسل پرست اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل سموترخ ہیں۔ان کے ہاتھ میں مقبوضہ مغربی کنارے کے انتظامی اختیارات بھی ہیں۔ گویا بلی کو دودھ کی رکھوالی مل گئی ہے۔


سات اکتوبر کے بعد سے نہ صرف غربِ اردن کے یہودی آباد کاروں کو مسلح کیا گیا تاکہ وہ غزہ پر دنیا کی مسلسل توجہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینیوں کی جتنی زمینوں پر قبضہ کر سکتے ہیں کر لیں۔اس مشن میں انھیں قابض اسرائیلی فوج کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔امریکا اور جرمنی جیسے اندھے اتحادی بھی ان آبادکاروں کی حرکتوں پر بظاہر جز بز ہیں مگر اسرائیل کو اسلحے کی بھرپور رسد میں بھی کوئی کمی نہیں آنے دے رہے۔


جن تازہ زمینوں پر مسلح آبادکار قبضہ کر رہے ہیں۔ان کی نیلامی امریکا کے متعدد سینوگاگس (یہودی عبادت گاہیں ) میں جاری ہے تاکہ مزید یہودیوں کو مقبوضہ فلسطین میں بسنے پر آمادہ کیا جائے۔


گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران نہ صرف وزیرِ خزانہ سموترخ نے فلسطینی اتھارٹی کے لیے جمع کردہ محصولات کی آمدنی ضبط کر کے اتھارٹی کو کوڑی کوڑی کا محتاج بنانے کی کوشش کی ہے۔بلکہ غیر قانونی یہودی بستیوں میں اضافی ساڑھے آٹھ ہزار گھر بنانے کی منظوری دی ہے۔ یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ اگلے ایک برس میں مزید ایک لاکھ یہودی آباد کاروں کو مقبوضہ علاقوں میں گھر تعمیر کرنے کے لیے بھاری سرکاری سبسڈی دی جائے گی۔


وزیرِ خزانہ نے یہ بھی کہا ہے کہ جو جو ملک فلسطینی اتھارٹی کو تسلیم کرے گا اس کے بدلے اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں ایک اور نئی بستی بسائے گا۔ اس فارمولے کے تحت پانچ یورپی ممالک کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کو تسلیم کیے جانے کے بدلے پانچ یہودی بستیوں کے قیام کی منظوری دی جا چکی ہے۔اس منصوبے میں مزید توسیع کی خاطر اسرائیلی حکومت نے چار سو چالیس فلسطینی دیہاتوں کے انتظامی اختیارات فلسطینی اتھارٹی سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں تاکہ ان دیہاتوں میں صدیوں سے آباد مکینوں کو حسبِ ضرورت '' قانونی طور پر '' بے دخل کیا جا سکے۔


چونکہ نیتن یاہو حکومت ان آبادکاروں کی سیاسی حمائیت کی بیساکھیوں پر قائم ہے۔لہٰذا مخلوط حکومت میں شامل زائنو ازم پارٹی کے سربراہ اور وزیرِ خزانہ سموترخ نے حال ہی میں اپنی پارٹی کے ایک اجتماع میں سینہ ٹھونک کے کہا کہ '' بطور وزیر ان کی پوری توانائی جوڈیا سماریا ( غربِ اردن ) میں نئے زمینی حقائق (یہودی بستیاں ) تخلیق کرنے پر صرف ہو گی تاکہ ان علاقوں کو اسرائیلی ریاست میں مکمل طور پر ضم کیا جا سکے۔ہم ان جغرافیائی حقائق کو قانونی تحفظ بھی دے رہے ہیں۔اس تحفظاتی دائرے میں وہ قطعاتِ اراضی بھی شامل ہیں جن پر آبادکاروں نے حال ہی میں ملکیت کا دعوی کیا ہے اور ان کے اردگرد باڑھ لگادی ہے۔میری زندگی کا مقصد ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کو مکمل دفن کرنا ہے ''۔


بین الاقوامی قانون کے تحت قابض ریاست مقبوضہ علاقے میں طاقت کے بل پر زمینی حقائق نہیں بدل سکتی اور نہ ہی آبادی کے تناسب میں جبراً رد وبدل کر سکتی ہے۔چنانچہ اس قباحت کو دور کرنے کے لیے وزیرِ خزانہ نے مقبوضہ علاقوں کے اہم انتظامی اختیارات اسرائیلی فوجی انتظامیہ سے وزارت خزانہ کو منتقل کر دیے ہیں۔


اپنی آسانی کے لیے یوں سمجھئے کہ مقبوضہ غربِ اردن کو اسرائیل نے تین انتظامی اکائیوں میں جبراً تقسیم کیا ہوا ہے۔ایریا اے میں فلسطینی اکثریت والے شہری علاقے شامل ہیں جن پر بظاہر فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول ہے۔مگر اسرائیلی فوج دھشت گردوں کی تلاش کے نام پر ایریا اے میں جب چاہے فلسطینی اتھارٹی کی اجازت کے بغیر گھس سکتی ہے۔ایریا بی وہ علاقہ ہے جو فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مشترکہ انتظام میں ہے۔جب کہ ایریا سی ( ساٹھ فیصد مقبوضہ غربِ اردن ) جو رقبے کے اعتبار سے ایریا اے اور بی سے بھی مجموعی طور پر بڑا ہے۔وہاں اسرائیلی فوج کی اجازت کے بغیر کوئی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ اس پابندی کاعملی اطلاق یہاں آباد فلسطینی مکینوں پر ہے جو بلا اجازت گھر کا اندرونی نقشہ بھی نہیں بدل سکتے۔ بصورتِ دیگر ان کی املاک مسمار کی جا سکتی ہیں۔


البتہ یہودی آبادکاروں پر عملاً ایسی کسی پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔کیونکہ وہ مقبوضہ علاقے میں غیرقانونی طور پر بسنے کے باوجود اسرائیلی شہری تسلیم کیے جاتے ہیں۔چنانچہ فوجی قوانین کے بوٹ تلے جینے والے لاکھوں فلسطینیوں کے برعکس ان پر سویلین قانون لاگو ہوتا ہے۔


فوج سے سول اسٹیبلشمنٹ کو انتظامی اختیارات کی جزوی منتقلی کا مطلب یہ ہے کہ اب تعمیراتی قوانین، زرعی و جنگلاتی انتظام، پارکس حتی کہ قدیم فلسطینی قبرستانوں کی قسمت کا فیصلہ بھی وزیرِ خزانہ کے ماتحت نوکر شاہی کرے گی۔یعنی بلی نے پورے چھینکے پر قبضہ کر لیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگلے چند برس میں غربِ اردن میں بسنے والے فلسطینیوں کی املاک کسی نہ کسی قانونی بہانے ہڑپ کر کے صرف اتنی جگہ چھوڑی جائے گی کہ وہ بمشکل سانس لے سکیں یا تنگ آ کے جنم بھومی ہی چھوڑ جائیں۔یوں ایک آزاد فلسطینی مملکت کا خواب بھی خود بخود دفن ہو جائے۔


اس وقت غیر قانونی یہودی بستیوں کی آبادی تقریباً پانچ لاکھ ہے۔دو ہزار تیس تک مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادی بڑھانے کا ہدف ایک ملین ہے۔ سات اکتوبر کے بعد سے اب تک وادیِ اردن (ایریا سی) میں مزید چوبیس مربع کیلومیٹر زمین کو '' اسٹیٹ پراپرٹی '' قرار دیا جا چکا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ یہاں آباد فلسطینی کاشتکاروں اور مالکان کو اسرائیلی حکومت '' قانوناً '' کبھی بھی بے دخل کر سکتی ہے۔


انیس سو ترانونے کے فلسطین اسرائیل اوسلو امن سمجھوتے کے تحت مزید زمینوں پر قبضہ ممنوع ہے۔ اسرائیل نے صرف تین برس اس کی پابندی کی۔آج مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی زمین اوسلو سمجھوتے سے پہلے کی ملکیت کے مقابلے میں بیس سے پچیس فیصد اور کم ہو گئی ہے اور سلسلہ مسلسل جاری ہے۔


مگر مشکل یہ ہے کہ فلسطینی نہتے ہونے کے باوجود اسرائیل کی نسل پرست حکومت کی توقعات سے زیادہ سخت جان ثابت ہو رہے ہیں۔ ان کی سخت جانی میں کمی کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔اسرائیل کی بقا کو لاحق یہ خطرہ ہی دراصل ایک نئے فلسطین کے لیے امید کی کرن ہے۔کیونکہ اسرائیل کی لبرل جماعتیں ہوں یا انتہائی نسل پرست تنظیمیں۔دونوں طرف کے رہنما کم از کم اس نکتے پر متفق ہیں کہ فلسطینیوں کو اول درجے کا شہری چھوڑ مکمل انسان ہی تسلیم نہیں کرنا۔لہٰذا اسرائیلی میں رائٹ اور لیفٹ کے سیاسی کھلاڑیوں سے دھوکا کھانے کی ضرورت نہیں۔ انیس سو اڑتالیس کا نقبہ سوشلسٹ صیہونی قوم پرست بائیں بازو کی اسرائیلی لیبر پارٹی کی حکومت سے ہی شروع ہوا تھا۔جو آج تک جاری ہے۔


(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں