انتخابات کب تک متنازع رہیں گے
حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ عوام نے فروری 2024 کے انتخابات میں اُسے حق حکمرانی نہیں دیا تھا
چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے جو سپریم کورٹ کے ماتحت ہے مگر وہ کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کر سکتا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دھاندلی کی جب تک کوئی بات صحیح طریقے سے ہم تک نہیں آئے گی ہم کچھ نہیں کرنے والے۔ کسی ہارنے والے نے آج تک نہیں کہا کہ الیکشن ٹھیک ہوا ہے۔
2024 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے ہارنے والے امیدوار خواجہ سعد رفیق سمیت بعض ہارنے والوں نے تسلیم کیا ہے کہ انھیں شکست ہوئی ہے۔ رانا ثنا اللہ نے بھی ایک لاکھ سے زائد ووٹ لیے اور اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے پہلے حکومتی عہدہ لینے سے انکار کیا تھا مگر قائد (ن) لیگ کی ہدایت پر انھوں نے مشیر بننا قبول کیا جب کہ خواجہ سعد رفیق نے کوئی عہدہ نہیں لیا۔ انھوں نے الیکشن نتائج فوری طور پر تسلیم کر کے اپنے حریف سردار لطیف کھوسہ کو فون کر کے مبارکباد دی تھی مگر کامیابی کے نشے میں لطیف کھوسہ نے سعد رفیق کے اقدام کو سراہنے کے بجائے کہا تھا کہ وہ اپنی پارٹی کو بھی کہیں کہ وہ شکست تسلیم کرے حالانکہ ایسا پاکستان میں کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔
ملک میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کے علاوہ دیگر سیاسی پارٹیوں کے ہارنے والے بعض امیدوار کامیاب امیدوار سے جا کر ملے بھی اور انھیں مبارکباد بھی دی ہے جو ایک اچھی اور قابل تقلید مثال ہے جس کی تعریف تمام پارٹیوں اور ہارنے والے امیدواروں کو کرنی چاہیے۔
یوں تو ملک میں کسی بھی الیکشن کو منصفانہ تسلیم ہی نہیں کیا گیا اور ہمیشہ دھاندلی کے الزامات لگتے آ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ 1970 کے الیکشن کسی حد تک بہتر تھے جس میں صدر جنرل یحییٰ نے حکومتی مداخلت اور دھاندلی اس لیے کرائی تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ کوئی پارٹی واضح اکثریت نہ لے سکے اور منقسم نتائج آئیں اور کوئی بھی پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ سب صدر کی محتاج ہوں تاکہ وہ صدر کے عہدے پر برقرار رہ سکیں اور ملک میں مخلوط اور کمزور حکومت وجود میں آئے مگر ایسا نہیں ہوا تھا اور مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت ملی تھی اور وہ تنہا حکومت بنا سکی تھی۔ پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو واضح کامیابی ملی تھی جب کہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جے یو آئی نے مل کر وہاں حکومت بنائی تھی مگر اس الیکشن نے ملک کو دولخت کر دیا تھا کیونکہ جنرل یحییٰ عوامی لیگ کو حکومت دینے پر تیار نہیں تھے اور ملک دولخت ہونے کے بعد آدھے پاکستان، پنجاب اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے اپنی حکومتیں بنائی تھیں۔
1977 میں وزیر اعظم بھٹو نے ملک میں قبل ازوقت الیکشن نہ جانے کیوں کرائے تھے جس میں زبردست دھاندلی کرائی گئی جو اپوزیشن اتحاد نہیں مانی اور نئے الیکشن کا مطالبہ کیا تھا جو بھٹو صاحب نے نہیں مانا اور ان کے خلاف بھرپور تحریک چلی جس کے نتیجے میں ملک میں طویل مارشل لا لگا اور بھٹو صاحب کو ایک کیس میں پھانسی دی گئی تھی۔ جنرل ضیا الحق نے 1985 میں غیر جماعتی الیکشن کرائے اور تین سال بعد ہی اچھی شہرت کے حامل محمد خان جونیجو کو برطرف کردیا مگر جنرل ضیا بھی 1988 کے الیکشن سے پہلے حادثے کا شکار ہو گئے۔ جنرل ضیا کے 1985 کے غیر جماعتی اور 1988 کے جماعتی الیکشن میں ملک کے بڑے بڑے سیاستدان ہار گئے تھے۔
1988 کے بعد جمہوری حکومت تھی اور کمزور الیکشن کمیشن 2024 تک متعدد انتخابات کرا چکا ہے۔ 2008 میں جنرل مشرف دور میں جماعتی انتخابات ہوئے۔ 2013 میں پی ٹی آئی کو (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں تیسری سیاسی قوت بنایا گیا جس کے بعد ہر الیکشن پہلے سے زیادہ متنازع چلا آ رہا ہے اور 2018، 2024 کے الیکشن میں دھاندلیوں کے ریکارڈ قائم ہوئے۔ ملک سیاسی استحکام سے محروم ہوگیا۔ فخر الدین جی ابراہیم کو سب سے اچھا اور غیر جانبدار چیف الیکشن کہا گیا مگر ان کے کرائے گئے الیکشن بھی نہیں مانے گئے اور وہ مستعفی ہو کر گھر چلے گئے تھے۔
ملک میں ہر چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کو انتخابات کے بعد متنازع بنایا گیا مگر 2021کے بعد پی ٹی آئی نے اپنے ہی مقرر کیے گئے موجودہ الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کا جو حشر اور الزام تراشی کی ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی نے اپنی حکومت میں ڈسکہ الیکشن کروایا ۔ موجودہ چیف الیکشن کمشنر مسلسل پی ٹی آئی کے نشانے پر ہیں جن پر اس وقت کے وزیر اعظم اور اسیر بانی پی ٹی آئی نے چیف الیکشن کمشنر کو اپنا مخالف قرار دے رکھا ہے اور جتنے الزامات پی ٹی آئی نے ان پر لگائے وہ ریکارڈ پر موجود ہیں کیونکہ پی ٹی آئی اپنی حالیہ شکست اور الیکشن کا ذمے دار چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کو سمجھتی ہے جب کہ حالیہ الیکشن میں پی ٹی آئی کو کے پی میں واضح بھاری مینڈیٹ بھی موجود الیکشن کمیشن کے دور میں ملا اور انتخابی نشان سے محرومی کے باوجود پنجاب میں اسے بڑی کامیابی ملی مگر پھر بھی پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کی سب سے بڑی مخالف ہے۔
ملک میں چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کی حیثیت کسی ہائی کورٹ کے جج جیسی نہیں اور کسی بھی ہائی کورٹ کا جج الیکشن کمیشن کو طلب کر سکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن کی بے اختیاری کا یہ حال ہے کہ سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زبردست دھاندلی الیکشن کمیشن نے بے نقاب کر کے نااہل کیا مگر وہ عدالت سے حکم امتناعی لے کر پونے چار سال عہدے پر رہے۔ چیف الیکشن کمشنر کو بھی ہائی کورٹ کے جج کے اختیارات حاصل ہیں مگر کمیشن کے خلاف سیاسی بیان بازی کی جاتی ہے کیونکہ اسے بھارتی کمیشن جیسے اختیارات حاصل نہیں جس کی وجہ سے ہر الیکشن کو متنازع بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہر پارٹی اپنی ناکامی کا ذمے دار خود کو نہیں الیکشن کمیشن اور اس کے سربراہ کو ہی قرار دیتی ہے۔