یہ گھیراؤ کیوں
اس کے برعکس ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ نفرت کے دیے جلا کر ہم لوگوں کو خود سے دور کر رہے ہیں
مخدومی عطا الحق قاسمی نے یاد دلایا ہے کہ جناب مجیب الرحمن شامی کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت ہے اور وہ ہماری توجہ کے منتظر ہیں۔ ایک تحقیقی مقالہ لکھتے ہوئے میرے پیش نظر سوال تھا کہ 1977 میں انتخابی دھاندلی کے الزام کے تحت چلنے والی سیاسی تحریک نظریاتی تحریک میں کیسے بدلی؟ بہت سارے اخبارات کھنگالنے اور اس تحریک کو دیکھنے اور اس میں حصہ لینے والی شخصیات سے بات چیت کے بعد خبر ہوئی کہ اس واقعے کا تعلق اس دن سے ہے جس دن 1977 کی تند و تیز تحریک کا آغاز ہوا۔
واقعہ بڑا دلچسپ ہے جس روز 1977 کی تحریک کا پہلا جلوس نکلنا تھا، میجر سعید ٹوانہ شامی صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ قومی اتحاد کے راہ نما اپنے گلے میں قرآن حکیم حمائل کر کے نکلیں تو تحریک کو توانائی مل جائے گی۔ یہ بات شامی صاحب کے دل کو لگی اور وہ ایئر مارشل اصغر خان کے پاس پہنچ گئے۔
جنھوں نے لاہور میں پہلے جلوس کی قیادت کرنی تھی۔ شامی صاحب نے یہ تجویز پیش کی تو اصغر خان مرحوم نے کچھ دیر غور کیا پھر اس کی اجازت دے دی۔ تحریک کا پہلا جلوس لاہور کی تاریخی مسجد نیلا گنبد سے نکلنا تھا۔ اصغر خان نے جیسے ہی مسجد سے باہر قدم نکالا، ایک روایت کے مطابق شامی صاحب نے آگے بڑھ کر قرآن حکیم ان کے گلے میں ہار کی طرح ڈال دیا۔
یہ واقعہ رجحان ساز ثابت ہوا۔ اس کے بعد قومی اتحاد کا جو راہ نما اور کارکن گرفتاری دینے کے لیے نکلا، قرآن کریم گلے میں ڈال کر نکلا۔ یہ بنیادی واقعہ تھا جس نے سیاسی تحریک کو تحریک نظام مصطفی میں تبدیل کر دیا۔ شامی صاحب نے یہ کام کیوں کیا تھا؟ یہ سوال مجھے ان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ چند برس ہوتے ہیں شامی صاحب کراچی تشریف لائے اور اپنے بھائی جناب ضیا الرحمن شامی مرحوم کے گھر میں قیام کیا۔
انھیں خبر ہوئی کہ میں ان دنوں بے روزگار ہوں تو انھوں نے بڑی محبت سے مجھے بلایا اور میرے روزگار کے سلسلے میں کچھ قیمتی مشورے دیے اور جو کچھ ہو سکتا تھا، کیا لیکن اس کے ساتھ ایک نصیحت بھی فرمائی، کہا کہ درود شریف کثرت کے ساتھ پڑھا کرو۔
شامی صاحب کو میں اس ملاقات سے جانتا ہوں اور نہ 1977 کی تحریک کے رجحان ساز کردار سے بلکہ میں انھیں اس سے بھی بہت پہلے جب ابھی پانچویں چھٹی جماعت کا طالب تھا، جانتا تھا۔ ہمارے شہر سرگودھا میں ایک مجلس اقبال ہوا کرتی تھی جس کے روح رواں چودھری محمد اکبر چیمہ ایڈوکیٹ، چودھری فضل الہٰی ایڈووکیٹ اور ملک علی محمد فاروق ایڈوکیٹ تھے۔ یہ بھٹو صاحب کا زمانہ تھا جب شامی صاحب، جناب الطاف حسن قریشی اور جناب اعجاز حسن قریشی کو گرفتار کیا گیا۔ ان کی رہائی پر مجلس اقبال نے ایک جلسہ منعقد کیا۔ جلسے میں شہر والے جوق در جوق آئے۔ لوگ ان ہیروز کو دیکھنا چاہتے تھے جو مارشل لا عدالت کو تسلیم نہیں کرتے اور بھری عدالت میں مارشل لا مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔
واقعہ یہ تھا کہ بھٹو صاحب نے مارشل لا کے تحت حلف اٹھا کر اپنے مزاج کے مطابق حکومت شروع کی تو پانچ صحافی تھے جنھوں نے ان پر تنقید کی۔ شامی صاحب ان میں نمایاں ترین تھے جس پر انھیں گرفتار کر کے فوجی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں انھوں نے بیان دیا کہ وہ نہ مارشل لا کو مانتے ہیں اور نہ فوجی عدالت کو۔ یہ اسی عدالت کا واقعہ ہے جس میں انھوں نے اپنی جیب سے سگریٹ نکالا یا آس پاس بیٹھے کسی شخص سے سیگریٹ لے کر اسے بھری عدالت میں سلگا لیا۔
عدالت کی سربراہی کوئی حاضر سروس فوجی کر رہے تھے۔ انھوں نے شامی صاحب سے کہا کہ آپ توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ شامی صاحب نے کہا کہ میں تو اس جگہ کو عدالت مانتا ہی نہیں اور نہ مارشل لا کو مانتا ہوں۔ فوجی عدالت کے جج نے کہا کہ آپ کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر سزا سنا دی جائے گی جس پر شامی صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ جو جی میں آئے کر لیجیے۔ اس کے بعد انھوں نے عدالت کے اندر نعرہ لگایا:
' مارشل لا مردہ باد'
ان کے نعرے میں شورش کاشمیری، الطاف حسن قریشی، اعجاز حسن قریشی اور پنجاب پنچ کے ایڈیٹر حسین نقی صاحب بھی شریک ہو گئے۔
یہ میرے کچھ زیادہ بچپن کی بات ہے لیکن اس کے دو تین برس کے بعد یعنی 1974 میں؛ میں ساتویں یا آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا جب تحریک ختم نبوت چلی۔ وہ زمانہ اخبارات پر پابندی اور سنسر شپ کا تھا لیکن اس سختی کے زمانے میں بھی ایک ہفت روزہ ایسا تھا جس نے اس مقبول عوامی تحریک کو زبان دے دی۔ یہ ہفت روزہ ' زندگی' تھا جس کے ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی تھے۔ ان واقعات سے میری سمجھ میں آیا کہ مجیب الرحمن شامی ایک ایسے فرد ہیں جن کے دل میں حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجزن ہے اور اسی محبت سے ملنے والی توانائی ہے جو انھیں ہر جبر اور ہر ظلم کے سامنے سینہ سپر کر دیتی ہے۔ لاریب مجیب الرحمن شامی ایک بہادر آدمی ہیں جن کے قلم سے لکھی ہوئی ہر سرخی اور ہر جملہ پاکستان کی قومی تحریکوں کا نعرہ بن گیا۔
کیا سبب ہے کہ آج ایک ایسے شخص کا گھیراؤ کیا جا رہا ہے جو بہادر ہے جو قوم کی امنگوں اور آزروں کو زبان دیتا رہا ہے اور کوئی شبہ نہیں کہ آج بھی اس کے عقیدے، جذبے، خیالات اور نظریات میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ایسی کیا قیامت برپا ہوئی ہے کہ انھیں اپنے عقیدے اور ایمان کے بارے میں صفائی پیش کرنی پڑ رہی ہے؟ اس سوال کا جواب زیادہ مشکل تو نہیں لیکن زبان پر لانا اتنا آسان بھی نہیں۔ بات یہ ہے کہ مشاہدہ اور تجربہ دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کے دل و دماغ میں روشنی پیدا کرتی ہیں اور فہم و فراست کو جلا بخش کر تجزیہ کرنے اور اس کی روشنی میں نتیجے پر پہنچنے کی اہلیت پیدا کرتی ہیں۔
ہمارے آج کا مسئلہ کیا ہے؟ ہمارے آج کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں برداشت کا مادہ قریب قریب ختم ہو گیا ہے۔ ہمارے اختلاف کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ مکالمہ کریں یا دلیل کا سہارا لیں، ہم یہ کام اب دیا سلائی سے کرتے ہیں یا لاٹھی گولی سے کام لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں اختلاف کا مطلب رائے کا اختلاف نہیں بلکہ زندگی کا حق محدود کر دینا ہے۔ راہ حق سے بھٹکے ہوئے شخص یا طبقے کے لیے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہمدردی اور درد مندی نہیں بلکہ اس کا بنیادی حق چھین لینا ہے۔
مطالبہ ہے کہ کوئی ہمارے قانون کو تسلیم کیوں نہیں کرتا۔ بھائی اگر اس نے قانون کو تسلیم کرنا ہے تو پھر وہ اپنی رائے پر قائم ہی کیوں رہے، راہ حق پر کیوں نہ آ جائے؟اللہ نے جس شخص کو روشنی دی ہی نہیں، اس سے ایک درست قانون کو تسلیم کرانے کا مطالبہ کیسا؟ کون لوگ اس طرز عمل کے ذمے دار ہیں اور کون نہیں ہیں؟ اس بحث سے قطع نظر سانحہ یہ ہوا ہے اس عارضے نے ہمارے جسد ملی کو تاش کے پتوں کی طرح بکھیر کر رکھ دیا ہے اور کمزور اس قدر کر دیا ہے کہ ہمارا جسد قومی ذرا ذرا سی بات پر پتے کی طرح کانپنے لگتا ہے۔
اس ضعف کا علاج تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے اور تعلیمات نبویۖ یہ ہیں کہ برے سے نہیں برائی سے پناہ مانگو اور برے کو اپنے حسن سلوک سے راہ راست پر لاؤ۔ اس کے برعکس ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ نفرت کے دیے جلا کر ہم لوگوں کو خود سے دور کر رہے ہیں۔ حضرت علی ہجویری علیہ رحمہ نے کشف المحجوب میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ لکھا ہے جس کے مطابق کوئی بدو آپ کے در دولت پر آیا اور بدزبانی کرنے لگا۔ آپ گھر کے اندر تشریف لے گئے اور بہت سی اشرفیاں لاکر اسے بخش دیں اور فرمایا کہ اے میرے عزیز! اس وقت یہی میسر تھا، زیادہ ہوتا تو وہ بھی پیش کر دیتا۔ اس حسن سلوک نے بدو کا دل بدل دیا۔ کہنے لگا کہ واقعی آپ اولاد رسول ہیں، کوئی اور ہوتا تو میری تکہ بوٹی کر دیتا۔کیا حضرت امام حسن کا اسوہ ہمارے لیے مشعل راہ نہیں ہے؟
واقعہ بڑا دلچسپ ہے جس روز 1977 کی تحریک کا پہلا جلوس نکلنا تھا، میجر سعید ٹوانہ شامی صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ قومی اتحاد کے راہ نما اپنے گلے میں قرآن حکیم حمائل کر کے نکلیں تو تحریک کو توانائی مل جائے گی۔ یہ بات شامی صاحب کے دل کو لگی اور وہ ایئر مارشل اصغر خان کے پاس پہنچ گئے۔
جنھوں نے لاہور میں پہلے جلوس کی قیادت کرنی تھی۔ شامی صاحب نے یہ تجویز پیش کی تو اصغر خان مرحوم نے کچھ دیر غور کیا پھر اس کی اجازت دے دی۔ تحریک کا پہلا جلوس لاہور کی تاریخی مسجد نیلا گنبد سے نکلنا تھا۔ اصغر خان نے جیسے ہی مسجد سے باہر قدم نکالا، ایک روایت کے مطابق شامی صاحب نے آگے بڑھ کر قرآن حکیم ان کے گلے میں ہار کی طرح ڈال دیا۔
یہ واقعہ رجحان ساز ثابت ہوا۔ اس کے بعد قومی اتحاد کا جو راہ نما اور کارکن گرفتاری دینے کے لیے نکلا، قرآن کریم گلے میں ڈال کر نکلا۔ یہ بنیادی واقعہ تھا جس نے سیاسی تحریک کو تحریک نظام مصطفی میں تبدیل کر دیا۔ شامی صاحب نے یہ کام کیوں کیا تھا؟ یہ سوال مجھے ان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ چند برس ہوتے ہیں شامی صاحب کراچی تشریف لائے اور اپنے بھائی جناب ضیا الرحمن شامی مرحوم کے گھر میں قیام کیا۔
انھیں خبر ہوئی کہ میں ان دنوں بے روزگار ہوں تو انھوں نے بڑی محبت سے مجھے بلایا اور میرے روزگار کے سلسلے میں کچھ قیمتی مشورے دیے اور جو کچھ ہو سکتا تھا، کیا لیکن اس کے ساتھ ایک نصیحت بھی فرمائی، کہا کہ درود شریف کثرت کے ساتھ پڑھا کرو۔
شامی صاحب کو میں اس ملاقات سے جانتا ہوں اور نہ 1977 کی تحریک کے رجحان ساز کردار سے بلکہ میں انھیں اس سے بھی بہت پہلے جب ابھی پانچویں چھٹی جماعت کا طالب تھا، جانتا تھا۔ ہمارے شہر سرگودھا میں ایک مجلس اقبال ہوا کرتی تھی جس کے روح رواں چودھری محمد اکبر چیمہ ایڈوکیٹ، چودھری فضل الہٰی ایڈووکیٹ اور ملک علی محمد فاروق ایڈوکیٹ تھے۔ یہ بھٹو صاحب کا زمانہ تھا جب شامی صاحب، جناب الطاف حسن قریشی اور جناب اعجاز حسن قریشی کو گرفتار کیا گیا۔ ان کی رہائی پر مجلس اقبال نے ایک جلسہ منعقد کیا۔ جلسے میں شہر والے جوق در جوق آئے۔ لوگ ان ہیروز کو دیکھنا چاہتے تھے جو مارشل لا عدالت کو تسلیم نہیں کرتے اور بھری عدالت میں مارشل لا مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔
واقعہ یہ تھا کہ بھٹو صاحب نے مارشل لا کے تحت حلف اٹھا کر اپنے مزاج کے مطابق حکومت شروع کی تو پانچ صحافی تھے جنھوں نے ان پر تنقید کی۔ شامی صاحب ان میں نمایاں ترین تھے جس پر انھیں گرفتار کر کے فوجی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں انھوں نے بیان دیا کہ وہ نہ مارشل لا کو مانتے ہیں اور نہ فوجی عدالت کو۔ یہ اسی عدالت کا واقعہ ہے جس میں انھوں نے اپنی جیب سے سگریٹ نکالا یا آس پاس بیٹھے کسی شخص سے سیگریٹ لے کر اسے بھری عدالت میں سلگا لیا۔
عدالت کی سربراہی کوئی حاضر سروس فوجی کر رہے تھے۔ انھوں نے شامی صاحب سے کہا کہ آپ توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ شامی صاحب نے کہا کہ میں تو اس جگہ کو عدالت مانتا ہی نہیں اور نہ مارشل لا کو مانتا ہوں۔ فوجی عدالت کے جج نے کہا کہ آپ کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر سزا سنا دی جائے گی جس پر شامی صاحب نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ جو جی میں آئے کر لیجیے۔ اس کے بعد انھوں نے عدالت کے اندر نعرہ لگایا:
' مارشل لا مردہ باد'
ان کے نعرے میں شورش کاشمیری، الطاف حسن قریشی، اعجاز حسن قریشی اور پنجاب پنچ کے ایڈیٹر حسین نقی صاحب بھی شریک ہو گئے۔
یہ میرے کچھ زیادہ بچپن کی بات ہے لیکن اس کے دو تین برس کے بعد یعنی 1974 میں؛ میں ساتویں یا آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا جب تحریک ختم نبوت چلی۔ وہ زمانہ اخبارات پر پابندی اور سنسر شپ کا تھا لیکن اس سختی کے زمانے میں بھی ایک ہفت روزہ ایسا تھا جس نے اس مقبول عوامی تحریک کو زبان دے دی۔ یہ ہفت روزہ ' زندگی' تھا جس کے ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی تھے۔ ان واقعات سے میری سمجھ میں آیا کہ مجیب الرحمن شامی ایک ایسے فرد ہیں جن کے دل میں حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجزن ہے اور اسی محبت سے ملنے والی توانائی ہے جو انھیں ہر جبر اور ہر ظلم کے سامنے سینہ سپر کر دیتی ہے۔ لاریب مجیب الرحمن شامی ایک بہادر آدمی ہیں جن کے قلم سے لکھی ہوئی ہر سرخی اور ہر جملہ پاکستان کی قومی تحریکوں کا نعرہ بن گیا۔
کیا سبب ہے کہ آج ایک ایسے شخص کا گھیراؤ کیا جا رہا ہے جو بہادر ہے جو قوم کی امنگوں اور آزروں کو زبان دیتا رہا ہے اور کوئی شبہ نہیں کہ آج بھی اس کے عقیدے، جذبے، خیالات اور نظریات میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ایسی کیا قیامت برپا ہوئی ہے کہ انھیں اپنے عقیدے اور ایمان کے بارے میں صفائی پیش کرنی پڑ رہی ہے؟ اس سوال کا جواب زیادہ مشکل تو نہیں لیکن زبان پر لانا اتنا آسان بھی نہیں۔ بات یہ ہے کہ مشاہدہ اور تجربہ دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کے دل و دماغ میں روشنی پیدا کرتی ہیں اور فہم و فراست کو جلا بخش کر تجزیہ کرنے اور اس کی روشنی میں نتیجے پر پہنچنے کی اہلیت پیدا کرتی ہیں۔
ہمارے آج کا مسئلہ کیا ہے؟ ہمارے آج کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں برداشت کا مادہ قریب قریب ختم ہو گیا ہے۔ ہمارے اختلاف کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ مکالمہ کریں یا دلیل کا سہارا لیں، ہم یہ کام اب دیا سلائی سے کرتے ہیں یا لاٹھی گولی سے کام لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں اختلاف کا مطلب رائے کا اختلاف نہیں بلکہ زندگی کا حق محدود کر دینا ہے۔ راہ حق سے بھٹکے ہوئے شخص یا طبقے کے لیے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہمدردی اور درد مندی نہیں بلکہ اس کا بنیادی حق چھین لینا ہے۔
مطالبہ ہے کہ کوئی ہمارے قانون کو تسلیم کیوں نہیں کرتا۔ بھائی اگر اس نے قانون کو تسلیم کرنا ہے تو پھر وہ اپنی رائے پر قائم ہی کیوں رہے، راہ حق پر کیوں نہ آ جائے؟اللہ نے جس شخص کو روشنی دی ہی نہیں، اس سے ایک درست قانون کو تسلیم کرانے کا مطالبہ کیسا؟ کون لوگ اس طرز عمل کے ذمے دار ہیں اور کون نہیں ہیں؟ اس بحث سے قطع نظر سانحہ یہ ہوا ہے اس عارضے نے ہمارے جسد ملی کو تاش کے پتوں کی طرح بکھیر کر رکھ دیا ہے اور کمزور اس قدر کر دیا ہے کہ ہمارا جسد قومی ذرا ذرا سی بات پر پتے کی طرح کانپنے لگتا ہے۔
اس ضعف کا علاج تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے اور تعلیمات نبویۖ یہ ہیں کہ برے سے نہیں برائی سے پناہ مانگو اور برے کو اپنے حسن سلوک سے راہ راست پر لاؤ۔ اس کے برعکس ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ نفرت کے دیے جلا کر ہم لوگوں کو خود سے دور کر رہے ہیں۔ حضرت علی ہجویری علیہ رحمہ نے کشف المحجوب میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ لکھا ہے جس کے مطابق کوئی بدو آپ کے در دولت پر آیا اور بدزبانی کرنے لگا۔ آپ گھر کے اندر تشریف لے گئے اور بہت سی اشرفیاں لاکر اسے بخش دیں اور فرمایا کہ اے میرے عزیز! اس وقت یہی میسر تھا، زیادہ ہوتا تو وہ بھی پیش کر دیتا۔ اس حسن سلوک نے بدو کا دل بدل دیا۔ کہنے لگا کہ واقعی آپ اولاد رسول ہیں، کوئی اور ہوتا تو میری تکہ بوٹی کر دیتا۔کیا حضرت امام حسن کا اسوہ ہمارے لیے مشعل راہ نہیں ہے؟