دنیا بھر سے پردیس میں رمضان

وہ دن کب آئے گاجب رمضان پر آمد پرلوگ اپنی جیبوں کے بجائے اپنی نیکیاں بڑھانے اورآخرت میں بہترین مقام پانےکی فکر ہوگی


نادیہ آغا June 28, 2014
وہ دن کب آئے گا جب رمضان پر آمد پر لوگ اپنی جیبوں کے بجائے اپنی نیکیاں بڑھانے اور آخرت میں بہترین مقام پانے کی فکر ہوگی۔ آخر کب؟۔ فوٹو اے ایف پی

رمضان بے شک برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے، اور اس مہینے میں ہر مسلمان کی یہی کوشش ہوتی ہے کے زیادہ سے زیادہ حقوق االله اور حقوق العباد ادا کرکے اپنی آخرت کو سنوارے. اب رمضان کی پھر سے آمد ہے اور اس کے شروع ہوتے ہی لوگوں کی تجوریوں اور دلوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا خیال رکھنے کی پوری کوشش کرے گا، اور کاروباری طبقے کی طرف سے بھی اس بات کی پوری پوری کوشش کی جائے گی کہ اشیائے خورد و نوش کو زیادہ سے زیادہ سستا کردیا جائے، کیونکہ اس مہینے میں عوام کو ضرورتوں کا خیال رکھنا مالی فائدے سے زیادہ اہم ہے. آپ سوچ رہیں ہوں گے کے پاکستان میں تو اس کے بر عکس ہوتا ہے تو پھر میں کہاں کی بات کر رہی ہوں. جی جناب! میں پاکستان کی نہیں برطانیہ کی بات کر رہی ہوں۔


بیرون ملک جانے سے پہلے سب سے زیادہ جو چیز پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کے ہمیں وہاں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی کتنی سہولت ہوگی، خاص طور پی جب آپ کو کسی مغربی ملک میں جانا ہو جہاں مسلمان اقلیت ہوں. مگر ایک عام انسان کے لئے یہ ایک حیرت کی بات ہے کے مغربی ملکوں میں ہر انسان کو نہ صرف اپنے مذہب کی پیروی کرنے کی آزادی ہوتی ہے بلکہ ریاست اپنی طرف سے یہ پوری کوشش کرتی ہے کے ملک میں رہنے والے لوگوں کو اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی اور مذہبی تہوار منانے میں کسی دشواری کا سامنا نہ ہو۔ .


اب برطانیہ کی مثال ہی لے لیجئے.پاکستان کے بر عکس یہاں رمضان میں مسلمانوں کے لئے خاص انتظامات کے جاتے ہیں. مسجدیں 24 گھنٹے کھلی رہتی ہیں تاکہ لوگ جس وقت چاہیں عبادت کر سکیں، جبکہ اس ماہ میں مسلمانوں کی سخاوت قابل دید ہوتی ہے. پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں تجارتی طبقے سے تعلق رکھتی ہے جن کے بڑے شہروں میں سپر اسٹورز ہیں۔ ان اسٹورز میں حلال گوشت سے لے کر کھانے پینے کی تمام اشیا فروخت کی جاتی ہیں۔ جو مسلمان یہاں پر تجارت کرتے ہیں وہ پاکستان کے مقابلے میں اپنی دکانوں پر رمضان سے قبل ہی سیلز لگا دیتے ہیں، یہ سیلز خاص طور پے کھانے پینے کی اشیا جیسے دودھ، دہی اور پھل وغیرہ پر لگائی جاتی ہیں تاکہ ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق خریدای کرسکتے۔


یہاں تک کہ برطانیہ کی بڑی بڑی سپر مارکیٹس بھی اس کام میں پیچھے نہیں رہتی، رمضان کے شروع ہوتے ہی شربت، جوس، مصالے اور دیگر اشیا خصوصی رعایت کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں. ان سیلوں کا مقصد نہ صرف خرید و فروخت کو بڑھانا ہوتا ہے، بلکہ بلاواسطہ طور پر مسلمانوں کی مدداور ان پر کاندھوں پر سے اضافی بوجھ کا خاتمہ بھی ہے۔ یعنی بجٹ بھی ڈھیلا ہونے سے بچ جاتا ہے اور یہ با برکت مہینہ بغیر کسی بڑی فکر کے گزر جاتا ہے۔


ان سیلز سے بیرون ملک رہنے والے عام انسان کو بھی بہت فائدہ ہوتا ہے۔ تنگدستی کی زندگی گزارنے والے افراد کے لئے یہ سیلز کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔


یہاں پر رمضان کی با برکت راتوں کو بھی بہت عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ جبکہ مختلف ملکوں کے مسلمان مسجدوں یا کمیونٹی سینٹرز میں خاص عبادت کا اہتمام کرتے ہیں۔ چاند رات پر یہاں بہت گہما گہمی ہوتی ہے اور لوگ عید کی آخری خریداری کے لئے اپنی فیملیز کے ساتھ رات گئے تک باہر ہوتے ہیں، ایسے میں بیرون ملک کی پولیس کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لئے بلا امتیاز سیکیورٹی فراہم کرتی ہے۔


تاہم سیکورٹی کا یہ سلسلہ عید کا دن تک جاری رہتا ہے۔ اور مسلمان سکون کے ساتھ یہ مذہبی تہوار مناتے ہیں. ایسے میں ایک سوچ جو کبھی کبھی ان خوشیوں کو پھیکا کر دیتی ہے وہ یہ کہ کیا ہم اپنے ملک میں ایسی سہولیات کا مزہ لے سکیں گے؟ وہ دن کب آئے گا جب رمضان پر آمد پر لوگ اپنی جیبوں کے بجائے اپنی نیکیاں بڑھانے اور آخرت میں بہترین مقام پانے کی فکر ہوگی۔ آخر کب؟


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں