کوچۂ سخن
غزل
کہتے ہو اگر تم مجھے حصہ وجود کا
تو کیوں بدل کے رکھ دیا نقشہ وجود کا
دل پر کبھی بھی راج نہیں کرسکوگے تم
یہ ٹھیک ہے کہ لے لیا قبضہ وجود کا
سب کی پسند پر یا کسی من پسند پر
کھلتا ہے کس پہ دیکھیے حجرہ وجود کا
جب سے تمہارے لمس کی حدت ملی مجھے
کچھ اور بڑھتا جاتا ہے نشہ وجود کا
صد شکر کہ وجود کا زندہ ہے بانکپن
بارش میں بھیگتا ہے جو بچہ وجود کا
نادان تم نے کس لیے مانگا جہیز ہے
بیٹی ہے سب سے قیمتی تحفہ وجود کا
شاید ہو تم اداس جہاں آراء تبسم
چہرے پہ تبسم ہے یا نوحہ وجود کا
(جہاں آراء تبسم۔ کوئٹہ)
غزل
ہوگی محسوس پھر کمی میری
یاد آئے گی ہر گھڑی میری
اس کی تصویر دل نہ بہلائے
پوری کیسے کرے کمی میری
وہ نہیں مل سکا مجھے پھر بھی
چھین لی اس نے ہر خوشی میری
اب کہانی بدل نہیں سکتی
ہیر ہے اب فقط وہی میری
بن نہ پایا میں قیس اس کا شمیمؔ
اور وہ لیلیٰ نہ بن سکی میری
(ارشاد شمیم۔دالبندین، ضلع چاغی)
غزل
محلے کی صفائی ہو رہی ہے
حسینوں کی سگائی ہو رہی ہے
اجڑ جائے گی یارو دل کی دلی
دسمبر میں جدائی ہو رہی ہے
کہیں بخیے ادھیڑ ے جا رہے ہیں
کہیں سیدھی سلائی ہو رہی ہے
پرندے مر رہے ہیں شہر آکر
درختوں کی کٹائی ہو رہی ہے
مرا گاؤں ترقی کررہا ہے
کہ منڈی تک رسائی ہو رہی ہے
یہاں پر موت اب سستی ہے لیکن
بڑی مہنگی دوائی ہو رہی ہے
خریدوں گا کرنڈی کا میں جوڑا
کہ پھٹی کی چنائی ہو رہی ہے
(راؤ وحید اسد ۔ملتان)
غزل
کوئی خیال کی سیڑھی سے خواب میں اترا
کہ جیسے رنگ کا جادو گلاب میں اترا
کسی نے کھایا تھا دانہ مگر وہ میں تو نہیں
تو پھر زمین پہ میں کس حساب میں اترا؟
کہو تو حرف کی صورت کتاب اتری،یا
وجودِ حرف لباسِ کتاب میں اترا
وہ میرے ذہن میں اترا ہے یا کوئی بادل
بدن کی برف لیے آفتاب میں اترا
بس ایک بار محبت کی سمت آیا تھا
میں پھر دوبارہ نہیں اس عذاب میں اترا
نشہ ملا تری آنکھوں کو آدھا اور آدھا
مرے خیال سے جامِ شراب میں اترا
(سید عونؔ عباس۔ فیصل آباد)
غزل
بے حیا اور بے وفا اس دور میں
ہوگئے انساں خدا اس دور میں
چار سو دیکھو اُداسی ہے کھڑی
کون جیتا ہے بھلا اس دور میں
جب سے دیکھا مسکراتے آپ کو
تب سے دل میرا لگا اس دور میں
مطلبی یارانہ رکھتے ہیں یہاں
کون کرتا ہے وفا اس دور میں
ہوگا محشر میں وہ گلشنؔ پر سکوں
جس نے کاٹی ہے سزا اس دور میں
(شاہ زیب گلشن ۔راجن پور)
غزل
نظر لطف و کرم کی جب وہ مجھ پر سے ہٹاتا ہے
تو پائے استقامت کو مرے پھر آزماتا ہے
اِدھرمیں ہوں جو اس کے راستے میں گل کھلاتا ہے
اُدھر وہ ہے کہ راہوں میں مری کانٹے بچھاتا ہے
نجانے مسئلہ کیا ہے اسے مجھ سے وگرنہ تو
دھڑلے سے رقیب اس کی گلی میں دندناتا ہے
عضب کا وہ شکاری ہے، جدھر کو جال پھینکے گا
پرندہ آپ اپنے ہی اسی جانب کو آتا ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ مانوں یا مکر جاؤں
یقیں اپنی وفاؤں کا مجھے پھر سے دلاتا ہے
اگر بارِ دگر اس نے مجھے چھوڑا تو کیا ہو گا
یہی وہ بات ہے جس سے مجھے اب خوف آتا ہے
(ندیم دائم ۔ہری پور)
غزل
جو شخص زندگی کا سہارا نہ ہو سکا
کوشش کے باوجود وہ میرا نہ ہو سکا
اک تو ہے جس کو کوئی بھی پروا نہیں مری
اور میں جو چاہ کر بھی تجھ ایسا نہ ہو سکا
تھی زندگی ہماری بھی جیتے تھے ہم جسے
اور بعد تیرے اپنا گزارا نہ ہو سکا
میں ہجر کاٹ کاٹ کے مرجھا سا ہی گیا
برسوں گزارے غم میں پر اچھا نہ ہو سکا
شاعر ترا جو کھو گیا تھا غم کی بھیڑ میں
کم کم ہی خوش ہوا وہ زیادہ نہ ہو سکا
ہم وصل چاہتے تھے محبت میں تو مگر
اک یاد سے بلاؔل گزارا نہ ہو سکا
(بلال قاسم ۔ مانسہرہ)
غزل
دل و نگاہ ہیں گم آسمان کے اندر
کئی جہان ہیں آباد دھیان کے اندر
ہمارے لفظ و معانی کھلیں گے لوگوں پر
بشرطِ حسنِ سماعت ہو کان کے اندر
یہ ارتقائے منازل بشر تلک ہی نہیں
نموئے برگ و گہر امتحان کے اندر
کھلے گی اِس قدر مجھ پر یہ کائناتِ دروں
کبھی نہ تھا مرے وہم و گمان کے اندر
اگرچہ زندہ ہوں فیصل ؔ ذرا نہیں باقی
بساطِ رنج کشی قلب و جان کے اندر
(فیصل کاشمیری ۔ گوجرانوالہ، وزیرآباد)
غزل
تیری جھکی ہوئی نگہ سے یہ غضب ہوئے
اِس دل کو لوٹنے کے نرالے ہی ڈھب ہوئے
گفتارِ شیریں کانوں میں رس گھولنے لگی
پھولوں کی پتیوں سے بھی نازک یہ لب ہوئے
شوقِ چمن سرائی نہ تھا ہم کو جاں کبھی
دیکھا تجھے تو پھولوں کے شوقین تب ہوئے
یہ فیصلہ ترا ہے کسے چاہتی ہے تو
ناز و ادا کے جلوے دلوں پر عجب ہوئے
جو دیکھ لیتے ہیں تری آنکھوں میں ایک بار
شوقین پھر وہ چاند ستاروں کے کب ہوئے
معلوم ہے اے حور تُو قسمت میں ہی نہیں
طالب شہابؔ بھی ترے بحکمِ رب ہوئے
(شہاب اللہ شہاب۔منڈا، دیر لوئر، خیبر پختونخوا)
غزل
بن کے آنچل مجھے شانوں پہ بکھر جانے دے
دل سمندر ہے مجھے اس میں اتر جانے دے
چل رہی ہے تیرے میخانے کی مے بھی ابتک
گھونٹ اک پی کے مجھے یونہی سنور جانے دے
یار دکھلائے گا چہرہ میری میں مرنے پر
میں تو کہتا ہوں اسے آج ہی مر جانے دے
دشتِ تنہائی ہے اور ساتھ ہے وحشت اپنی
نخلِ امید جہاں مجھ کو ادھر جانے دے
دید کی راہ مسافر نہ رکو رستے میں
اس سے آگے بھی تجلی ہے نظر جانے دے
(عبدالحمید عبدل۔ خوشاب)
غزل
جسے میں دیکھ کے کہتا ہوں رنگ و بو کیا ہے
اسی کا دیکھیے اندازِ گفتگو کیا ہے
کٹے یہ عمر ترے گیسوؤں کے سائے میں
علاوہ اس کے مری اور آرزو کیا ہے
رواں جو عشق و محبت کے راستوں پہ ہوئے
پھر ان کے سامنے یہ عز و آبرو کیا ہے
جہاں میں اور بھی منظر سہانے ہیں لیکن
علاوہ تیرے جنوں خیز خوب رو کیا ہے؟
یہی ہے کافی وہ رہتے ہیں ہم سخن ہم سے
یونہی رہیں وہ میسر تو جستجو کیا ہے
جسے ملا ہے ترا لمس پھر اسے ارشدؔ
نہیں ہے کوئی بھی خواہش کہ مشک و بو کیا ہے
(ارشد علی قادری۔ چک 74 شمالی، سرگودھا)
غزل
واہمے کا شکار ہیں ہم لوگ
بے وجہ بے قرار ہیں ہم لوگ
ہم صلیبیں اٹھائے پھرتے ہیں
دل جلوں میں شمار ہیں ہم لوگ
یہ حسیں بھی ہمارے دم سے ہیں
اِن گلوں کا نکھار ہیں ہم لوگ
ہم زمانے سے ہیں جدا ٹھہرے
باعثِ اعتبار ہیں ہم لوگ
حق پہ ہوں تو کھری سناتے ہیں
ہم تو چھبتے ہیں، خار ہیں ہم لوگ
زندگی آپ کی امانت ہے
آپ پر ہی نثار ہیں ہم لوگ
پوچھتے ہیں عزیزؔ کتنے ہو؟
ایک دو تین چار ہیں ہم لوگ
(شارق عزیز میاں اعوان۔نوشہرہ سٹی،سون ویلی)
غزل
دور جانے سے ڈر گئے ہونگے
کچھ پرندے مکر گئے ہونگے
اور آزاد کرنے پر تیرے
کون کہتا ہے گھر گئے ہونگے
وہ جو پاگل تھے پہلے پہلے ترے
اب تو حد سے گزر گئے ہونگے
میری آنکھوں کے خشک مٹکے، تجھے
یاد کرنے سے بھر گئے ہونگے
تیری آواز پر تو بہرے بھی
لے کے قدموں میں سر گئے ہونگے
تیرے سنگ، اوروں کے بھی میری طرح
کچھ سٹیشن گزر گئے ہونگے
(فرید عشق زادہ۔ بنگلہ گوگیرہ ،اوکاڑہ)