بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے اثرات
1947ء میں جب پاکستان وجود میں آیا تھا اس وقت فقط 57 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی تھی
پاکستان کی معیشت کو فروغ دینے کے لیے بجلی کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں ہتھیاروں کی جنگوں کے بجائے توانائی کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ ہر ملک اپنی توانائی کے ذرائع کے فروغ کیلئے کام کر رہا ہے اور صنعتی ترقی کیلئے توانائی بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں بھی صنعتی ترقی کیلئے بجلی بہت ضروری ہے، لیکن لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے صنعتی اداروں کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔
ایک طرف لاقانونیت' بدامنی ہے دوسری طرف لوڈ شیڈنگ ہے جس کی وجہ سے صنعتوں کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے اور کاروباری طبقے کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے تاجر بھی لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نڈھال ہوگئے ہیں عام آدمی بھی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پریشان ہے۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ایک طرف توکارخانے مطلوبہ پیداوار حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں جس کے لازمی طور پر اثرات قومی معیشت پر بھی مرتب ہوں گے۔
درآمدات بھی متاثر ہوں گی ملک کے تاجر اور کاروباری ادارے تنظیمیں اس سلسلے میں حکومت سے اپیلیں کر رہے ہیں اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا تواترکے ساتھ مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی ذمے دار شخصیات بھی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کرتی ہیں لیکن اس اعلان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ حکومت نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے جو ایڈہاک ازم کی بنیاد پر منصوبے بنائے ہیں وہ بھی عملی طور پر نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے ہیں اور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔
پاکستان کی طرح بہت سے ممالک نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے عملی اقدامات کیے ہیں۔ چین، بھارت سمیت بہت سے ملکوں میں کوئلے سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بھی کوئلے کے وافر ذخائر موجود ہیں ماضی میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کیلئے غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدے بھی کیے گئے لیکن کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے پاکستان کا بجلی کا بحران بڑھ رہا ہے اور لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
1947ء میں جب پاکستان وجود میں آیا تھا اس وقت فقط 57 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی تھی۔ اب2024ء میں 41,557 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے لیکن کیونکہ بجلی کی کھپت میں بھی اضافہ ہوا ہے، کارخانے قائم ہوئے ہیں۔ بجلی کے صنعتی، زرعی اور گھریلو صارفین کی تعداد بھی بڑھی ہے، اس لیے بجلی کی کمی نے ایک سنگین بحران کی شکل اختیارکی ہے۔ حکومت بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے ٹھوس، قابل عمل اور مربوط حکمت عملی اختیارکرے جس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ سے ملک کو نجات مل سکتی ہے۔
کے الیکٹرک سے شہریوں کو بہت زیادہ شکایات ہیں۔کراچی کے تاجر صنعت کار اور عام شہری K-Electric کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور خود حکومت بھی اس ادارے کی کارکردگی سے نالاں رہی ہے۔ K-Electric کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صارفین کی ضروریات کے مطابق بجلی فراہم کرے اور بجلی کا پورا نظام جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔
K-Electric کی انتظامیہ کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اسپتالوں، مدارس، مساجد اور دیگر فلاحی اداروں کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دے کیونکہ عموماً اسپتالوں میں بہت سے آپریشنز اس وجہ سے وقت پر نہیں ہوپاتے کیونکہ بجلی نہیں ہوتی اور مریض زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے عمل میں جو مشکلات ہیں اس کو دورکرنے کی ضرورت ہے۔ بجلی کی پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی بہت زیادہ مالی مراعات اور سہولتیں دی جا رہی ہیں جب یہ کمپنیاں سستے داموں بجلی پیدا کرکے حکومت کو مہنگے داموں بجلی فراہم کرے گی تو اس سے بھی قومی خزانے کی لوٹ مار میں اضافہ ہوگا اور کرپشن مافیا سرگرم عمل ہوں گی۔
کوئلے سے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کیلئے سائنٹیفک لائحہ عمل حکومت کو اختیار کرنا چاہیے اور مصنوعی طریقے اختیار نہیں کرنا چاہیئیں۔ ضروری ہے کہ بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے ترجیحات متعین کی جائیں اور ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ بجلی کا شارٹ فال ختم ہو۔ واپڈا کی رپورٹوں میں یہ تجاویز ماہرین نے اعداد و شمار کی بنیاد پر پیش کی تھیں کہ پاکستان کے موجودہ دریاؤں، ڈیموں اور پانی کے دیگر ذخائر سے ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھاکر لوڈ شیڈنگ کو ختم کیا جاسکتا ہے بلکہ بعض رپورٹوں میں تو یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان اپنے موجودہ آبائی وسائل سے بجلی پیدا کر کے اسے برآمد بھی کرسکتا ہے۔
پاکستان میں کوئلے کے ذخائر بہت زیادہ ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ 7.8 فیصد بجلی کوئلے سے پیدا کی جارہی ہے جبکہ بھارت کے کوئلے کے ذخائر سے بجلی پیدا کرنے کا تناسب 75 فیصد ہے۔ چین کی معیشت بہت مستحکم ہوگئی ہے اور چین بھی کوئلے سے بجلی پیدا کر کے اپنی صنعتی ترقی کو پوری دنیا میں پھیلا رہا ہے۔ چینی کمپنی سے کوئلے سے بجلی کی پیداوار شروع کرنے کے بارے میں معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔
پاکستان کو درپیش توانائی کے مسائل کو اہمیت دی جانی چاہیے اور چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے منصوبوں پر بھی عمل کرنا چاہیے۔ واپڈا نے بہت سالوں پہلے سندھ میں سیہون بیراج کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اس منصوبے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اگر سیہون بیراج منصوبے کے تحت بن جاتا تو اس سے آبپاشی کی ضروریات پوری ہوسکتی تھیں اور سکھر بیراج پر دباؤ بھی کم ہوسکتا تھا۔ سکھر بیراج کے متعلق ماہرین کی رپورٹیں بھی تشویشناک ہیں اس طرح کوئلے اور ونڈ پاور کے ذریعے توانائی حاصل کرنے کی صلاحیت کو بڑھانا بھی ضروری ہے۔
ایک طرف لاقانونیت' بدامنی ہے دوسری طرف لوڈ شیڈنگ ہے جس کی وجہ سے صنعتوں کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے اور کاروباری طبقے کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے تاجر بھی لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نڈھال ہوگئے ہیں عام آدمی بھی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پریشان ہے۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ایک طرف توکارخانے مطلوبہ پیداوار حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں جس کے لازمی طور پر اثرات قومی معیشت پر بھی مرتب ہوں گے۔
درآمدات بھی متاثر ہوں گی ملک کے تاجر اور کاروباری ادارے تنظیمیں اس سلسلے میں حکومت سے اپیلیں کر رہے ہیں اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا تواترکے ساتھ مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت کی ذمے دار شخصیات بھی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کرتی ہیں لیکن اس اعلان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ حکومت نے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے جو ایڈہاک ازم کی بنیاد پر منصوبے بنائے ہیں وہ بھی عملی طور پر نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے ہیں اور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بھی کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔
پاکستان کی طرح بہت سے ممالک نے بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے عملی اقدامات کیے ہیں۔ چین، بھارت سمیت بہت سے ملکوں میں کوئلے سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بھی کوئلے کے وافر ذخائر موجود ہیں ماضی میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کیلئے غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدے بھی کیے گئے لیکن کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے پاکستان کا بجلی کا بحران بڑھ رہا ہے اور لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
1947ء میں جب پاکستان وجود میں آیا تھا اس وقت فقط 57 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی تھی۔ اب2024ء میں 41,557 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے لیکن کیونکہ بجلی کی کھپت میں بھی اضافہ ہوا ہے، کارخانے قائم ہوئے ہیں۔ بجلی کے صنعتی، زرعی اور گھریلو صارفین کی تعداد بھی بڑھی ہے، اس لیے بجلی کی کمی نے ایک سنگین بحران کی شکل اختیارکی ہے۔ حکومت بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے ٹھوس، قابل عمل اور مربوط حکمت عملی اختیارکرے جس کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ سے ملک کو نجات مل سکتی ہے۔
کے الیکٹرک سے شہریوں کو بہت زیادہ شکایات ہیں۔کراچی کے تاجر صنعت کار اور عام شہری K-Electric کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور خود حکومت بھی اس ادارے کی کارکردگی سے نالاں رہی ہے۔ K-Electric کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صارفین کی ضروریات کے مطابق بجلی فراہم کرے اور بجلی کا پورا نظام جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔
K-Electric کی انتظامیہ کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اسپتالوں، مدارس، مساجد اور دیگر فلاحی اداروں کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ قرار دے کیونکہ عموماً اسپتالوں میں بہت سے آپریشنز اس وجہ سے وقت پر نہیں ہوپاتے کیونکہ بجلی نہیں ہوتی اور مریض زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے عمل میں جو مشکلات ہیں اس کو دورکرنے کی ضرورت ہے۔ بجلی کی پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی بہت زیادہ مالی مراعات اور سہولتیں دی جا رہی ہیں جب یہ کمپنیاں سستے داموں بجلی پیدا کرکے حکومت کو مہنگے داموں بجلی فراہم کرے گی تو اس سے بھی قومی خزانے کی لوٹ مار میں اضافہ ہوگا اور کرپشن مافیا سرگرم عمل ہوں گی۔
کوئلے سے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کیلئے سائنٹیفک لائحہ عمل حکومت کو اختیار کرنا چاہیے اور مصنوعی طریقے اختیار نہیں کرنا چاہیئیں۔ ضروری ہے کہ بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے ترجیحات متعین کی جائیں اور ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ بجلی کا شارٹ فال ختم ہو۔ واپڈا کی رپورٹوں میں یہ تجاویز ماہرین نے اعداد و شمار کی بنیاد پر پیش کی تھیں کہ پاکستان کے موجودہ دریاؤں، ڈیموں اور پانی کے دیگر ذخائر سے ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھاکر لوڈ شیڈنگ کو ختم کیا جاسکتا ہے بلکہ بعض رپورٹوں میں تو یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان اپنے موجودہ آبائی وسائل سے بجلی پیدا کر کے اسے برآمد بھی کرسکتا ہے۔
پاکستان میں کوئلے کے ذخائر بہت زیادہ ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ 7.8 فیصد بجلی کوئلے سے پیدا کی جارہی ہے جبکہ بھارت کے کوئلے کے ذخائر سے بجلی پیدا کرنے کا تناسب 75 فیصد ہے۔ چین کی معیشت بہت مستحکم ہوگئی ہے اور چین بھی کوئلے سے بجلی پیدا کر کے اپنی صنعتی ترقی کو پوری دنیا میں پھیلا رہا ہے۔ چینی کمپنی سے کوئلے سے بجلی کی پیداوار شروع کرنے کے بارے میں معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔
پاکستان کو درپیش توانائی کے مسائل کو اہمیت دی جانی چاہیے اور چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے منصوبوں پر بھی عمل کرنا چاہیے۔ واپڈا نے بہت سالوں پہلے سندھ میں سیہون بیراج کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اس منصوبے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اگر سیہون بیراج منصوبے کے تحت بن جاتا تو اس سے آبپاشی کی ضروریات پوری ہوسکتی تھیں اور سکھر بیراج پر دباؤ بھی کم ہوسکتا تھا۔ سکھر بیراج کے متعلق ماہرین کی رپورٹیں بھی تشویشناک ہیں اس طرح کوئلے اور ونڈ پاور کے ذریعے توانائی حاصل کرنے کی صلاحیت کو بڑھانا بھی ضروری ہے۔