غرناطہ سے مسلمان ختم کر دئیے لیکن ان کی یادگاریں روزگار کا ذریعہ ہیں

اُندلس کے آخری مسلمان حکمران بنو نصر کی عدالت کے باہر لکھا ہے ’’ آئیے بے خوف و خطر یہاں داخل ہوں


عاطف ملک July 07, 2024
جب بنو نصر نے اپنے محل میں ہتھیار ڈالے تو فاتح چارلس ہفتم نے الحمراء محل کو دیکھ کر کہا تھا ’’ اتنی خوبصورتی کو چھوڑنے والا افسردہ ہی رہے گا‘‘ اسپین کے دلچسپ سفرنامے کی آخری قسط ۔ فوٹو : فائل

آخری قسط

ہم وضوگاہ کے کھنڈر سے نکلے اور مسجد کی جگہ پر کھڑے چرچ کے ساتھ سے گذرتے چارلس پنجم یا ہسپانوی میں کارلوس پنجم کے محل کے سامنے تھے۔ چارلس پنجم سولہویں صدی میں آسٹریا کا حکمران تھا جو1519عیسوی میں فرانسیسی بادشاہ کے مقابلے میں کیتھولک رومن حکمران منتخب ہوا تھا۔

اس کی سلطنت جرمنی سے جنوبی اٹلی، بلجیم، ہالینڈ، لگسم برگ، سپین اور شمالی اٹلی کے علاقوں سسلی اور نیپلز پر مشتمل تھی۔ 1526 عیسوی میں چارلس نے اشبیلیہ میں پرتگال کے حکمران خاندان کی ازابیلا سے شادی کی اور الحمرا میں اپنے لیے ایک محل کی تعمیر شروع کی۔ الحمرا کی مسجد کو مسمار کرکے چرچ اور دوسری عمارات کو ڈھا کر محل کی جگہ بنائی گئی۔ یہ محل ان کی زندگیوں میں مکمل نہیں ہوا بلکہ بیسویں صدی تک بغیر چھت کے تھا۔ محل کی درمیانی جگہ کھلی ہے جس کے گرد دو منزلہ برآمدے ہیں۔

برآمدوں میں جا بجا ستون ہیں۔ اس محل کے ایک حصے میں اب الحمرا کا عجائب گھر قائم ہے جس میں الحمرا کی تاریخ، عمارت کے نقش و نگار اور مسلم تہذیب کی یادگاریں جمع کی گئی ہیں۔ ہم نے اس عجائب گھر میں بڑے ذوق و شوق سے وقت گذارا۔ اس سے گذر کر ہم الحمرا میں واقعہ قلعہ کی جانب گئے جسے القضبہ کہا جاتا ہے۔ جب 1238 عیسوی میں ابو عبداللہ محمد ابن یوسف ابن نصر نے غرناطہ میں حکمرانی حاصل کی تھی تو اس نے البسین میں واقع پرانے قلعے کی بجائے ثبیکہ کے پہاڑ پر قلعہ بنوانے کا فیصلہ کیا، سو یہ فصیل دار قلعہ الحمرا محل کے تعمیر شدہ علاقے کی سب سے پہلی تعمیر ہے۔ یہ قلعہ غرناطہ شہر سے دو سو میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ تکون کی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے اور الحمرا کی باقی علاقے کی طرح اس کی دو فصیلیں؛ ایک اندرونی اور ایک بیرونی ہیں۔

یہ عام حالات میں راستے کے لیے اور جنگ کی حالت میں پانی کی رکاوٹ کے طور پر استعمال ہوتی تھیں۔ ان فصیلوں پر حفاظتی برج تھے۔ اس قلعے کے درمیان فوجی چھاونی تھی۔ اس کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔ ان کھنڈرات کی رہائش گاہ میں داخل ہوں تو صحن اور اس کے گرد تین سے چار کمرے اور ایک بیت الخلا موجود ہے۔ ایک گھر دوسرے گھروں سے تین چار گنا بڑا ہے اور اس کے بیچ میں ایک حوض ہے۔ یہ غالباً کسی فوجی سردار کی رہائش ہوگی۔ شمالی جانب قلعہ کا مرکزی درازہ تھا جس سے البسین سے آنے والے لوگ داخل ہوکر الحمرا جاتے تھے۔ اس کے ساتھ اصطبل تھے جہاں ملاقاتی اپنے گھوڑے کھڑے کرتے تھے اور اپنا اسلحہ محافظوں کے حوالے کر کے محل میں داخل ہوتے تھے۔ قلعے کے ایک جانب ایک خوبصورت باغ تھا۔ یہ قلعہ قدرتی طور پر بہت محفوظ تھا اور کبھی بھی اس پر فتح نہیں پائی گئی۔ غرناطہ کی 1492 عیسوی میں شکست میں بھی اس قلعہ پر فتح نہیں حاصل ہوئی تھی مگر مسلم حکمران ابو عبداللہ محمد نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔



القضبہ میں کئی برج ہیں، ان میں سب سے اونچا نگرانی کا مینار 27 میٹر ہے، اس سے پورے غرناطہ پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ عیسائی فتح کے بعد اس پر ایک بڑی گھنٹی لگادی گئی جو آج بھی موجود ہے۔ اس گھنٹی کے ذریعے سے قدرتی آفات مثلاً آگ، زلزلہ یا بیرونی حملے کا اعلان کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ گھنٹی زرخیز زمین کی آبیاری کے وقت اور اس کے دورانیے کے تعین کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی۔

اس برج سے غرناطہ شہر کی مختلف آبادیوں اور ساتھ کے پہاڑی سلسلے کا خوبصورت منظر نظر آتا ہے، سو ہم اس برج پر جا چڑھے۔ وہاں ہم نے گھنٹی دیکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف مناظر کی تصویریں کھینچیں جو اس مضمون میں شامل کی گئی ہیں۔ القضبہ کے جنوبی حصے میں ایک خوبصورت باغ ہے۔ اسی باغ کی ایک دیوار پر ہسپانوی شاعر فرانسسکو ڈی لکاذا کی مشہور نظم کنداں ہے، جو اس نے ایک نابینا کو گٹار بجاتے اور بخشش کے انتظار میں دیکھ کر لکھی تھی۔ اس کے چند اشعار کا اردو ترجمہ کرنے کی میری کوشش کچھ یوں ہے۔

اے دلربا

اس نابینا کو کچھ کرعطا

کہ زندگی کا اس سے بڑھ کر کیا ہوگا دکھ

کہ غرناطہ میں ہو کوئی اندھا

القضبہ سے نکل کر باغ سے گذرتے ہوئے ہم بنو نصر کے محلات کی جانب چلے گئے۔ بنو نصر اندلس میں آخری مسلمان حکمران تھے جنہوں نے بارہ سو تیس عیسوی سے چودہ سو بانوے عیسوی تک غرناطہ پر حکومت کی۔ یہ تین محل ہیں جو مختلف اوقات میں تعمیر ہوئے تھے۔

عربی میں پہلا قلعتہ المشور، دوسرا قمارش اور تیسرا الریاض السعید کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ تینوں محل مختلف ادوار میں تعمیر ہوئے۔ قلعتہ المشور سب سے پرانی تعمیر ہے جو کہ بارہ سو اٹھتیس عیسوی میں بنو نصر کے پہلے حکمران محمد الحمر کے حکم سے شروع ہوئی۔ اس کے نام المشور کی بنیاد عربی اور اب اردو میں بھی مستعمل لفظ مشورہ سے ہے، سو یہاں وزاء کی مجلس شوری بیٹھتی تھی، حکومت کے حوالے سے مشورے ہوتے تھے اور احکامات جاری ہوتے تھے۔ عدالت یہاں کے بڑے کمرے میں لگتی تھی جس کے ساتھ ایک چھوٹا تخت تھا جو کہ جالی دار دیوار سے بڑے کمرے سے علیحدہ کیا گیا تھا۔ بادشاہ وہاں بیٹھ کر سائلین کی درخواستیں سنتا تھا۔ عدالت کمرے کے داخلی دروازے کے اوپر ایک سرخ لکڑی کا ٹکڑا زمانے کے دست برد سے ابھی بھی بچا ہے۔ اس پر سلطان کی مدح میں لکھے گئے اشعار آج بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ وہ اشعار یوں ہیں

یا منصب الملک الرفیع

و محرز الشکل البدیع

فتحت للفتح المبین

و حسن صنع او صنیع

اثر الامام محمد

ظل الا الہ علی الجمیع

اس کا انگریزی ترجمہ جو کہ ایک کتاب سے لیا گیا ہے، درجِ ذیل ہے۔

Oh sublime royal dais,

How marvellous is your design!

Openly you went to an overwhelming victory

And good works and actions.

It is a monument of the imam Muhammad,

The shadow of God stooping over all of us.

(From Book Reading the Alhambra) A visual Guide to the Alhambra through its inscriptions) by Jose Miguel Puerta Vilchez

بڑے کمرے کے درمیان شیشے کی چھت تھی جس سے دن کی روشنی اندر آتی تھی، بعد میں اس چھت کو لکڑی کی کاشی کردہ چھت سے بدل دیا گیا۔ دروازے پر ایک عبارت کنداں تھی، '' آئیے، بے خوف و خطر یہاں داخل ہوں، یہاں انصاف مانگنے سے مت ہچکچاو کہ یہاں انصاف کیا جاتا ہے''۔ اس کے علاوہ چھت کے قریب قرآن کی آیت لکھی ہوئی نظر آتی ہے۔ وما بکم من نعمتہ فمن اللہ، اور جو بھی نعمت تمہیں ملتی ہے وہ اللہ کی طرف سے آتی ہے۔

کمرے کے ستون خوبصورت انداز میں چھت سے ملتے ہیں۔ ان میں مختلف رنگوں کے ڈیزائن بھی نظر آتے ہیں اور نیلے رنگ میں نصری نعرہ ولا غالب الا اللہ بھی لکھا ہے۔ دیواروں پر تقریباً پانچ چھ فٹ کی بلندی تک مختلف رنگوں میں جیومیٹریکل ڈیزائن بنے ہیں۔

بڑے کمرے کے ساتھ ہی ایک چھوٹی مسجد بھی ہوا کرتی تھی۔ اس مسجد سے غرناطہ کی آبادی خصوصاً البسین کا نظارہ ہوتا ہے۔ یہ عام مساجد سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ عموماً مساجد سے باہر کا نظارہ نہیں کیا جاتا۔ اس مسجد کی دیواروں پر مختلف عبارات و آیات خوبصورت خطِ کوفی اور دوسرے انداز میں لکھی گئی ہیں۔ اس میں لکھا گیا ہے الحمد اللہ علی نعمتہ الاسلام، اسلام کی نعمت دینے کا اللہ کا شکر، ولا غالب الا اللہ، اللہ کے سوا کوئی حاوی / غالب/ فاتح نہیں، عز لمولانا السطان، ہمارے سلطان کی عزت ہو۔ مسجد کی محراب پر لکھا ہے اقبل علی صلاتک، اپنی نمازوں کی فکر کرو، ولا تکن من الغافلین، اور غافلوں میں مت شامل ہو جاو۔ بڑے ہال کے ساتھ ہی ایک اور کمرہ ہے جسے موجودہ دور میں گولڈن چیمبر کہا جاتا ہے۔ گمان ہے کہ یہ کمرہ سلطان سے ملنے آنے والوں کی انتظارگاہ تھی۔ اس کمرے میں مسلمانوں کے دور کے بعد کئی تبدیلیاں کی گئیں جن میں اس کی شہر پر نظر کرتی تین کھڑکیوں کو ہٹا کر ایک بنا دیا گیا۔ اس کے دوسرے کمروں کی جانب جاتے دروازے بند کر دیے گئے اور اس کے علاوہ بھی کئی تبدیلیاں ہیں مگر اس کے باوجود یہاں دیواروں پر لکھی گئی کچھ تحریریں باقی ہیں، جن میں سب سے نمایاں قرآن کی آیت ہے، 'وما النصر الا من عند اللہ العزیز الحکیم' فتح صرف اللہ حکمت والے و طاقتور کی جانب سے آتی ہے۔

اندلس میں مسلمانوں کی شکست کے بعد کے اداور میں قلعتہ المشور میں کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ چرچ بنا دیا گیا، بادشاہ کے تخت کو ختم کر کے وہاں پادریوں کے لیے جگہ بنادی گئی۔ بعض جگہ پر عیسائی حکمرانوں نے اپنے تاج کا پیوند لگادیا جو کہ عمارت کے اپنے حسن میں بہت بھدا نظر آتا ہے۔ پندرہ سو نوے عیسوی میں اسلحہ خانے میں دھماکے نے محل کو بہت نقصان پہنچایا۔ بڑے کمرے کا ایک دروازہ ایک چھوٹے کمرے میں جاتا ہے جسے سنہرا کمرا کہتے ہیں۔

اس کمرے کی چھت پر بنو نصر کے دور میں کشیدہ کاری کی گئی تھی جو بعد میں سونے کے پتوں سے مزین کی گئی۔ اس وجہ سے آج اس کمرے کو سنہرے کمرے یا گولڈن کمرے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کمرے سے غرناطہ شہر کا منظر بھی نظر آتا ہے۔ سنہرے کمرے کے آگے ایک برآمدہ ہے جس میں تین خوبصورت قواسین بنی ہیں،جن کے اوپر ایک جھروکہ نما کھڑکی ہے۔ برآمدے کے آگے ایک صحن ہے۔ صحن کے وسط میں ایک سنگِ مرمر کا فوارہ ہے۔ صحن کے دوسری جانب دیوان خاص ہے۔

دیوان خاص سلطان یوسف اول نے تیرہ سو تیتیس عیسوی کے لگ بھگ بنوانا شروع کیا تھا۔ سنہرا کمرہ عدالتی کمرے سے دیوان خاص کو جوڑتا ہے۔ دیوان خاص سرکاری کاموں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس کے تین حصے ہیں۔ پہلے کا نام حنائی صحن ہے۔ اس نام کی وجہ صحن کے درمیانی حوض کے ساتھ لگی ہوئی خوبصورت مہندی کی جھاڑیوں کی رو ہے۔ یہ سینتیس میٹر اور چوبیس میٹر کاچوکور صحن محل کا وسط ہے۔

دیوان خاص کے عقب میں واقع مینار بھی یہاں سے نظر آتا ہے۔ یہ صحن صنائی کی ایک خوبصورت مثال ہے کہ اس کے درمیان پانی کے حوض میں ساتھ کی خوبصورت دیواروں اور عمارت کا عکس ہر چیز کے حُسن کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ چاند جب بھی پاگل پن پر اترتا ہوگا تو الحمرا کے اس حوض میں ضرور اترتا ہوگا۔ یہ حوض پانی اور زندگی کے تعلق کو علامتی طور پر ظاہر کرتا ہے۔ اس حوض کے دونوں چھوٹے کناروں پر واقع دو فوارے زندگی کے سفر کو پیش کرتے ہیں۔ ایک فوارے کی پھوار پانی پر گرتی ہے، یہ پیدائش ہے۔ یہ پھوار پھر فوارے کی گول تھالی میں گول دائروں کی شکل میں بڑھتی ہے، یہ زندگی کی سفر ہے۔ پھر یہ پانی فوارے کی تھالی سے ایک تنگ راہ میں جاتا ہے، یہ ادھیڑ عمری ہے۔ اس کے بعد یہ پانی بڑے حوض میں اتر کر ہمیشگی اور ابدیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ صحن کے شمالی اور جنوبی جانب بڑے برآمدے ہیں جن میں سات قواسین بنی ہیں۔ برآمدے کے دونوں جانب طاقچے تھے جہاں وزرا، سفارت کار اور دوسرے عمائدین بادشاہ سے ملاقات سے قبل انتظار و مشاورت کرتے تھے۔

تمام دیواریں اور قوسین عربی میں دعاوں، شاعری اور نصری نعرہ سے مزین ہیں۔ شمالی برآمدے سے جس کمرے میں داخل ہوا جاتا ہے اُسے آج بوٹ روم یعنی کشتی والا کمرہ کہا جاتا ہے۔ اس کمرے سے ہو کر شاہی تخت کے کمرے میں جایا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کمرے کی چھت ایک کشتی کی مشابہت رکھتی ہے سو اسے اس نام سے پکارا جاتا ہے۔ کچھ کے نزدیک اس نام کی وجہ اس کمرے کی دیواروں پر لکھا البرکہ ہے جو ہسپانوی زبان میں بگڑ کو بوٹ روم بن گیا۔ گمان ہے کہ یہ عمارت سلطان محمد پنجم نے تیرا سو چھیاسٹھ عیسوی میں تعمیر کروائی تھی۔ اٹھارہ سو نوے عیسوی میں یہ کمرہ آتشزدگی سے تباہ ہوگیا تھا تو یہ چھت دوبارہ بنائی گئی تھی۔ اس کمرے کے دروازے کو باب البیت کہا جاتا تھا، اس پر ایک زبردست قوس ہے جس پر اندلسی شاعر و امیر ابن زمرق کی شاعری لکھی ہے۔ اس کے علاوہ دیواروں پر بھی نصری نعرہ ولا غالب الا اللہ اور دوسری عبارات و آیات ہیں۔



بوٹ روم سے تخت گاہ میں داخل ہوا جاتا ہے جہاں بادشاہ کا تخت ہوتا تھا۔ بعض کتابوں میں اس کمرے کو سفیروں کے کمرے کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یہ پورے محل کا سب سے بڑا کمرہ ہے۔ یہ کمرہ ایک مکعب، انگریزی میں کیوب کی شکل میں بنایا گیا ہے اور قلعتہ المشور کے مینار کے اندر واقع ہے۔ اس کمرے کے ساتھ نو عدد طاقچے اور کھڑکیاں ہیں جن رنگین شیشے کے ڈیزائن ہیں۔ یہ ڈیزائن عربی میں کومارین کہلاتا ہے، اسی وجہ سے اس مینار کو کومارین کا مینار، ہسپانوی میں مینارِ کومارش کہا جاتا ہے۔

اس کمرے کی دیواروں پر مختلف قدرتی ڈیزائن ہیں؛ سیپ، پھول، ستارے۔۔۔ یہ کمرہ اسلامی آرٹ کا نمونہ ہے، آرٹ جس میں قدرت کو خوبصورت طریقے سے گھر میں لایا جاتا ہے۔ بڑی بڑی کھڑکیاں جو باغ، صحن اور حوض پر نظر ڈالتی ہیں، علامتی انداز میں چھت پر ستارے جو دائروں کی شکل میں بنائے گئے ہیں، کھڑکیوں سے آتی دھوپ اور چھاوں کا تناسب، یہ سب کچھ ایسا کہ مخلوق سے خالق کے جانب کا سفر ہے، مخلوق خالق کی صنائی کا رنگ نظر آتا ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ کی حدیث مبارک، إن اللہ جمیل یحب الجمال، یہاں پر عملی طور پر تعمیر کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ اس کمرے کی چھت کے نیچے لکڑی پر پوری سورت المک کی تیس آیتیں کنداں ہیں۔ سورت المک جو اللہ کی بڑائی بیان کرتی ہے۔

دیواروں کے نچلے حصے پر مختلف رنگوں کی پچی کاری سے ڈیزائن تیار کیا گیا ہے۔ درمیان میں ایک آٹھ کونے کا ستارہ ہے اور اس کے گرد مزید ستارے دائروں کی شکل میں پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ رنگوں کے انتخاب سے یہ ایک بہتا پھیلاو لگتا ہے۔ یہ حلقہِ درویشاں ہے جو کسی سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ یہ ریاضی اور روحانیت کا ایسا جوڑ ہے جو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا، صرف اہل نظر اسے محسوس کرسکتے ہیں۔

الحمرا کی تعمیر میں کھڑکیوں اور روشنی کا رشتہ جاننا ضروری ہے۔ چھت کے قریب کی کھڑکیاں چھوٹی و علامتی ہیں جہاں سے کچھ ہوا کا داخلہ مقصود ہوگا۔ جبکہ دوسری بڑی کھڑکیاں فرش تک یا بہت نیچے تک آتی ہیں۔ اس کی وجہ عربوں میں مستعمل زمینی نشست ہے سو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پورے الحمرا کو زمین کی سطح پر آکر ہی مکمل طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تخت گاہ کی چھت بھی اسلامی آرٹ و صناعی میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ اٹھارہ میٹر بلند چھت دیودار کی لکڑی کی بنی ہے۔ اس چھت میں آٹھ ہزار لکڑی کے ٹکڑوں کو جوڑ کر نظام فلک اور مذہبی علامتی پیغام دیا گیا ہے۔ چھت کے درمیان میں ایک مقرنس جو کہ جنت عدن کی علامت ہے۔

اس کے گرد سات دائرے بنے ہیں جو مختلف ستاروں پر مشتمل ہیں جو سات آسمانوں کو ظاہر کرتے ہیں۔یہی وہ کمرہ ہے کہ جہاں آخری بنو نصر کے بادشاہ ابو عبداللہ محمدالثانی عشر نے دو جنوری چودہ سو بانوے عیسوی کو ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کیے۔ فاتح چارلس ہفتم نے اس محل کی خوبصورتی دیکھ کر اُس وقت کہا تھا، '' اتنی خوبصورتی کو چھوڑنے والا افسردہ ہی رہے گا''۔

تخت گاہ سے نکل کر تیسرے محل میں داخل ہوا جاتا ہے۔ اسے الریاض السعید کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ بادشاہ اور اس کے خاندان کی رہائش گاہ تھی۔ درمیانی صحن کو شیروں کا صحن کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے درمیان میں مشہورِ زمانہ شیروں کی پشت پر دھرا فوارہ ہے۔ صحن کے گرد برآمدے ہیں جن میں ایک سو چوبیس سنگ مر مر کے ستون ہیں۔ مشرقی اور مغربی جانب دو خیمہ دریاں ہیں جو صحن میں آتی ہیں۔ یہ عرب بدوں کے خیموں کی یاد دلاتے ہیں۔

چاروں کونوں سے پانی کے راہ بہتے ہیں جو صحن کے درمیان میں شیروں کے فوارے میں جا کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اس صحن کے سات خطِ تشاکل یعنی سمٹری ایکسیز ہیں جو اس زمانے کی تعمیراتی ترقی اور فن کو ظاہر کرتا ہے۔ شیروں کے فوارے میں بارہ شیر ہیں۔ یہ سوال ہے کہ یہ بارہ شیر کیوں ہیں؟ اس کے مختلف خیالات و توجیہات دی گئی ہیں مثلاً یہ سال کے بارہ ماہ دکھاتے ہیں، یا یہ ایک شہزادی کے آنسو ہیں جو جب صحن میں گرے تو انہوں نے بارہ شیروں کی شکل ڈھال لی، یا یہ آسمان کے بارہ برج ظاہر کرتے ہیں۔ ایک اور خیال ہے کہ یہ یروشلم میں حضرت سلیمان کے بنے ہیکلِ سلیمانی کے اسی طرح کی علامت کو پیش کرتا ہے جس میں بارہ عدد بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا ظاہر کرتا ہے۔ اس فوارے کی نچلی سطح پر ابن زمرک کی شاعری کنداں ہے، جبکہ خطِ کوفی میں برکہ لکھا بھی نظر آتا ہے۔

صحن کے اردگرد دوسرے بڑے کمرے ہیں۔ ان میں ایک مقرنس ہال ہے۔ مقرنس تعمیر کا انداز ایرانی طرز تعمیر سے آیا ہے اور دنیا میں مختلف اسلامی عمارات میں اسے خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ اس تعمیر کے انداز میں شہد کے چھتے کی مشابہت ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ابنِ سراج ہال ہے جس کے نام کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس جگہ پر جنگجو ابن سراج کا سر قلم کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ کا کمرہ دو بہنوں کا کمرہ کہلاتا ہے۔ اس میں بادشاہ کا خاندان رہتا تھا۔ ایک ساتھ کا کمرہ شاہی کمرہ کہلاتا تھا۔



دو بہنوں کا ہال یا کمرہ صحن کے جنوبی جانب ہے اور محل کی خوبصورت ترین تعمیر گردانا جاتا ہے۔ اس کے نام کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں ہے۔ یہ خیال ہے کہ اس کا نام اس کمرے میں پائے جانے والے دو ماربل کے بڑے ٹکڑوں کے نام پر ہے جو ساخت، وزن، رنگ اور حجم میں ہوبہو ایک ہیں۔ یہ پورے الحمرا محل کے سب سے بڑے ماربل کے ٹکڑے ہیں۔ جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ اس کمرے کا نام اس کی دیواروں پر کنداں شاعری سے آئی ہے، جس میں کہا گیا کہ کہکشاں میں برجِ جوزا اپنا ہاتھ تمہارے ساتھ دوستی میں اٹھائے ہے اور چاند اس سے باتیں کرتا ہے۔ یہ کمرہ شاہی خواتین کے لیے تھا۔ اس کے دریچوں سے شہر نظر آتا ہے اور اس کے بائیں جانب شاہی حمام واقع ہے۔ اس کمرے کی دیواروں پر محل کا سب سے بڑا قصیدہ کنداں ہے۔ یہ ابن زمرک کا ایک سو چھیالیس اشعار پر مشتمل قصیدہ ہے جس میں سے آدھا شیروں والے فوارے پر لکھا ہے۔ ان اشعار میں محل اور سلطان کی مدح کی گئی ہے۔

نیچے تصویروں میں اس قصیدے کے چار اشعار کی تصاویر ہیں۔ پہلا شعر ہے۔

تمد لھا الجوزا کف مصافح ویدنو لھا بدر السما مناجیا

کہکشاں، برجِ جوزا، اُسے خوش آمدید کہنے کے لیے ہاتھ بڑھاتی ہے

اور چودھویں کا چاند اس سے باتیں کرتا ہے

دوسرا شعر ہے

بھا البھو قد حاز البھاء و قد غدا بہ القصر آفاق السماء مباھیا

یہاں کے گنبد کو وہ شان و شوکت حاصل ہوئی ہے

کہ یہ محل آفاق کا مقابلہ کرتا ہے

تیسرا شعر ہے

فلم نر قصراً منہ اعلی مظاہراً واوضح آفاقاً و افسح نادیا

ہم نے کبھی ایسی شان و شوکت کا محل نہیں دیکھا

ایسا جو آفاق کی مانند ہو اور مل بیٹھنے کے لیے موزوں و کھلا ہو

چوتھا شعر افقی لحاظ سے لکھا گیا ہے

یملو حجر الروض حول غصونھا دنانیر شمس تترک الروض حالیا

اس کے باغ اور اس کی شاخیں سورج کے دیناروں سے لدی ہیں

اس کمرے کے وسط میں ایک فوارہ ہے جس سے ایک راہ شیروں کے فوارے تک جاتی ہے۔

دو بہنوں کے ہال سے متصل ایک چھوٹا کمرہ ہے، اس کمرے کا نام کمرہ ِسلطانہ ہے۔ یہ الحمرا کے خوبصورت ترین کمروں میں سے ایک ہے۔ ملکہ یہاں پر آرام کرتی تھی۔ کمرے سے غرناطہ شہر اور دریائے درو کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کمرے کی کھڑکیاں نیچے تک آتی ہیں کہ یہاں زمینی نشست قالین اور گاو تکیوں پر کی جاتی ہوگی۔ عیسائی حکمرانوں نے فتح کے بعد اس کمرے کے گرد تعمیرات کیں جس سے شہر کا منظر اوجھل ہوگیا۔ مزید ظلم یہ کیا گیا کہ ساتھ واقع صحن کو ختم کرکے باغ بنا دیا گیا۔ اس کمرے کے بعد کی تمام تعمیرات عیسائی بادشاہوں کی بنائی ہیں سو یہ کمرہ اصل الحمرا محل کا آخری حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔

کمرہِ سلطانہ کے بعد کی تعمیرات عیسائی بادشاہوں نے کروائی تھیں۔ اس کی خاطر الحمرا کی کئی عمارتیں تباہ کردی گئیں۔ جب کمرہ سلطانہ سے آگے چلے تو مسافر تھک گیا تھا، سو ساتھ کے صحن میں رکھے بنچوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ صحن کے وسط میں سنگ مرمر کا فوارہ تھا جس کا رنگ پھیکا پڑ چکا ہے، مگر وہ ایک تاریخ کا شاہد ہے جب وہاں موجود عمارت کو ختم کرکے اُسے نصب کیا گیا تھا۔ مسافر چاہتا تھا کہ اُس سے کچھ بات کرے، اُس سے کچھ سوالات کا جواب مانگے، مگر وہ خاموش تھا شاید کبھی اُس کے آنسو کچھ داستان سناتے ہوں۔ مگر زیادہ تر دیکھنے والے جلدی میں ہوتے ہیں، زندگی کی دوڑ میں کرنے کو اور کئی کام ہوتے ہیں، کون فوارے کی اڑتی دھار سنے اور بہتے خون کی کہانی سن کر افسردہ ہو۔

مسافر نے محل سے واپسی کا سفر شروع کیا۔ راہ میں الحمرا کی مسجد سے دوبارہ گذر ہوا۔ باہر نکلتے صحن اور حوض ہے۔ حوض اندلسی طرزِ تعمیر میں ایک ضروری اکائی ہے۔ فصیل اور اس کے ساتھ کے برج سے گذر ہوا، اس برج کی کھڑکی نظر آتی ہے۔ اس برج کے اندر واقع کمرہ اپنی صناعی اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ آگے یوسف سوم کا محل ہے۔ آج اس محل کی بہت کم باقیات موجود ہیں۔ یہ مگر تاریخی حوالوں سے ثابت ہے کہ یہ الحمرا کا سب سے خوبصورت اور بڑا محل تھا۔ یہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے کہ عیسائی دور میں اس محل کو پوری طرح تباہ کر دیا گیا۔ اس کے باقیات میں آج صرف صحن اور اس کا حوض باقی ہے جو اس محل کے حجم کا اندازہ دیتا ہے۔

اس کے علاوہ اس کے شاہی حمام کے باقیات بھی بتاتے ہیں کہ یہ بڑی تعمیر کا حصہ رہے ہیں۔ اس کے بعد ایک باغ سے گذر کر ہم الحمرا چارلس پنجم کے محل کے سامنے تھے جو اُس نے فتح کے بعد الحمرا میں بنوایا۔ محل کا درمیانی صحن گولائی میں ہے جس کے گرد دو منزلہ کمرے بنائے گئے ہیں۔ یہ محل الحمرا کی عمارتوں کو گرا کر بنایا گیا ہے سو اسی لیے اس سے متصل مسجد کا وضو خانہ آج بھی موجود ہے جبکہ مسجد نہیں ہے۔

گمان ہے کہ مسجد کی جگہ پر محل بنا دیا گیا تھا۔ یہاں سے آگے نکلے تو کافی تھک چکے تھے، سو الحمرا میں بنائے گئے ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی۔ وہاں نئی تعمیر کے ہوٹل کو مخمل میں ٹاٹ کے پیوند کی مانند پایا۔ چائے سے فارغ ہو کر ہم الحمرا کے مشرقی جانب واقع باغ سے ہوتے محل سے باہر کی جانب چل پڑے۔ یہ باغ تین سطح پر ہیں اور ان کے ساتھ محل کی دیوار ہے جس پر حفاظتی برج واقع ہیں۔ اس میں کہیں یوسف سوم کے تباہ شدہ محل کی دیواروں کے کھنڈر بھی نظر آجاتے ہیں۔

دھندلکا سا تھا، یہ علم نہیں کہ واقعی تھا یا محسوس ہو رہا تھا۔ ایک افسردگی سی چھائی تھی، آنکھ میں نمی سی تھی۔ مسافر حُسن اور غم کی کسک لئے ہوئے تھا، دونوں کی کاٹ گہری ہوتی ہے۔ درد بتاتا تھا کہ روح پر لگا زخم گہرا ہے اور زندگی بھر کے لیے اُٹھانا ہوگا۔ مسافر الحمرا سے نکلا اور بس پر سوار ہو کر غرناطہ کے شہر کو واپس ہوا۔ جب واپس اپنی رہائش کو چلے توغرناطہ کے گرجے کے سامنے سے گذرے۔ یہ گرجا پندرہ سو پندرہ عیسوی میں فاتح فرٹینڈ نے بنوایا تھا۔ یہ غرناطہ کے مسلم ماضی کے سامنے ایک نشان کے طور پر بنایا گیا۔ اس سے قبل غرناطہ کی جامع مسجد کو پہلے ہی گرجا بنا دیا گیا تھا۔

غرناطہ میں مسلمان تو ختم کر دیے مگر ان کے نشان جا بجا بکھرے ہیں اور صدیوں بعد شہر کی آبادی کے روزگار کا سبب بنے ہیں۔ راہ میں غرناطہ میں پیدا ہوئے یہودی محقق ابن تیبون کا مجسمہ نظرآیا، مسافر نے ایک تصویر اس مجسمے کے ساتھ کھچوائی کہ اُس رواداری کی یاد کے طور پر رکھ سکے جب مسلم اندلس میں وصف پر غیر مسلم اعلی عہدہ پاتے تھے۔ رات جلد سوئے کہ صبح اشبیلیہ کا سفر تھا کہ واپسی کی فلائیٹ اشبیلیہ سے تھی۔ اشبیلیہ کے ایرپورٹ پر گاڑی واپس کی اور رائن ایر کا جہاز ہمارے فرینکفرٹ کے سفر کے لیے رن وے پر کھڑا تھا، یوں ہمارے سفر کا ایک باب مکمل ہوا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں