ولی خان کا فکر انگیز تجزیہ حصہ اوّل
فرنگی یہاں پہلی مرتبہ سمندر کے راستے آیا، وہ سمندر کا بادشاہ تھا،جس نے کلکتہ سے آغازکیا
نو عمری کے دن تھے جب اخبار میں پہلی مرتبہ خدائی خدمت گار کا ذکر پڑھا، وہ کچھ اس انداز میں کیاگیا تھا جیسے کوئی بہت خوفناک چیز ہو ۔اسی ضمن میں ایک خان کا ذکر تھا، کوئی پراسرار دہشت گرد ، امی سے ڈانٹ پڑی کہا ،کیا اول فول پڑھتی رہتی ہو۔بات آئی گئی ہوگئی۔ اردو اخبار پڑھنے کا سلسلہ جاری رہا اور تب سمجھ میں آیا کہ جنھیں میں غدار وطن سمجھ رہی تھی وہ محب وطن تھے اور پاکستانی سیاست کے گرداب میں پھنسے ہوئے وہ لوگ تھے جنھیں ان کی حب الوطنی کی سزا مل رہی تھی۔
چند دنوں پہلے تاریخ پبلی کیشنز کی شایع کی ہوئی دو جلدوں پر مشتمل خدائی خدمت گار تحریک سامنے آئی جسے احمد کاکا نے پشتو میں لکھا، قاسم جان نے اس کا ترجمہ کیا اور نامور سیاست دان خان عبدالولی خان نے اس کا پیش لفظ لکھا اور اب یہ معتبر کتاب کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے۔اسے انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ ریسرچ سینٹر کی جانب سے ڈاکٹر طارق سہیل اور ڈاکٹر جعفر احمد نے مشترکہ طور پر پیش کیا ہے۔
ولی خان صاحب کا یہ ابتدائیہ ہماری نئی نسل کے لیے چشم کشا ہے۔ خان عبدالولی خان صاحب نے اس کتاب کے پیش لفظ میں کہا ہے:''خدائی خدمت گارتحریک نے وطن کے لیے اور فرنگی کی غلامی کا طو ق پھینکنے کے لیے باچا خان کی رہنمائی میں جو جدوجہد کی ہے، وہ ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ انگریزوں سے پہلے بھی مختلف حکمرانوں نے پختونوں کے علاقے پر یلغار کی تھی کیونکہ ہندوستان کی دولت کاچرچا پوری دنیا میں تھا۔
ہندوستان کی جغرافیائی حیثیت ایسی تھی کہ اس کے تین اطراف میں سمندر اور بالائی علاقوں میں اونچی پہاڑیوں کے دیوار تھی، اگر ان اونچی پہاڑیوں میں کہیں درے تھے تو ان میں پختون آباد تھے لہٰذا جو بھی فاتح آیا ماسوائے سکندر اعظم کے باقی تمام نے خیبر کا راستہ اختیار کیا ہے، اس طرح سے یہ علاقہ مختلف بادشاہوں کے دور میں بڑی اور بھاری سلطنتوں کا حصہ اور مختلف تہذیبوں اور تمدنوں کا گہوارہ تھا۔
فرنگی یہاں پہلی مرتبہ سمندر کے راستے آیا، وہ سمندر کا بادشاہ تھا،جس نے کلکتہ سے آغازکیا ۔ اس نے اپنی چالاکی و عیاری سے یہاں پنجے گاڑ دیے، مختلف قوموں کے درمیان سازشوں اور بد عہدی سے اپنی حیثیت منوائی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے آہستہ آہستہ ہندوستان پر بادشاہت کی تیاری شروع کردی، وہ بیسویں صدی کے صنعتی دور کی قوت سے باخبر تھا۔
دنیا میں ہندوستان کو سونے کی چڑیا کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، فرنگی یہ بات اچھی طرح جانتاتھا کہ ہندوستان سمندر کی طرف سے محفوظ ہے۔قطب کی جانب بھی پہاڑوں کا مضبوط قلعہ ہے لیکن ان میں اندر آنے کے راستے بھی ہیں جہاں پختون آباد ہیں۔ انگریز کی کوشش تھی اور وہ یہ جانتاتھا کہ جب تک ان دروں کو قابو نہ کیا جائے تو اس وقت تک ہندوستان کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ ان دروں کو قابو کرنے کے لیے جب اس نے پورے منطقے پر نظر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ دوسری کوئی ایسی قوت نہیں ہے جس سے ہندوستان میں فرنگی کی حکومت کو خطرہ درپیش ہو لیکن ایک بڑی عظیم قوت خشکی کے راستے خود کوآہستہ آہستہ قریب کررہی تھی 'وہ قوت زار روس کی حکومت تھی۔
زار روس کا راستہ روکنے کے لیے فرنگی نے پہلی مرتبہ سندھ ، بلوچستان اور قندھار کی طرف سے کابل پر چڑھائی کی تاکہ افغانستان کو فتح کرکے روس کا روستہ روکے لیکن یہاں فرنگی نے پہلی مرتبہ شکست کھائی۔ وہ شکست پر وہ ناراض تھا کیونکہ اب تک اس نے اپنے لیے یہ نام پیدا کیاتھا کہ پوری دنیا اور وسیع ہندوستان میں اسے کسی نے شکست نہیں دی تھی اور ہندوستان کے عوا م کو یہ باور کرایاتھا کہ فرنگی کو شکست دینا ناممکن ہے ۔ پختونوں نے اس ناممکن کو ممکن بنایا جس سے فرنگی بہت پریشان تھا ۔ اس کا اٹل فیصلہ تھا کہ جب تک میں پختونوں کو قابو نہ کرلوں تو چین کی نیند نہیں سو سکتا اور نہ ہی آرام سے بیٹھ کر ہندوستان کو کھاسکتا ہوں۔
فرنگی کو دوسرا جو مسئلہ در پیش تھا وہ ہندوستان کے اندر حکومت کی مضبوطی تھی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیاجاچکا ہے کہ فرنگی وہ پہلا فاتح تھا جو سمندر کے راستے آیاتھا۔ فرنگی نے جب جبل الطارق کو عبور کیا تو اس نے دیکھا کہ شمالی ا فریقہ تمام مسلمان ہیں اور دوسری جانب سمندر کے کنارے بلقان کی ریاستیں بھی مسلمانوں کی تھیں۔ اس پورے علاقے میں اسلام پھیلا ہواتھا یہاں تک کہ ہندوستان کی سرحد تک اور بڑا خطرہ یہ تھا کہ یورپ سے لے کر ایشیا تک ایک عظیم الشان قوت خلافت عثمانیہ کے نام سے حکمرانی کررہی تھی۔ اسی طرح ہندوستان کی حکومت بھی مغل مسلمانوں سے چھین لی گئی تھی، لہٰذا فرنگی کی سمجھ ، تجربہ اور نظر باز آنکھیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ جب تک مسلمانوں کی قوت ختم نہ کی جائے تو اس وقت تک وہ ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط نہیں کرسکتا۔
زار روس کی حکومت نے بھی آہستہ آہستہ ہندوستان کا رخ کرلیاتھا ۔ جب وہ وسطی ایشیا کے مسلمان ممالک تاشقند ، ثمر قند اور بخارا کو حلق کے نیچے اتار چکا تو فرنگی نے خود کو افغانستان کے راستے دریائے آمو تک پہنچایا اور آمو دریا کو سرحد بنایا۔فرنگی نے زار روس کو بتایا کہ آپ کے اور افغانستان کے درمیان دریائے آمو سرحد ہے۔اگر آپ نے اس سرحد کو پار کیا تو پھر افغانستان کے علاوہ میری بھی آپ سے جنگ ہوگی۔ اس وقت زار روس کا فرنگی پر فوجی بس نہیں چلتاتھا ،لہٰذاوہ دریا کے اس جانب بیٹھ گیا۔ اس طرف پختونوں نے فرنگی کو اپنی قوت دکھائی تھی۔
فرنگی افغانستان میں ٹھہر نہیں سکتاتھا لہٰذا اس نے جنگ کے بجائے سامراج کا مجرب نسخہ استعمال کیا ' پختونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ۔ بے بس افغانستان نے فرنگی سے شکست تسلیم کی۔ افغانستان کا کچھ حصہ بلوچستان میں شامل کیا ،کچھ علاقہ یاغستان بن گیا، کچھ آزاد علاقے،کچھ ایجنسی اور کچھ ریاستیں اپنے مطلب کے علاقے اور راستے اپنے قبضے میں لے لیے ۔ پختونوں کے علاقے کو باقی ہندوستان سے الگ رکھا تو دوسری جانب ہندوستان سے بھی علیحدہ رکھا کیونکہ فرنگی کی سلطنت کی سب سے اہم سرحد یہ تھی جس کا رخ روس کی جانب تھا ۔ فرنگی کو صرف اور صرف اس ایک طرف سے خطرہ ہوسکتا تھا، اسی لیے اس کا نام سرحد رکھا ۔ ویسے تو فرنگی کی بادشاہت کئی ملکوں پر پھیلی تھی، اور اس کی بیسیوںسرحدیں تھیں لیکن یہ انگریز کی اصلی اور غرضی سرحد تھی کیونکہ آنے کے تمام راستے اور درے یہاںتھے۔ان راستوں کو ایسا بند کیاگیا کہ وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کے تمام استے بھی بند ہوگئے ۔ فرنگی کے لیے تمام تجارت کا رخ سمندر کی طرف کیاگیا ۔
فرنگی جب زار روس اور پختونوں سے بے غم ہوگیا تو پھر اس نے اپنی پوری توجہ مسلمانوں کی عالمی قوت کی طرف دی۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کی خلافت عثمانیہ کو شکست دی اور اپنا بین الاقوامی سامراجی مجرب نسخہ مشرق وسطیٰ میں بھی استعمال کیا ۔ مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں بنائیں اور اس طرح کے تمام ملکوں کو اپنے قدموں میں بٹھادیا اور آرام سے سکھ کا سانس لیا کہ ہندوستان کو درپیش تمام خطرات ختم ہوگئے ہیںلیکن اس پہلی جنگ عظیم کے دوران روس میں انقلاب آیا' زار روس کی حکومت ختم ہوگئی اور ایک اشتراکی نظام نے سراٹھایا۔
پہلے تو فرنگی خوش ہوا کہ زار روس کی حکومت ختم ہونے سے ہندوستان خود بخود ہماری جھولی میں آگیا، فرنگی کا یہ پختہ یقین تھا کہ اس طرح کے عوامی انقلاب کامیاب نہیں ہوتے ۔ فرنگی کو پوری تسلی تھی کہ اس میں اگر تھوڑی بہت سانس چل بھی رہی ہے تو یہ بھی اس کے سربراہ لینن تک ہوگی اور جب اس کی آنکھیں بند ہوجائیں گی تو انقلاب اپنی موت آپ مر جائے گا لیکن لینن کے انتقال کے بعد اشتراکی انقلاب قائم رہا۔ فرنگی اور دیگر عالمی قوتوں کی سازشوں کا مقابلہ کیا اس کے بعد فرنگی واقعی فکر مند ہوئے کیونکہ اب آمو دریا صرف ایک جغرافیائی سرحد ہی نہیں بلکہ نظریاتی سرحد بھی بن گیا ۔یہ نظریاتی سرحد فرنگی کے لیے فوجی سے زیادہ خطرناک نظر آنے لگی لہٰذا فرنگی نے دوبارہ اپنی عقل' تعلیم اور تجربے کا استعمال کیا کہ اس نظریاتی قوت کا مقابلہ کس طرح کیا جائے ۔
آخر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اشتراکی نظریہ کا مقابلہ صرف اور صرف ایک نظریہ سے کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے اسلام ۔ فرنگی اس عجیب صورت حال میں پھنس گیا کہ وہ اسلام جسے فرنگی اپنی سلطنت کے لیے ایک عظیم خطرہ سمجھتا تھا جسے ختم کرنے کے لیے اس نے اپنا کتنا نقصان اور سازشیں کیں جس کے ذریعے مسلمانوں میں مکمل انتشار پیدا کردیا تھا آج وہ مجبور تھا کہ اس کو دوبارہ جمع کیا جائے ' اسے ایک قوت بنا کر اشتراکی نظام کے خلاف استعمال کیا جائے۔فرنگی نے یہ احتیاط ضرور کی کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ حقیقی اسلامی روح اب بھی اس کے لیے موت تھی۔ انگریز کو ایسے اسلام کی ضرورت تھی جو اس کے سامراجی مفادات کا تحفظ کرے، فرنگی کے پاس اشتراکی نظریہ کے مقابلے میں کوئی دوسر ا حل موجود نہیں تھا ۔
(جاری ہے )
چند دنوں پہلے تاریخ پبلی کیشنز کی شایع کی ہوئی دو جلدوں پر مشتمل خدائی خدمت گار تحریک سامنے آئی جسے احمد کاکا نے پشتو میں لکھا، قاسم جان نے اس کا ترجمہ کیا اور نامور سیاست دان خان عبدالولی خان نے اس کا پیش لفظ لکھا اور اب یہ معتبر کتاب کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے۔اسے انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ ریسرچ سینٹر کی جانب سے ڈاکٹر طارق سہیل اور ڈاکٹر جعفر احمد نے مشترکہ طور پر پیش کیا ہے۔
ولی خان صاحب کا یہ ابتدائیہ ہماری نئی نسل کے لیے چشم کشا ہے۔ خان عبدالولی خان صاحب نے اس کتاب کے پیش لفظ میں کہا ہے:''خدائی خدمت گارتحریک نے وطن کے لیے اور فرنگی کی غلامی کا طو ق پھینکنے کے لیے باچا خان کی رہنمائی میں جو جدوجہد کی ہے، وہ ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ انگریزوں سے پہلے بھی مختلف حکمرانوں نے پختونوں کے علاقے پر یلغار کی تھی کیونکہ ہندوستان کی دولت کاچرچا پوری دنیا میں تھا۔
ہندوستان کی جغرافیائی حیثیت ایسی تھی کہ اس کے تین اطراف میں سمندر اور بالائی علاقوں میں اونچی پہاڑیوں کے دیوار تھی، اگر ان اونچی پہاڑیوں میں کہیں درے تھے تو ان میں پختون آباد تھے لہٰذا جو بھی فاتح آیا ماسوائے سکندر اعظم کے باقی تمام نے خیبر کا راستہ اختیار کیا ہے، اس طرح سے یہ علاقہ مختلف بادشاہوں کے دور میں بڑی اور بھاری سلطنتوں کا حصہ اور مختلف تہذیبوں اور تمدنوں کا گہوارہ تھا۔
فرنگی یہاں پہلی مرتبہ سمندر کے راستے آیا، وہ سمندر کا بادشاہ تھا،جس نے کلکتہ سے آغازکیا ۔ اس نے اپنی چالاکی و عیاری سے یہاں پنجے گاڑ دیے، مختلف قوموں کے درمیان سازشوں اور بد عہدی سے اپنی حیثیت منوائی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے آہستہ آہستہ ہندوستان پر بادشاہت کی تیاری شروع کردی، وہ بیسویں صدی کے صنعتی دور کی قوت سے باخبر تھا۔
دنیا میں ہندوستان کو سونے کی چڑیا کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، فرنگی یہ بات اچھی طرح جانتاتھا کہ ہندوستان سمندر کی طرف سے محفوظ ہے۔قطب کی جانب بھی پہاڑوں کا مضبوط قلعہ ہے لیکن ان میں اندر آنے کے راستے بھی ہیں جہاں پختون آباد ہیں۔ انگریز کی کوشش تھی اور وہ یہ جانتاتھا کہ جب تک ان دروں کو قابو نہ کیا جائے تو اس وقت تک ہندوستان کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ ان دروں کو قابو کرنے کے لیے جب اس نے پورے منطقے پر نظر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ دوسری کوئی ایسی قوت نہیں ہے جس سے ہندوستان میں فرنگی کی حکومت کو خطرہ درپیش ہو لیکن ایک بڑی عظیم قوت خشکی کے راستے خود کوآہستہ آہستہ قریب کررہی تھی 'وہ قوت زار روس کی حکومت تھی۔
زار روس کا راستہ روکنے کے لیے فرنگی نے پہلی مرتبہ سندھ ، بلوچستان اور قندھار کی طرف سے کابل پر چڑھائی کی تاکہ افغانستان کو فتح کرکے روس کا روستہ روکے لیکن یہاں فرنگی نے پہلی مرتبہ شکست کھائی۔ وہ شکست پر وہ ناراض تھا کیونکہ اب تک اس نے اپنے لیے یہ نام پیدا کیاتھا کہ پوری دنیا اور وسیع ہندوستان میں اسے کسی نے شکست نہیں دی تھی اور ہندوستان کے عوا م کو یہ باور کرایاتھا کہ فرنگی کو شکست دینا ناممکن ہے ۔ پختونوں نے اس ناممکن کو ممکن بنایا جس سے فرنگی بہت پریشان تھا ۔ اس کا اٹل فیصلہ تھا کہ جب تک میں پختونوں کو قابو نہ کرلوں تو چین کی نیند نہیں سو سکتا اور نہ ہی آرام سے بیٹھ کر ہندوستان کو کھاسکتا ہوں۔
فرنگی کو دوسرا جو مسئلہ در پیش تھا وہ ہندوستان کے اندر حکومت کی مضبوطی تھی۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیاجاچکا ہے کہ فرنگی وہ پہلا فاتح تھا جو سمندر کے راستے آیاتھا۔ فرنگی نے جب جبل الطارق کو عبور کیا تو اس نے دیکھا کہ شمالی ا فریقہ تمام مسلمان ہیں اور دوسری جانب سمندر کے کنارے بلقان کی ریاستیں بھی مسلمانوں کی تھیں۔ اس پورے علاقے میں اسلام پھیلا ہواتھا یہاں تک کہ ہندوستان کی سرحد تک اور بڑا خطرہ یہ تھا کہ یورپ سے لے کر ایشیا تک ایک عظیم الشان قوت خلافت عثمانیہ کے نام سے حکمرانی کررہی تھی۔ اسی طرح ہندوستان کی حکومت بھی مغل مسلمانوں سے چھین لی گئی تھی، لہٰذا فرنگی کی سمجھ ، تجربہ اور نظر باز آنکھیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ جب تک مسلمانوں کی قوت ختم نہ کی جائے تو اس وقت تک وہ ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط نہیں کرسکتا۔
زار روس کی حکومت نے بھی آہستہ آہستہ ہندوستان کا رخ کرلیاتھا ۔ جب وہ وسطی ایشیا کے مسلمان ممالک تاشقند ، ثمر قند اور بخارا کو حلق کے نیچے اتار چکا تو فرنگی نے خود کو افغانستان کے راستے دریائے آمو تک پہنچایا اور آمو دریا کو سرحد بنایا۔فرنگی نے زار روس کو بتایا کہ آپ کے اور افغانستان کے درمیان دریائے آمو سرحد ہے۔اگر آپ نے اس سرحد کو پار کیا تو پھر افغانستان کے علاوہ میری بھی آپ سے جنگ ہوگی۔ اس وقت زار روس کا فرنگی پر فوجی بس نہیں چلتاتھا ،لہٰذاوہ دریا کے اس جانب بیٹھ گیا۔ اس طرف پختونوں نے فرنگی کو اپنی قوت دکھائی تھی۔
فرنگی افغانستان میں ٹھہر نہیں سکتاتھا لہٰذا اس نے جنگ کے بجائے سامراج کا مجرب نسخہ استعمال کیا ' پختونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ۔ بے بس افغانستان نے فرنگی سے شکست تسلیم کی۔ افغانستان کا کچھ حصہ بلوچستان میں شامل کیا ،کچھ علاقہ یاغستان بن گیا، کچھ آزاد علاقے،کچھ ایجنسی اور کچھ ریاستیں اپنے مطلب کے علاقے اور راستے اپنے قبضے میں لے لیے ۔ پختونوں کے علاقے کو باقی ہندوستان سے الگ رکھا تو دوسری جانب ہندوستان سے بھی علیحدہ رکھا کیونکہ فرنگی کی سلطنت کی سب سے اہم سرحد یہ تھی جس کا رخ روس کی جانب تھا ۔ فرنگی کو صرف اور صرف اس ایک طرف سے خطرہ ہوسکتا تھا، اسی لیے اس کا نام سرحد رکھا ۔ ویسے تو فرنگی کی بادشاہت کئی ملکوں پر پھیلی تھی، اور اس کی بیسیوںسرحدیں تھیں لیکن یہ انگریز کی اصلی اور غرضی سرحد تھی کیونکہ آنے کے تمام راستے اور درے یہاںتھے۔ان راستوں کو ایسا بند کیاگیا کہ وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کے تمام استے بھی بند ہوگئے ۔ فرنگی کے لیے تمام تجارت کا رخ سمندر کی طرف کیاگیا ۔
فرنگی جب زار روس اور پختونوں سے بے غم ہوگیا تو پھر اس نے اپنی پوری توجہ مسلمانوں کی عالمی قوت کی طرف دی۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکوں کی خلافت عثمانیہ کو شکست دی اور اپنا بین الاقوامی سامراجی مجرب نسخہ مشرق وسطیٰ میں بھی استعمال کیا ۔ مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں بنائیں اور اس طرح کے تمام ملکوں کو اپنے قدموں میں بٹھادیا اور آرام سے سکھ کا سانس لیا کہ ہندوستان کو درپیش تمام خطرات ختم ہوگئے ہیںلیکن اس پہلی جنگ عظیم کے دوران روس میں انقلاب آیا' زار روس کی حکومت ختم ہوگئی اور ایک اشتراکی نظام نے سراٹھایا۔
پہلے تو فرنگی خوش ہوا کہ زار روس کی حکومت ختم ہونے سے ہندوستان خود بخود ہماری جھولی میں آگیا، فرنگی کا یہ پختہ یقین تھا کہ اس طرح کے عوامی انقلاب کامیاب نہیں ہوتے ۔ فرنگی کو پوری تسلی تھی کہ اس میں اگر تھوڑی بہت سانس چل بھی رہی ہے تو یہ بھی اس کے سربراہ لینن تک ہوگی اور جب اس کی آنکھیں بند ہوجائیں گی تو انقلاب اپنی موت آپ مر جائے گا لیکن لینن کے انتقال کے بعد اشتراکی انقلاب قائم رہا۔ فرنگی اور دیگر عالمی قوتوں کی سازشوں کا مقابلہ کیا اس کے بعد فرنگی واقعی فکر مند ہوئے کیونکہ اب آمو دریا صرف ایک جغرافیائی سرحد ہی نہیں بلکہ نظریاتی سرحد بھی بن گیا ۔یہ نظریاتی سرحد فرنگی کے لیے فوجی سے زیادہ خطرناک نظر آنے لگی لہٰذا فرنگی نے دوبارہ اپنی عقل' تعلیم اور تجربے کا استعمال کیا کہ اس نظریاتی قوت کا مقابلہ کس طرح کیا جائے ۔
آخر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اشتراکی نظریہ کا مقابلہ صرف اور صرف ایک نظریہ سے کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے اسلام ۔ فرنگی اس عجیب صورت حال میں پھنس گیا کہ وہ اسلام جسے فرنگی اپنی سلطنت کے لیے ایک عظیم خطرہ سمجھتا تھا جسے ختم کرنے کے لیے اس نے اپنا کتنا نقصان اور سازشیں کیں جس کے ذریعے مسلمانوں میں مکمل انتشار پیدا کردیا تھا آج وہ مجبور تھا کہ اس کو دوبارہ جمع کیا جائے ' اسے ایک قوت بنا کر اشتراکی نظام کے خلاف استعمال کیا جائے۔فرنگی نے یہ احتیاط ضرور کی کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ حقیقی اسلامی روح اب بھی اس کے لیے موت تھی۔ انگریز کو ایسے اسلام کی ضرورت تھی جو اس کے سامراجی مفادات کا تحفظ کرے، فرنگی کے پاس اشتراکی نظریہ کے مقابلے میں کوئی دوسر ا حل موجود نہیں تھا ۔
(جاری ہے )