رکن قومی اسمبلی اور ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی اب ٹیکساچی ہونا چاہیے جہاں اب زیر زمین پانی پر بھی ٹیکس دینا ہوگا اسے بے حسی کہا جائے، بے دردی کہوں یا کچھ اور۔ اقتدار میں آنے والے مقامی شہری بھی اپنے شہر کا مقدمہ لڑنے کے بجائے شہریوں کی گردنیں مزید کاٹنے کو تیار ہیں۔
سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے بھی کہا ہے کہ سندھ حکومت اور وفاق کی ترجیح میں کراچی شامل ہی نہیں ہے کراچی میں پانی، بجلی، گیس ودیگر ضروریات زندگی ناپید ہوگئی ہیں۔ حکومت سندھ حب کینال کا منصوبہ دس سال سے پورا نہیں کر سکی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی ایوان میں تقریر اصل میں اعتراف ناکامی ہے۔ انھوں نے 65۔ایم جی ڈی منصوبے سے متعلق کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ کراچی کے شہری دوہرے عذاب میں مبتلا ہیں اور حکمران مسلسل کراچی کو لولی پاپ دے رہے ہیں۔ شہر میں سخت گرمی میں بجلی اور پانی کا نہ ہونا کراچی کا نوحہ ہے۔ ہم کراچی سے کے الیکٹرک کی مونوپلی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی میں بجلی فراہمی کا نظام دیگر کمپنیوں کو بھی دے کر مقابلے کا رجحان پیدا کیا جائے۔
کراچی میں شدید گرمی میں ہیٹ اسٹروک سے مرنے والوں کی تعداد 25 ہوگئی ہے۔ محکمہ صحت سندھ کے مطابق کراچی کے اسپتالوں میں 2 سو سے زائد افراد ہیٹ اسٹروک کی علامات کے ساتھ لائے گئے ہیں۔ کراچی کی سیاسی جماعتیں ان ہلاکتوں کا ذمے دار کے الیکٹرک اور واٹر ٹینکر مافیا کو قرار دیتی ہیں کہ ان دونوں کے باعث اس بار بھی ہیٹ اسٹروک کے باعث جانی نقصان ہوا۔ شدید گرمی میں شہری بجلی اور پانی کے لیے ترستے رہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق کراچی بھر میں بجلی کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج جاری ہے اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا وقت ختم ہوتے ہی رات 12 بجے شہر کے بیشتر علاقے تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں۔ گھروں میں بیمار، بوڑھے افراد خواتین و بچے بلبلاتے رہتے ہیں اور کے الیکٹرک کی بے حسی سے شہریوں کی زندگی داؤ پر لگ گئی ہے۔ شہر میں یہی حال فراہمی آب کا ہے جس کے خلاف بھی شہریوں کے مظاہرے اور احتجاج معمول بن چکا ہے مگر واٹر ٹینکر مافیاز کے لیے پانی کی قلت نہیں ہوتی صرف شہری پانی کے لیے ترستے رہتے ہیں۔
کراچی میں سخی حسن کا واٹر ہائیڈرنٹ بہت بڑا ہے جہاں سیکڑوں ٹینکر پانی بھر کر شہر میں فروخت کرتے ہیں ۔الزام لگایا جاتا ہے کہ شہر بھر میں ٹینکر مافیا کو حکومتی افراد، سیاسی شخصیات، انتظامیہ اور واٹر بورڈ کی سرپرستی حاصل ہے جس پر روزانہ ہی احتجاج ہوتا ہے مگر ٹینکرز مافیا نہ صرف اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ سرکاری نرخوں کے برعکس منہ مانگے داموں ٹینکر فروخت کر رہی ہے اور یہ سب شہریوں کے سامنے ہوتا ہے۔
بگڑتے ہوئے حالات سے مشتعل ہو کر شہریوں نے جمع ہو کر سخی حسن ہائیڈرنٹ پر پانی سے بھرے ٹینکروں کے وال جبری طور کھول دیے جس سے لاکھوں گیلن پانی ضایع ہوا۔ ٹینکروں سے بہنے والے پانی سے لوگوں نے اپنے برتن بھرے اور خوب نہائے، سندھ حکومت کے وزیر توانائی دیگر وزیر اور پی پی کے رہنما اس سلسلے میں صرف دعوے کرتے ہیں کہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔
شہریوں کو فراہمی آب جاری رہے گی مگر ہوتا سب اس کے برعکس ہے۔ شہریوں کو بجلی و پانی میسر ہے نہ اس گرمی میں بھی گیس نہیں مل رہی صرف خوشنما سرکاری اعلانات ہی سننے کو مل رہے ہیں مزید ظلم یہ ہے کہ پہلی بار کراچی کونسل سے اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود یہ فیصلہ منظور کرا لیا گیا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے زیر زمین پانی کے استعمال پر بھی ٹیکس وصول کرے گی۔ کراچی ملک کا واحد شہر ہے جو ملک کو تقریباً 65 فیصد رقم ٹیکسوں کی صورت میں کما کر دیتا ہے اور سندھ حکومت کی زیادہ آمدنی کراچی سے حاصل ہوتی ہے مگر وفاقی اور سندھ حکومتیں کراچی پر دس فیصد بھی نہیں لگاتیں اور صرف نئے نئے ٹیکس لگاتی آ رہی ہیں۔
سندھ حکومت نے نئے بجٹ میں دکانوں اور فیکٹریوں پر دو ہزار روپے ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ فضائی سفر پر 50 روپے، غیر ملکی سفر پر چار سو روپے فی ٹکٹ ڈیوٹی عائد کر دی ہے اور اب نجی تعلیمی اداروں، اسپتالوں، کنسلٹنٹ کلینکس پر بھی سندھ سیلز ٹیکس کا اطلاق کیا گیا ہے۔
وفاقی حکومت نے بھی کراچی میں مزید ٹیکس لگانے اور بڑھانے میں کسر نہیں چھوڑی مگر کراچی کو دیا کچھ نہیں۔ نئے ترقیاتی منصوبوں کے لیے دونوں حکومتوں کے پاس رقم نہیں اور نہ ہی کراچی ان کی ترجیح ہے۔ وفاقی اور سندھ حکومتوں کی ترجیح صرف یہ ہے کہ کس طرح کراچی سے مزید ٹیکس وصول کیے جائیں مگر کراچی کو دیا کچھ نہ جائے۔ خانہ پری کے لیے (ن) لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومتوں نے اعلانات بہت کیے مگر عمل نہیں کیا اور کراچی والوں کے آنسو صاف کرنے کے لیے جو بڑے منصوبے شروع کیے وہ سالوں سے تاخیر کا شکار چلے آ رہے ہیں۔
فراہمی آب کے منصوبے کے۔فور کی تکمیل سالوں میں ممکن نظر نہیں آرہی۔ کراچی کی فوری ضرورت پانی و بجلی کی فراہمی ہے۔ دونوں حکومتیں ماضی کی حکومتوں کی طرح اب بھی کراچی کو مسلسل نظرانداز کر رہی ہیں۔ کراچی کے مسائل کا حل (ن) لیگ اور پی پی حکومتوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ یہی پی ٹی آئی دور میں ہوا جس پر کراچی سے مخلص سیاسی جماعتیں احتجاج کرتی رہتی ہیں مگر ان کی سنی ہی نہیں جاتی جس کی سزا شہری بھگت رہے ہیں۔