معیشت میں کسی حد تک توازن آیا ہے
بہت سے لوگ اب یہ سوال کر رہے ہیں کہ بجلی کے بل پر انکم ٹیکس اور ٹی وی ٹیکس مضحکہ خیز ہیں
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بجلی صارفین کے بِلوں میں زائد یونٹس شامل کرنے والے افسران و اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان درآمدی ایندھن سے بجلی بنانے کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا، کم لاگت قابلِ تجدید ذرایع سے بجلی کی پیداوار سے صارفین کو بِلوں میں ریلیف ملے گا۔
بلاشبہ بجلی کے بلوں نے لوگوں کو شدید اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔ عوام سخت پریشانی کا شکار ہیں کہ وہ بل کیسے ادا کریں؟ کیونکہ ان کے ذرایع آمدن نہیں بڑھے، ان کی آمدنی تو اتنی ہی ہے بلکہ کم ہوئی ہے لیکن ہر چیز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ الٹا بیروزگاری، مہنگائی نے ان کا جینا دوبھرکردیا ہے۔
بے شمار ایسی اشیائے ضروریہ ہیں جو اب عوام کی دسترس سے نکل گئی ہیں جن میں دودھ، گوشت اور پھل وغیرہ شامل ہیں۔ لوگ فاقے کر کے اپنے گھروں کے کرائے ادا کررہے ہیں، رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے پوری کردی ہے۔ بجلی کے حوالے سے صرف بل زیادہ نہیں آرہے اور بھی پاور سیکٹر کے بہت سے مسائل ہیں جن میں لوڈ شیڈنگ، بجلی کی فراہمی میں تعطل، بجلی چوری، لائن لاسز، ٹرانسفارمرز اور تاروں کا جل جانا وغیرہ سرفہرست ہیں۔ ہر سال گردشی قرضوں کا پہاڑ بھی بڑھتا جاتا ہے اور اب عوام اپنے بلوں میں اس گردشی قرضے کا سرچارج بھی ادا کر رہے ہیں۔ امرا کے بلوں کی ادائیگیاں بھی ہوجاتی ہیں مگر عوام کو کوئی رعایت نہیں ملتی۔ آئی ایم ایف کے قرضے حکمران اپنے شاہانہ اخراجات کے لیے لیتے ہیں مگر سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیتے ہیں۔
اس بار بل جو اتنے زیادہ آئے ہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ ان میں فی یونٹ قیمت میں اضافہ تو ہوا ہی ہے لیکن بہت سارے ٹیکسز بھی بجلی کے بلوں میں شامل کیے گئے ہیں، جن میں بجلی پر ڈیوٹی، ٹی وی فیس، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، ایف سی چارج، ٹیرف، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز، کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ چارجرز، فنانشل کاسٹ چارجرز، میٹر رینٹ، ایڈجسٹمنٹ چارجز پر ڈیوٹی، ایکسٹرا چارجز اور متفرق ٹیکسز شامل ہیں۔ جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں ان کو بھی انکم ٹیکس بلوں میں لگ کر آجاتا ہے کیونکہ اکثر لوگ کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں یا میٹر ان کے نام پر نہیں ہوتا۔ عوام بجلی کی انتہائی زیادہ قیمت کے ساتھ ساتھ اتنے سارے ٹیکسز ادا کرنے پر بھی مجبور ہیں۔
بہت سے لوگ اب یہ سوال کر رہے ہیں کہ بجلی کے بل پر انکم ٹیکس اور ٹی وی ٹیکس مضحکہ خیز ہیں۔ جب اور کچھ نہیں ملا تو فاضل ٹیکس اور مزید ٹیکس کے نام پر بھیانک مذاق بھی بل میں شامل کردیا گیا۔ ایک بجلی کے بل میں 12 سے 14 ٹیکسز، غریب انسان جائے توکہاں جائے؟ لوگ اس وقت سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں کیونکہ ان کی رہی سہی جمع پونجی ختم ہوچکی ہے، اب جب کچھ بھی بیچنے کو نہیں ہے اور پیسے بھی نہیں ہیں تو وہ بل کیسے ادا کریں گے؟ ملک کی اشرافیہ سے تمام مراعات واپس لی جائیں تاکہ انھیں علم ہوسکے کہ عوام کو کس قسم کے حالات کا سامنا ہے۔ یہاں اشرافیہ مفت بجلی اور پٹرول عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر انجوائے کر رہی ہے۔
اتنی مراعات دینے کے باوجود ان سے کچھ نہیں ہو رہا۔ عوام یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم بلز اور ٹیکس دے رہے ہیں تو اس طبقے کو بھی دینا ہوگا جو ایک مدت سے مراعات کے مزے لوٹ رہا ہے، اگر ملک پر مشکل وقت ہے تو صرف عوام کیوں قربانی دیں؟ اشرافیہ کو بھی اپنی عیاشیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ ان کے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے سرکاری فیول پر چلنی والی گاڑی میں اے سی آن ہوتا ہے۔ یہ گھر، دفتر میں موجود ہوں یا نہ ہوں، اے سی چل رہے ہوتے ہیں۔ بجلی کے بھاری بلوں کے بعد سوشل میڈیا پر اس بحث کا آغاز ہوگیا ہے کہ پاکستان میں مراعات یافتہ طبقہ پاکستانی ٹیکس پیئرز پر بوجھ ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ غریب عوام بلز بھی دیں، ٹیکس بھی دیں اور خود پر مسلط اشرافیہ کو بھی پالیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی معیشت کی ڈگمگاتی کشتی کو مضبوط معاشی پالیسیوں سے سنبھالا دیا ہے، پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے وسیع فوائد حاصل ہوں گے، کیونکہ حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ہرقسم کی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ ملکی معیشت کو اس وقت قرض کے بجائے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، دور حاضر میں تصورات اور نظریات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ جنگ اب میدان میں نہیں، ابلاغی اور معاشی محاذ پر لڑی جاتی ہے۔ پاکستان کے دیرینہ دوستوں کی جانب سے اب پاکستان میں مختلف شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کے اشارے مل رہے ہیں، سعودی عرب کے سرمایہ کاروں کی جانب سے پاکستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے حوالے سے معاملات میں پیش رفت سامنے آرہی ہے، جس سے نہ صرف پاکستان میں ترقی کے نئے درکھلیں گے۔
بے روزگاری کے خاتمے میں مدد ملے گی، بلکہ عوام کی خوشحالی یقینی بنانے میں مدد ملے گی، ادھر قطر جیسے دوست ملک کے ساتھ بھی مختلف سیکٹرز میں تعاون کے حوالے سے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، جن میں خاص طور پر پاکستانی ہنر مندوں کی قطر میں خدمات کے لیے پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں لیبر اور تجربہ کار افرادی قوت سے استفادہ کرنے کی منصوبہ بندی بھی شامل ہے جو قطر میں خدمات انجام دے کر نہ صرف بھاری مقدار میں زرمبادلہ پاکستان بھیجنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔عالمی بینک نے بھی پاکستان کے معاشی اصلاحات کی حمایت کرتے ہوئے دس سال کے لیے رولنگ کنٹری فریم ورک پلان پر اتفاق کیا ہے جو پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں کی قدر افزائی ہے، پاکستان اسٹاک ایکسچینج بھی مستحکم ہورہا ہے، جو پاکستانی مارکیٹ پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کی واضح نشانی ہے، تاہم پاکستان کی معیشت میں بہتری کے ان آثار پر کچھ سیاسی حلقے منفی بیان بازی سے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے منفی سیاست کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔
ان عناصر کو معیشت پر سیاست کرنے کے کام کو اب ترک کردینا چاہیے، یہی ملکی عوام کے مفاد میں ہے، پاکستانی معیشت میں کسی حد تک توازن آیا ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے حالات مزید سازگار بنانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہیے، سیاسی استحکام جتنا پائیدار ہوگا، معاشی و کاروباری سرگرمیاں اتنا ہی زیادہ ہوں گی، روزگار میں اضافہ ہوگا اور معاشرتی ہم آہنگی بڑھے گی ، لہٰذا ضروری ہے کہ سیاست اور معیشت کو افزائش کی طرف لے جایا جائے جو اس طرح ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی اور قدر افرودہ (value added) صنعتوں میں سرمایہ کاری کریں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو مقامی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ان پر عمل پیرا ہوں۔
ان میں سب سے پیشتر ہمیں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی پالیسیوں کو کافی سوچ سمجھ کر بتدریج اور اس وقت لاگو کرنا ہے جب پاکستان کی معیشت کی مسابقتی حیثیت بین الاقوامی طور پر مستحکم ہو جائے۔ مزید ہمیں ورلڈ بینک اور انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کے تصورات کو مقامی حالات کے مطابق اور معیشت کی افزودگی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنانا ہے۔ ہمیں بین الاقوامی سوچ و فکر کو مقامی عزم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ جنوبی کوریا اور ملائیشیا جیسے ملکوں کی مثال یہ ثابت کرتی ہے کہ بدحالی کو خوش حالی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان نے بھی سیاسی استحکام حاصل کرکے معاشی ترقی کی ہے، اب وہاں مڈل کلاس بڑی ہو رہی ہے اور اس کا ٹیکس بھی بڑھ رہا ہے۔ بڑی بڑی صنعتیں ٹیکس کا حجم بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
پاکستان کو نجی شعبے کی زیر قیادت سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے، جو پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نمٹنے کو یقینی بنائے گا اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ایک بار جب لوگوں کے پاس ہنر اور تعلیم آجائے تو وہ چیزوں کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ ایک بار جب نظام میں کاروباری اور پیداواری فنانسنگ کی خواہش اور گنجائش ہو جائے تو، نجی شعبہ کان کنی، زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز کام کر سکتا ہے۔
وقت بہت کم ہے، کیونکہ اگلے 3 تا 5 برس معاشی ترقی کی رفتار کو تبدیل کرنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ بہتر رہنمائی، تجربہ، مہارت اور دور اندیشی کے ساتھ ہمیں یقین کرنا چاہیے کہ یہ قومی مسائل حل کر لیے جائیں گے۔ دیر یا بدیر۔ جس میں سرمایہ کاری ہمارے پڑھے لکھے طبقے کو روزگار مہیا کرنا اور حکومت کی آمدنی اور اخراجات کو ساتھ لے کر چلنا شامل ہے تاکہ ہم معیشت کو افزودگی کی طرف لے جائیں جو سماجی اور سیاسی ہم آہنگی کا باعث ہو۔
اب قوم ایک اچھے اور روشن مستقبل کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ یہ بہتری اور بحالی پاکستان کی صلاحیتوں، عزم و حوصلے اور جمہوریت پسندی کی واضح دلیل ہے۔ ملک سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کی مشترکہ کوششوں کی وجہ سے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ وطن عزیز کا مستقبل روشن اور امید افزاء ہے جس میں عوام کے لیے ترقی، خوشحالی اور استحکام کی یقین دہانی ہے۔