پاکستان ایک نظر میں انقلابی سیاست اور ہمارے گلو بٹ

یہاں ہر شخص اپنے اپنے حصے کے شیشے توڑتا ہے،اپنے اپنے حصے کی مار کھاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔


شاہد اقبال June 28, 2014
یہاں ہر شخص اپنے اپنے حصے کے شیشے توڑتاہے،اپنے اپنے حصے کی مار کھاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ فوٹو فائل

KARACHI: روایت پرست پاکستانی عوام نے طاہر القادری کے نعرہِ انقلاب کو جس سنجیدگی سے لیا ، اس کا اندازہ گلو بٹ کی روز افزوں مقبولیت سے کیا جا سکتا ہے ۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر گلو کے جارحانہ انداز پر بنائے گئے سینکڑوں لطائف اگرچہ صرف تفننِ طبع کے لیے شئیر کیے جارہے ہیں لیکن ان سے قادری صاحب کے انقلاب کی شان میں جو پے در پے گستاخیاں سرزد ہو رہی ہیں وہ قابلِ افسوس ہیں۔ انقلاب چاہے کینیڈا سے بزنس کلاس میں ہی سفر کر کے کیوں نہ آئے اس کی تضحیک انقلاب پسند قوم کا شیوہ نہیں ہو نا چاہیے۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں کہ گلو بٹ جس نے گلی محلوں کے بے قابو لفنگوں اور پنجابی فلموں کے بے مغز ہیرو کی طرح ادارہ منہاج القران کے سامنے کھڑی گاڑیوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنایاکیوں کر عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ لوگ ماڈل ٹاؤن سانحے میں مرنے والے مظلوموں کو بھول کر اس مضحکہ خیز کردار کے مناقب گننے میں مگن ہیں!

حال ہی میں گلو بٹ کے' مثالی' کردار کو سامنے رکھ کر ایک مو بائل گیم ''گلو'' بنائی گئی ہے۔ جس میں کھیلنے والوں کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ گاڑیوں کے شیشے توڑ کر اپنے اندر چھپے 'گلو' کے تخریبانہ جذبات کی تسکین کر سکیں ۔ دو چار دنوں میں ہی اس گیم کی حیران کن مقبولیت نے ہمارے انقلاب پسندوں کی نیندیں بڑی حد تک اڑادی ہیں۔



گلو بٹ جیسے معاشرے کے منفی کردار کی مقبولیت کی دو ہی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول یہ کہ ہمارا تناؤ زدہ معاشرہ روزمرہ کی ان گنت فرسٹریشنزسے بچنے کے لیے اپنے اوپر غیر سنجیدگی کا ایک ایسا خول چڑھا چکا ہے ،جہاں سے یہ خود پرہنس کر اپنے غم غلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ لامتناہی مسائل کے گرداب میں پھنسے معاشرے کے افراد کو جب ان مسائل سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو وہ خود مدافعاتی نظام کے تحت ان سے آنکھیں چرانا شروع کر دیتے ہیں اور ایک ایسے مصنوعی ماحول میں جینے لگتے ہیں جہاں وہ غیر اہم مسائل کو سنجیدگی سے اور اہم مسائل کو غیر سنجیدگی سے برتنا شروع کر دیتے ہیں۔

گلو بٹ کی تخریب کارانہ مہارت جس سانحے کے نتیجے میں طشت از بام ہوئی وہ 8 افراد کے خون سے رنگین ہے لیکن بدقسمتی سے گلو بٹ کے لیے لگائے گئے قہقہے ان آنسوؤں سے کہیں زیادہ ہیں جو اس سانحے کے مظلومین کے لیے بہائے گئے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ جذباتی عدم توازن کا شکار ہو کر آنسوؤں اور قہقوؤں کے درمیان امتیاز بھول چکا ہے۔



گلو بٹ کی پذیرائی کی دوسری ممکنہ وجہ جعلی انقلابیوں سے پاکستانی قوم کی نفرت ہے ۔جہاں قادری صاحب کے چاہنے والوں کے نزدیک قادری صاحب کی انقلابی نیت پہ شک کرنا کفر ہے وہیں پاکستانی عوام کا ایک بہت بڑا حصہ ان کے نعرہ انقلاب کو ایک پرفریب ڈھونگ سمجھتا ہے جو قادری صاحب کے خوابوں ہی کی طرح نقلی ہے۔پاکستان میں لفظ انقلاب کو بائیں بازو کے سرخوں سے لے کر دائیں بازو کے اسلام پسندوں تک نے جس طرح اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال بلکہ پامال کیا اس سے اس کی حرمت جاتی رہی ہے۔ اب انقلاب ہوسِ اقتدار کے مہذبانہ اظہار کا ایک ذریعہ بن چکا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ موجودہ نظامِ انتخاب سے قادری صاحب کبھی بھی اقتدار کی لیلیٰ تک نہیں پہنچ سکتے اس لیے انقلاب ہی ان کا متبادل چانس ہے جسے وہ عوام کے کندھوں پر چڑھ کر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ بے روزگاری، بدامنی ، بھوک اور افلاس کے عذاب سہنا تو پاکستانی عوام اپنا ازلی مقدر سمجھ کر برداشت کر چکے ہیں لیکن انہیں یہ قبول نہیں کہ کوئی اُن کی اِن دکھتی رگوں کو پکڑ کر انقلاب کے نام پر ان کا استحصال کرے۔

قادری صاحب کے ماضی و حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے انقلاب کو جھانسا سمجھنے والوں کو گلو بٹ کی صورت میں ایک ایسا کردار ہاتھ آیا ہے جو قادری صاحب کے نام نہاد انقلاب کا تیاپانچہ کر سکتا ہے۔



یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ہمارا معاشرہ دین ودنیا ہر دو کے معاملات میں افراط و تفریط کا شکا ر ہے. ہم وہ قوم ہیں ٹریجٖیڈیاں جن کو ہنساتی اور کامیڈی جن کو رنجیدہ کر دیتی ہے۔ ہم وہ مسافر جن کی منزل غیر متعین ہے اس لیے راہ میں کھڑا ہر مداری ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ قادری صاحب اور ان کا انقلاب ہماری معاشرتی بے چینی اور خلفشار کا جیتا جاگتا اظہار ہیں ۔ شیکسپئیر کے مشہور زمانہ مقولے کو اگر موجدہ حالات پر منطبق کیا جائے تو ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ ایک ماڈل ٹاؤن ہے اور ہم سب گلوبٹ ہیں۔ یہاں ہر شخص اپنے اپنے حصے کے شیشے توڑتاہے،اپنے اپنے حصے کی مار کھاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ جب تک ن لیگوں اور پیپلز پارٹیوں کی سیاست زندہ ہے اور جب تک قادری صاحب جیسے انقلابی موجود ہیں گلو بٹ آتے رہیں گے اور ہمارے معاشرے کا تمسخر اڑواتے رہیں گے!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں