- ایئرلائنز کی عالمی تنظیم کا حکومت سے ٹکٹوں پر ٹیکس میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ
- آذربائیجان کے صدر الہام علیوف آج دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچیں گے
- ایم کیو ایم پاکستان نے بلدیاتی انتخابات کیلئے نوجوانوں کے انٹرویوز شروع کردیے
- عملے کی کمی، سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد کا آئی سی یو یونٹ20 ماہ سےغیرفعال
- مسلم لیگ (ن) سے حکومت نہیں چل رہی، ہم حکومت بنانا اور گرانا جانتے ہیں، صدر زرداری
- متحدہ عرب امارات: اخوان المسلمون سے تعلق کے الزام میں 43 افراد کو عمرقید کی سزا
- عبدالرزاق نے بھی سلیکشن کمیٹی سے برطرفی پر اپنا ردعمل جاری کردیا
- لاہور سے لاپتہ ہونے والے بزرگ پبلشر کی لاش فیصل آباد سے برآمد
- بھارت متنازع سرحدی علاقے پر تعمیرات نہیں کرسکتا، چین
- بین الاقوامی پاور لفٹنگ چیمپئن شپ میں پاکستانی بہنوں نے تاریخ رقم کردی
- دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کی لائن پھٹنے سے کراچی میں پانی کا بحران سنگین
- عمران خان اور مولانا کے اتحاد میں حائل خلیج ختم ہونے میں وقت لگے گا، عبدالغفور حیدری
- لارڈز ٹیسٹ: ویسٹ انڈیز کیخلاف ایٹکنسن کی تباہ کن بولنگ، انگلینڈ کی پوزیشن مستحکم
- پی سی بی کا سلیکشن کمیٹی کے اراکان کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ
- قومی کرکٹ ٹیم کے برطرف سلیکٹر وہاب ریاض نے اپنا تفصیلی موقف جاری کردیا
- صدر نے لاہور اور سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کی منظوری دیدی
- میٹا کی اسرائیل نوازی، صیہونیوں کو ٹارگٹ کرنے والی تمام پوسٹیں ہٹانے کا فیصلہ
- پشاور میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، 4 جوان شہید، مطلوب کمانڈر سمیت 3 دہشت گرد ہلاک
- کراچی میں قلت آب کے ستائے شہریوں نے سرکاری ہائیڈرنٹس پر حملے شروع کر دیے
- مریم نواز کا پوزیشن ہولڈر طلبہ کو نقد انعام، تمام تعلیمی اخراجات ادا کرنے کا اعلان
انتہا پسندی کے مضمرات
پاکستان اقتصادی سروے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر غربت کے خط کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد 55 ملین کے قریب ہے۔ یوں اعداد وشمار کے ماہرین کا تخمینہ ہے کہ یہ تعداد کل آبادی کا 37 فیصد کے قریب ہے۔ یوں دنیا کے غریب ممالک میں پاکستان کا 52 واں نمبر ہے۔ سندھ میں یہ شرح 37 فیصد، پنجاب میں 61.8 فیصد، پختون خوا میں 71فیصد اور بلوچستان میں یہ شرح 60 فیصد کے قریب ہے۔
غربت کا سب سے زیادہ شکار عورتیں ہوتی ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں کم عمری میں لڑکیوں کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوتی ہے، یہ بچے بھی لاغر ہوتے ہیں۔ بیشتر ماؤں کو صحت مند غذا میسر نہیں آتی، اس لیے وہ بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلا پاتیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان دنیا کا وہ پسماندہ ملک ہے جہاں روزانہ پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں سے 41 فیصد انتقال کر جاتے ہیں۔ اسی طرح 5 سال کی عمر تک پہنچنے والے بچوں میں سے 67 بچے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔
دنیا بھر میں ڈاکٹروں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ ماں کا دودھ ہی سب سے بہتر ہے مگر ماں کا دودھ نہ ملنے کی بناء پر بچوں کی شرح اموات بھی بڑھتی ہے اور اگر وہ زندہ رہیں تو انتہائی کمزور ہوتے ہیں اور قوتِ مدافعت نہ ہونے کی بناء پر بیماریوں کا شکار رہتے ہیں۔ بچوں کے امراض پر تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کو ڈھائی سال تک ماں کا دودھ ملنا چاہیے اس لیے تجویز دی کہ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ نا پلا پائیں ان بچوں کے لیے دوسرے ذرایع سے انسانی دودھ کا انتظام ہونا چاہیے، یوں Human Milk Bank کا تصور آیا۔ امریکا اور یورپ کے اسپتالوں میں فوری طور پر یہ بینک قائم ہوگئے۔ اسلامی ممالک میں ایران نے سب سے پہلے اس بارے میں تحقیق کی اور وہاں کئی ایسے بینک قائم ہوگئے، پھر ترکی اور مصر وغیرہ میں بھی اسی طرح کی پیش قدمی ہوئی۔
کراچی میں سندھ حکومت کی نگرانی میں قائم Sindh Institute of Child Health and Neanatologyایک تاریخی اسپتال ہے۔ اس اسپتال میں نہ صرف بچوں کا علاج ہوتا ہے بلکہ نوجوان ڈاکٹر بچوں کے امراض پر تحقیق کرتے ہیں۔ اسپتال کی انتظامیہ نے بچوں کی زندگی بچانے کے لیے پاکستان کا پہلا Human Milk Bank قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسپتال کی انتظامیہ نے اس بینک کے لیے قواعد و ضوابط بھی بنائے ہیں۔
ان قواعد و ضوابط کے تحت کسی قسم کی خرید و فروخت کو سختی سے ممنوع قرار دیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ مسلمان بچوں کو مسلمان عورت کا ہی دودھ ملے، جب بچے کو دودھ دیا جائے گا تو اس کی ماں کو عطیہ دینے والی خاتون کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جائیں گی۔ اس اسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اسپتال میں ہر وقت 30 سے 35 مائیں موجود ہوتی ہیں جو اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے قابل نہیں ہوتیں۔ اگر ان بچوں کو انسانی دودھ مل جائے تو نہ صرف ان کی زندگی بچ سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی قوتِ مدافعت بہتر ہونے سے وہ بچے مستقبل کے صحت مند شہریوں کی حیثیت سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں رضاعی ماں کا تصور موجود ہے مگر یہاں بااثر گروہ اس منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دے رہے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا کہ انتہا پسندی ملک میں اس تیزی سے بڑھ گئی ہے کہ ریاست اقلیتوں کی حفاظت میں ناکام رہی ہے۔ خواجہ آصف نے حال ہی میں سوات کے علاقے مدین میں ہجوم کے ہاتھوں ایک بے گناہ آدمی کی ہلاکت، جڑانوالہ اور پنجاب کے دیگر شہروں میں اقلیتی فرقے کے افراد پر حملوں کا حوالہ دیا۔ خواجہ آصف نے وزیر اعظم اور حکومت کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا کہ حکومت انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے آپریشن عزمِ استحکام شروع کرے گی۔
تحریک انصاف کیونکہ انتہا پسندی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے اور سابقہ دور میں افغانستان کے جنگجو طالبان کو سابقہ قبائلی علاقوں میں آباد کرنے کی اجازت دے چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے حامیوں کے خلاف آپریشن قبول نہیں ہے۔ انتہا پسند زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہوچکے ہیں۔ہمارے ملک کی ایک یونیورسٹی میں فزکس کے ماہرین کی کانفرنس کا منصوبہ اس بنا پر سبوتاژ ہوا کہ انتہا پسندوں کو فزکس کے نوبل انعام حاصل کرنے والے عالمی شہرت یافتہ استاد کا نام قابل قبول نہیں تھا۔
عجیب بات ہے کہ پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے گزشتہ صدی کے پہلے عشرہ میں کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی کے قانون کی حمایت کی تھی اور اس قانون کو لڑکیوں کی صحت کے حوالے سے اہم قرار دیا تھا مگر صرف سندھ واحد صوبہ ہے جہاں 18سال سے کم عمر کے بچوں کی شادی پر پابندی ہے۔ وفاق اور باقی صوبوں میں جب بھی اس قانون کا معاملہ آتا ہے تو ایک ہنگامہ شروع ہوتا ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں فیملی قوانین بنائے گئے اور مرد کی دوسری شادی کو بیوی کی اجازت سے مشروط کیا گیا۔ اب کوشش کی جارہی ہے کہ اس قانون کو تبدیل کیا جائے۔ اس وقت دنیا میں دو ہی ممالک ہیں جہاں پولیو کا وائرس موجود ہے ان میں ایک پاکستان بھی ہے۔
گزشتہ ہفتے بنوں میں پولیو کا پانچواں کیس ظاہر ہوا ہے۔ رجعت پسند بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کو اپنے عقائد کے خلاف جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم شروع ہوتی ہے تو پولیو کے قطرے پلانے والے رضا کاروں اور ان کی حفاظتی ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکاروں کی ہلاکتوں کی خبریں آنے لگتی ہیں جس کی بناء پر اپاہج بچوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، مگر امید کی کرن یہ ہے کہ سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس عزم کا اظہارکیا ہے کہ Human Milk Bank جاری رہے گا کیونکہ اس میں بچوں کا فائدہ ہے۔
انھوں نے سندھ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی طور پر ایک بچہ کو دوسری ماں کا دودھ پلایا جاسکتا ہے۔ تمام باشعور افراد کو سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عذرا پیچوہو سے یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے، اگر غربت کو ختم کرنا ہے اور ملک کو ترقی کرنی ہے تو ہر شعبے میں انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔