پاکستان افغانستان تعلقات کا چیلنج

پاکستان کی جانب سے حالیہ دنوں میں سرحد پار افغانستان کے اندر کاروائیوں کا عندیہ دیا گیا ہے

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات محض دو ملکوں تک محدودایجنڈا نہیں بلکہ بہتر تعلقات کے نتیجہ میںجنوبی ایشیا اور خطہ میں امن قائم ہوگا۔اس لیے پاک افغان تعلقات کی بہتری کو ہمیں علاقائی نہیں بلکہ عالمی فریم ورک میں دیکھ کر آگے بڑھنے کی حکمت عملی اختیار کرنا ہے جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے ۔

پاکستان کی جانب سے حالیہ دنوں میں سرحد پار افغانستان کے اندر کاروائیوں کا عندیہ دیا گیا ہے ۔ اس پرافغان حکومت کا ردعمل شدید ہے اور اسے ان کی جانب سے غیر دانشمندانہ قرار دیا گیا ہے ۔ پاکستان کا موقف ہے کہ شدت پسندی اور حالیہ دہشت گردی کی وجہ کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کا استعمال ہے جسے روکنے میں افغان حکومت کو یا تو ناکامی کا سامنا ہے یا وہ اسے روکنا نہیں چاہتی ۔جس کی وجہ سے افغانستان سے سرحد کراس کرکے آنے والے دہشت گرد پاکستان کی سیکیورٹی فورسز، چینی باشندوںاورپاکستانی شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں ۔پاکستان کا موقف ہے کہ ہم نے سرحد پار دہشت گردوں کے حوالے سے کئی بار افغان حکومت کو ثبوت و شواہد بھی فراہم کیے ہیں مگر او ل تو افغان حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور نہ ہی ہمارے تحفظات کو دور کیا جاتا ہے ۔پاکستان کا افغان حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ پاکستان میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار کرے ،مقدمہ چلائے یا ان کو پاکستان کے حوالے کیا جائے ۔مگر افغان حکومت پاکستان کے ان تحفظات کے باوجود ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں کررہی ہے یااس میں اتنی قوت نہیں ہے۔

پاکستان نے چار حکمت عملیاں بھی اختیار کیں جن میں افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں پر ائیر اسٹرائیک کرنا ،ٹرانزٹ ٹریڈ پر پابندیاں، پاکستان میں موجود افغان تارکین کی واپسی اور افغان حکومت پر دباؤ بڑھانا کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے۔ لیکن ابھی تک ہم نے جو بھی حکمت عملی اختیار کی ہے اس میں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی بلکہ ہماری داخلی سطح پر سیکیورٹی کے معاملات اور زیادہ سنگین ہوگئے ہیں۔

حال ہی میں چین نے بھی پاکستان کو یہ ہی مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے داخلی استحکام کو بنیاد بنا کر سیکیورٹی کے معاملات کو شفاف بنائے ۔پاکستان کے اپنے داخلی نظام پر افغان پالیسی یا سخت گیر آپریشن کے تناظرمیں تقسیم موجود ہے ۔ حالیہ دنوں میں آپریشن عزم پاکستان کے اعلان کرنے پر کے پی کے میںموجود جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی میں تحفظات پائے جاتے ہیں ۔ ان جماعتوں میں جے یو آئی ، پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی ، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان سے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی شامل ہیں ۔ان کے بقول اس طرز کے آپریشن سے ہماری داخلی سیکیورٹی کے تناظرمیں اور زیادہ مسائل پیدا ہوںگے ۔

اس پس منظر میں اگر ہم پاکستان افغانستان کے تعلقات کو دیکھیں یا بہتری کو پیدا کرنے کی جو ہماری خواہش ہے اس میں کافی سنگین نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔حالانکہ پاکستان کے افغانستان سے بہتر تعلقات ہماری اسٹرٹیجک ضرورت ہیں ،لیکن مسلسل خراب تعلقات نے ہمار ے لیے علاقائی سیاست میں اور زیادہ مسائل کو پیدا کردیا ہے ۔


امریکی تھنک ٹینک دی ولسن سینٹر کے جنوبی ایشائی یونٹ کے سربراہ مائیکل کگلمین کے پاکستان نے انٹیلی جنس آپریشن کوبنیاد بنا کر تیزی لانی ہے جن میں افغانستان میں مخصوص ٹھکانوں پر حملہ بھی کرنا ہے۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اپنی دہشت گردی کی جنگ کو افغانستان کے تناظرمیں بھی دیکھ رہا ہے۔ اس سے شاید ہم یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ افغان طالبان حکومت کودباو میں لایاجاسکے گا اور اس کے نتیجے میں افغان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے گی۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ نہ صرف ہماری معیشت یا امن وآمان کے لیے بلکہ یہ علاقائی سالمیت ، آزادی اور خود مختاری کے لیے بھی چیلنج بن گیا ہے ۔علاقائی ممالک کو دہشت گردی کو محض پاکستان کے تناظر میں ہی نہیں بلکہ ایک عالمی اور علاقائی فریم ورک میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ہمیںاپنی خارجہ اور داخلی پالیسی کا بھی دوبارہ سے تجزیہ کرنا ہوگا ۔کیونکہ پہلے سے تقسیم شدہ پالیسی اور سیاسی فریقین میںباہمی اعتماد کا فقدان ہمیں اتفاق رائے پر مبنی پالیسی سے پیچھے کی طرف دکھیلتا ہے ۔ تمام فریقین کو اعتماد میں لے کر جامع پالیسی کا راستہ اختیار کریں۔

اس جامع پالیسی میں طالبان مائنڈسیٹ سمیت جنگ اور مکالمہ کی بنیاد پر درست راستہ اختیار کرنا ہوگا ۔ ہمیں سفارتی محاذ پر چین کی حمایت حاصل کرنا ہوگی ۔کیونکہ اگر چین افغانستان پر دباو ڈالتا ہے تو افغان حکومت کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو نظرانداز کرے۔ عالمی اور علاقائی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں سیاسی و معاشی استحکام کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی۔ سیاست میں جو بگاڑ اور عدم استحکام کا عمل جو نہ صرف بڑھ رہا ہے بلکہ اس میںشدت پسندی کے پہلو بھی نمایاں ہیں ہمیں ان کا علاج بھی تلاش کرنا ہوگا۔

ہمیں ایک ایسی سیاسی حکمت عملی بھی درکار ہے جہاں ہم افغان حکومت کو مزاکرات کی میز پر لاسکیں اور سمجھاسکیں کہ ہمارے اور آپ کے مسائل مشترکہ ہیں اور مشترکہ حکمت عملی کے تحت ہی ہم دونوں سطح کے ممالک محفوظ راستہ تلاش کرسکتے ہیں ۔لیکن یہ اسی صورت میںممکن ہوگا جب ہم ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں او ریہ عمل جاننے کی کوشش کی جائے کہ وہ کونسے مشترکہ حکمت عملیاں ہوسکتی ہیں جو دونوں کے تحفظات کو کم کرنے میں مدد دے سکے۔

مسائل کا حل ہم کو جنگوں یا تنازعات میں نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی بنیادوں پرچلنے اور حکمت عملی کو اختیارکرنے سے ہے ۔اس لیے ہم ضرور عملی آپریشن کا راستہ اختیار کریں لیکن پہلے سے جو آپریشن کیے گئے ان کا بھی تجزیہ کیاجانا چاہیے کیونکر وہ ہمیںہمارے مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا اورآج پھر ہمیں آپریشن کی ضرورت محسوس ہورہی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی نے ہمارے ریاستی اور سیکیورٹی کے نظام کو چیلنج کیا ہوا ہے جس سے ہماری معاشی ترقی کے امکانات بھی چیلنج ہورہے ہیں مگر ان کے داخلی اور خارجی دونوں سہولت کاروں کی درست نشاندہی اور موثر حکمت عملی کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکیں گے ۔
Load Next Story