پردۂ زنگاری کا معشوق

سود خور یہودی صرف دولت کے پجاری ہوتے ہیں طاقت و قوت کے حامل نہیں



زیادہ پرانی نہیں پچھلے ہفتے کی بات ہے، اسرائیلی طیاروں نے غزہ کے مسلم رہنما اسماعیل ہنیہ کے گھر پر تاک کر حملہ کیا۔ اس میں ان کی بہن سمیت 13 افراد شہید ہوگئے جن میں چند ہنیہ کے عزیز تھے۔ مہینوں سے جاری اس جنگ کے لیے مغربی ممالک اپنی روایتی ڈپلومیسی کے تحت جنگ بندی کی اپیلیں کر چکے ہیں مگر اسرائیل پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔

کوئی مسلم ملک موثر آواز نہیں اٹھا رہا ہے اور بین الاقوامی جنگ بندی کی اپیلوں کی حمایت بھی پست آواز میں کررہے ہیں۔ ایسی پست آوازکو اسرائیل جیسا خوں خوار دشمن جس کے منہ کو خون لگا ہو اور جس کو بین الاقوامی ٹھیکہ داروں کی مسلح حمایت بھی حاصل بھلا کب خاطر میں لا سکتا ہے۔ البتہ وہ یہ تماشا کرتا رہتا ہے کہ غزہ پر ہوائی حملوں اور زمینی دہشت گردی کے بعد صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ زخمی میں جان باقی ہے یا وہ پوری طرح مر چکا ہے جنگ بندی کے لیے آمادگی کا اظہار کرتا ہے مگر جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ بقول اسرائیلی آرمی چیف '' حماس رفح میں باقی رہ گئی ہے مگر خاتمے کے قریب ہے'' اس خاتمے کے قریب حماس کے مکمل خاتمے کے لیے وہ جنگ بندی سے یوں پھر جاتا ہے جیسے غالب کا معشوق۔

در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا

جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا

اور اب وہ پھر غزہ کے اسکولوں میں معصوم بچوں تک پر بمباری سے گریز نہیں کر رہا۔

مسلم ممالک کی خاموشی اور بے حسی کو تو اب ساری دنیا نے محسوس بھی کر لیا ہے اور سمجھ بھی لیا ہے۔البتہ یہ عالمی امن و سلامتی کے ٹھیکے دار جو عالمی طاقتیں کہلاتی ہیں کیا اتنی صلاحیت کی بھی حامل نہیں وہ ایک چھوٹی سی یہودی '' ریاستیا'' سے اپنی بات منوا سکیں، وہ ان کی قراردادوں بلکہ درخواستوں کو حقارت سے ٹھکرا رہا ہے اور وہ دم بخود ہیں۔ کیا وہ کسی اور ملک کو اپنی مرضی کے خلاف ایسا رویہ اختیار کرنے دے سکتے ہیں، ہرگز نہیں۔ وہ ماضی میں افغانستان اور عراق اور دوسرے ممالک کو حکم عدولی کا سبق سکھانے کے لیے ان پر چڑھ دوڑے ہیں مگر اب وہ ایسے سہمے ہوئے ہیں جیسے اسرائیل جیسا ملک ان کا آقا ہو۔ اس رویے کے پیچھے یقیناً

کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں

اور یہ معشوق خود یہ '' عالمی حکمران'' ہیں ورنہ سود خور یہودی صرف دولت کے پجاری ہوتے ہیں طاقت و قوت کے حامل نہیں۔

خدا خدا کرکے جون کا مہینہ گزر گیا۔ موسمیات کے مطابق 15 جون سے مون سون ہواؤں کی ابتدا ہو جاتی ہے اور برصغیر کے بعض علاقوں میں تو 10 جون کو ہی بارش ہو جاتی ہے مگر اس سال جون کے اواخر تک بارش کا نام و نشان نہیں ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق 21 جون سے اواخر جون تک 567 لاشیں ایدھی سرد خانے میں لائی گئی ہیں۔ ان اموات کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی کیونکہ یہ سب کسی مہلک بیماری کے باعث ہلاک نہیں ہوئے، ان ہلاکتوں کی وجہ کچھ اور ہے جسے خبروں کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ منگل کو ہیٹ ویو کی شدت برقرار رہی، بلوچستان کی گرم ہوائیں کراچی کا رخ کرتی رہیں۔ سمندری ہوائیں بند رہیں اور ایک دن میں تقریباً 40 اموات واقع ہوئیں۔

غیر سرکاری طور پر '' عوامی حلقوں'' نے ان اموات کا سبب شدید گرمی اور اس پر مستزاد کراچی میں ہونے والی لوڈ شیڈنگ کو قرار دیا ہے۔ یہ بات تو بادی النظر میں ہی دکھائی دیتی ہے کہ آخر اتنی شدید گرمی میں ہمارے بجلی فراہم کرنے والے اداروں کو کیا ہو جاتا ہے کہ دس دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جاری رہتی ہے۔ ہر تین گھنٹے بعد دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ معمول ہے۔ آخر کیا ان کو نہیں معلوم کہ گرمی میں بجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے، اس لیے وہ رسد کا مناسب بندوبست کریں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے سبب ہونے والی اموات پر مخلوق خدا جب چلا اٹھی تو صوبائی وزیر داخلہ نے کے الیکٹرک کی غفلت کو جانتے ہوئے عوام کو ڈھارس بندھائی کہ اگر ہلاکتوں کی وجہ لوڈ شیڈنگ نکلی تو کے الیکٹرک پر مقدمات ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ تحقیقات کے بعد کے الیکٹرک نہیں نکلے گی۔

جتنی بڑی تعداد میں گرمی سے اموات واقع ہوئی ہیں اگر کسی مہذب ملک میں ہوتیں تو ذمے داران کو یقینی طور پر سزا دی جاتی مگر ہمارے ہاں ذمے داری کا تعین کرنے کی روایت ہی نہیں، اس لیے کسی کو بھی سزا نہ دی جائے گی اور مرنے والے '' بے موت مرنے والے'' قرار پائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں