عوام کے صبر کو مزید نہ آزمائیں
حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ عوام نے فروری 2024 کے انتخابات میں اُسے حق حکمرانی نہیں دیا تھا
موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے بڑھتی مہنگائی کو روک لگایا ہے اور اُسے 35 فیصد سے کم کر کے 12.5 فیصد پر لے آئے ہیں، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ سوائے آٹے اور روٹی کی قیمتوں میں کمی کے کسی اور چیز کی قیمت کم نہیں ہوئی ہے۔ اقتدار کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب کے لیے اور ایک بڑا ریلیف دکھانے کے لیے ایک روز پہلے ہی پٹرول کی قیمت 10 روپے کم کی گئی لیکن پندرہ روز بعد اُسے پھر مہنگا کر دیا گیا۔
ہمارے یہاں ہر ماہ کی پہلی اور سولہ تاریخ کو پٹرول کے نئے ریٹس مقرر کیے جاتے ہیں لیکن وزیراعظم نے اپنی سو دنوں کی دلکش اور دلفریب کارکردگی قوم کے گوش گزار کرنے کے لیے پچھلے ماہ کی چودہ تاریخ ہی کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی اور یوں عوام کو یہ تاثر دیا گیا جیسے ملک میں خوشحالی کا سنہری دور شروع ہوچکا ہے، لیکن صرف پندرہ روز بعد ہی یہ ریلیف واپس لے لیا گیا اورIMF کی ہدایتوں پر بنائے گئے بجٹ پر عمل درآمد فوری طور پر شروع بھی کر دیا گیا۔ بجلی جو پہلے ہی دنیا میں ہمارے یہاں سب سے مہنگی ہے اُسے مزید مہنگی کر کے عوام کا جینا حرام کردیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ تنخواہ دار ملازم طبقہ جو پہلے ہی حکومت کو اپنی آمدنی میں سے ہرماہ باقاعدگی سے ٹیکس دے رہا ہے اُسے مزید شکنجے میں کس لیا گیا ہے۔ کھانے پینے کی جو چیزیں دکھاؤے کے طور پرکچھ دنوں کے لیے سستی کی گئی تھیں وہ ایک بار پھر مہنگی کردی گئیں۔
حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ عوام نے فروری 2024 کے انتخابات میں اُسے حق حکمرانی نہیں دیا تھا لیکن اگر وہ طوعا وکرہاً وہ یہ ذمے داری اٹھانے پر رضامند ہوگئی تھی تو اُسے عوام پرظلم وستم کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے تھا۔ مہنگائی کر کے عوام کے صبر کو آزمانے کے بجائے اُسے اقتدار سے فوراً علیحدہ ہوجانا چاہیے تھا، لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ ایسی کونسی مجبوری ہے کہ وہ پیپلزپارٹی اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ اس حکومت سے اب تک جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے سامنے دیگر ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں کے عوام نے مہنگائی کرنے والی حکومتوں کے چھکے چھڑا دیے۔ ابھی حال ہی میں کینیا میں جو کچھ ہوا وہ اس حکومت کے لیے نوشتہ دیوار ہے۔
وہاں لوگوں نے حکومتی ایوانوں پر ہلہ بول کر تمام اہم دفاتر نذر آتش کر دیے اور حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کردیا۔ اس سے پہلے سری لنکا میں بھی ہم نے یہی کچھ دیکھا تھا۔ قوم اگر ووٹ دیتی ہے تو حساب اور احتساب کرنے کا حق بھی رکھتی ہے۔ وہاں بھی عوام دشمن فیصلوں پر لوگوں نے حکومت کے وزیروں کا جو حال کیا وہ ہمارے لیے مثال ہے۔ پیپلزپارٹی بھی اس گناہ سے خود کو مبرا قرار نہیں دے سکتی ہے، وہ بھی عوام دشمن حکومتی فیصلوں میں برابر کی شریک ہے۔ وہ چاہتی تو یہ بجٹ اور فنانس بل کبھی بھی پاس نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ بظاہر حکومت اور کابینہ میں شریک نہیں ہے لیکن در پردہ حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
اس نے مسلم لیگ ن کو اقتدار کی اس سولی پر چڑھ جانے کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اعلان بھی کیا اور سودے بازی کر کے تمام آئینی عہدے بھی اپنے پاس رکھ لیے۔ وہ اگر یہ سمجھتی ہے کہ دو تین سال بعد حکومت سے اختلاف کر کے کو عوام پر آج کی جانے والی زیادتیوں سے خود کو علیحدہ کر لے گی کہ ہم تو اقتدار میں شامل ہی نہیں تھے، ایسا اب ہرگز نہیں ہوگا۔ عوام اپنے اوپر کی جانے والی زیادتیوں پر حکومت کے اتحادیوں کو بھی اب معاف نہیں کریں گے، وہ اگر آج اس حکومت کے حمایت چھوڑ دیں تو دیکھتے ہیں کون عوام پر یہ ظلم و ستم جاری رکھتا ہے۔ حکومت اپنے خرچے کم نہیں کر رہی ہے ، مگر عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کر رہی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ بے شمار ٹیکس لینے کے بعد بھی حکومت یہ شکایت کرنے اور رونے سے باز نہیں آتی کہ ہمارے عوام ٹیکس نہیں دیتے۔
عوام اپنی سکت اور استطاعت سے زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں لیکن حکومت کا شکوہ ختم ہونے کو نہیں ہے۔ بجلی کے بلوں ہی کو لے لیجیے، اس میں چودہ قسم کے ٹیکس لگے ہوئے ہیں۔ 24 کروڑ لوگوں پر ہونے والے اس ظلم و زیادتی پر خاموش رہنا بھی ایک جرم ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ35 ہزار روپے کمانے والا ہر ماہ 20 ہزار روپے کا بجلی کا بل کیسے ادا کرے گا۔ وہ کھائے گا کیا اور بچوں کو اسکول کیسے بھیجے گا۔ بیماری اور علاج کے لیے اس کے پاس پیسے کہاں سے آئیں گے۔
ایک شخص تین وقت کے بجائے دو وقت کھانا کھائے تو بھی ہرماہ اس کے پندرہ ہزار روپے ماہانہ خرچ ہوجاتے ہیں تو پھر وہ اپنے خاندان کو کیسے پالے گا۔ بجلی کے بلوں کو حکومت نے اپنی آمدنی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ اتنی مہنگی بجلی کر کے بھی گردشی قرضے ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے بلکہ اس میں متواتر اضافہ ہوتاجا رہا۔ IPPs کے معاہدوں پر بھی نظر ثانی نہیں کی جارہی ہے۔ کراچی میں K-Electric کی انتہائی خراب کارکردگی پر بھی اسے اگلے 20سالوں کے لیے عوام کو تنگ کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
حکومت وقت کو احساس کرنا چاہیے کہ عوام اس سے انتہائی تنگ اور نالاں ہیں۔ وہ اس کے ہاتھوں مہنگائی کی وجہ سے بہت ہی خفا ہیں۔ وہ اس وقت مجبور ہیں کیونکہ فکر معاش نے انھیں اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ کوئی بھرپور احتجاج ریکارڈ کروا سکیں۔ دوسری جانب اس وقت ایسی کوئی لیڈرشپ بھی اس ملک میں باقی نہیں رہی جس کی قیادت میں وہ یکجا اور متحد ہوکر یہ احتجاج ریکارڈ کروا سکیں۔ قوم اس وقت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ سیاسی، مذہبی، لسانی اور فروعی گروپوں میں تقسیم قوم کبھی بھی کوئی مشترکہ جدوجہد شروع نہیں کرسکتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ حکومت ابھی تک عوام کے غیظ و غضب سے بچی ہوئی ہے۔ صرف روٹی سستی کرکے اور باقی تمام چیزیں مہنگی کرکے حکومت کا یہ کہنا کہ اس نے مہنگائی کی شرح بہت کم کردی ہے اسے کچھ کوئی زیب نہیں دیتا۔ حکومت کے تمام دعوے صرف زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں۔ عوام الناس کو ابھی تک کوئی ریلیف نہیں ملا ہے بلکہ وہ پہلے سے زیادہ برے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
وزیراعظم نے دنیا بھر کے دورے کر کے یہ تاثر دیا کہ تمام ممالک یہاں سرمایہ کاری پر رضا مند ہوگئے ہیں جب کہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے ۔ ہمارے اپنے سرمایہ دار لوگ اپنا سرمایہ یہاں سے نکال کر دوسرے ممالک میں منتقل کر رہے ہیں، کیونکہ یہاں کے حالات ابھی تک غیر مستحکم اور غیر یقینی ہیں۔ حکومت کو چاہے کہ زمینی حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا جیسے وہ سوچ رہی ہے۔ ذرا عوام میں نکل کر تو دیکھیں لوگ کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بند محلات میں بیٹھ کر اصل صورتحال کا اندازہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اب بھی وقت ہے عوام کی تکالیف کا احساس کریں اور اگر انھیں ریلیف نہیں دے سکتے تو کم ازکم ان کی تکالیف میں مزید اضافہ نہ کریں۔ ایسا نہ ہوکہ وقت آپ کے قابو میں نہ رہے ۔
ہمارے یہاں ہر ماہ کی پہلی اور سولہ تاریخ کو پٹرول کے نئے ریٹس مقرر کیے جاتے ہیں لیکن وزیراعظم نے اپنی سو دنوں کی دلکش اور دلفریب کارکردگی قوم کے گوش گزار کرنے کے لیے پچھلے ماہ کی چودہ تاریخ ہی کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کردی اور یوں عوام کو یہ تاثر دیا گیا جیسے ملک میں خوشحالی کا سنہری دور شروع ہوچکا ہے، لیکن صرف پندرہ روز بعد ہی یہ ریلیف واپس لے لیا گیا اورIMF کی ہدایتوں پر بنائے گئے بجٹ پر عمل درآمد فوری طور پر شروع بھی کر دیا گیا۔ بجلی جو پہلے ہی دنیا میں ہمارے یہاں سب سے مہنگی ہے اُسے مزید مہنگی کر کے عوام کا جینا حرام کردیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ تنخواہ دار ملازم طبقہ جو پہلے ہی حکومت کو اپنی آمدنی میں سے ہرماہ باقاعدگی سے ٹیکس دے رہا ہے اُسے مزید شکنجے میں کس لیا گیا ہے۔ کھانے پینے کی جو چیزیں دکھاؤے کے طور پرکچھ دنوں کے لیے سستی کی گئی تھیں وہ ایک بار پھر مہنگی کردی گئیں۔
حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ عوام نے فروری 2024 کے انتخابات میں اُسے حق حکمرانی نہیں دیا تھا لیکن اگر وہ طوعا وکرہاً وہ یہ ذمے داری اٹھانے پر رضامند ہوگئی تھی تو اُسے عوام پرظلم وستم کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے تھا۔ مہنگائی کر کے عوام کے صبر کو آزمانے کے بجائے اُسے اقتدار سے فوراً علیحدہ ہوجانا چاہیے تھا، لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ ایسی کونسی مجبوری ہے کہ وہ پیپلزپارٹی اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ اس حکومت سے اب تک جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے سامنے دیگر ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں کے عوام نے مہنگائی کرنے والی حکومتوں کے چھکے چھڑا دیے۔ ابھی حال ہی میں کینیا میں جو کچھ ہوا وہ اس حکومت کے لیے نوشتہ دیوار ہے۔
وہاں لوگوں نے حکومتی ایوانوں پر ہلہ بول کر تمام اہم دفاتر نذر آتش کر دیے اور حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کردیا۔ اس سے پہلے سری لنکا میں بھی ہم نے یہی کچھ دیکھا تھا۔ قوم اگر ووٹ دیتی ہے تو حساب اور احتساب کرنے کا حق بھی رکھتی ہے۔ وہاں بھی عوام دشمن فیصلوں پر لوگوں نے حکومت کے وزیروں کا جو حال کیا وہ ہمارے لیے مثال ہے۔ پیپلزپارٹی بھی اس گناہ سے خود کو مبرا قرار نہیں دے سکتی ہے، وہ بھی عوام دشمن حکومتی فیصلوں میں برابر کی شریک ہے۔ وہ چاہتی تو یہ بجٹ اور فنانس بل کبھی بھی پاس نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ بظاہر حکومت اور کابینہ میں شریک نہیں ہے لیکن در پردہ حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
اس نے مسلم لیگ ن کو اقتدار کی اس سولی پر چڑھ جانے کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اعلان بھی کیا اور سودے بازی کر کے تمام آئینی عہدے بھی اپنے پاس رکھ لیے۔ وہ اگر یہ سمجھتی ہے کہ دو تین سال بعد حکومت سے اختلاف کر کے کو عوام پر آج کی جانے والی زیادتیوں سے خود کو علیحدہ کر لے گی کہ ہم تو اقتدار میں شامل ہی نہیں تھے، ایسا اب ہرگز نہیں ہوگا۔ عوام اپنے اوپر کی جانے والی زیادتیوں پر حکومت کے اتحادیوں کو بھی اب معاف نہیں کریں گے، وہ اگر آج اس حکومت کے حمایت چھوڑ دیں تو دیکھتے ہیں کون عوام پر یہ ظلم و ستم جاری رکھتا ہے۔ حکومت اپنے خرچے کم نہیں کر رہی ہے ، مگر عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کر رہی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ بے شمار ٹیکس لینے کے بعد بھی حکومت یہ شکایت کرنے اور رونے سے باز نہیں آتی کہ ہمارے عوام ٹیکس نہیں دیتے۔
عوام اپنی سکت اور استطاعت سے زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں لیکن حکومت کا شکوہ ختم ہونے کو نہیں ہے۔ بجلی کے بلوں ہی کو لے لیجیے، اس میں چودہ قسم کے ٹیکس لگے ہوئے ہیں۔ 24 کروڑ لوگوں پر ہونے والے اس ظلم و زیادتی پر خاموش رہنا بھی ایک جرم ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ35 ہزار روپے کمانے والا ہر ماہ 20 ہزار روپے کا بجلی کا بل کیسے ادا کرے گا۔ وہ کھائے گا کیا اور بچوں کو اسکول کیسے بھیجے گا۔ بیماری اور علاج کے لیے اس کے پاس پیسے کہاں سے آئیں گے۔
ایک شخص تین وقت کے بجائے دو وقت کھانا کھائے تو بھی ہرماہ اس کے پندرہ ہزار روپے ماہانہ خرچ ہوجاتے ہیں تو پھر وہ اپنے خاندان کو کیسے پالے گا۔ بجلی کے بلوں کو حکومت نے اپنی آمدنی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ اتنی مہنگی بجلی کر کے بھی گردشی قرضے ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے بلکہ اس میں متواتر اضافہ ہوتاجا رہا۔ IPPs کے معاہدوں پر بھی نظر ثانی نہیں کی جارہی ہے۔ کراچی میں K-Electric کی انتہائی خراب کارکردگی پر بھی اسے اگلے 20سالوں کے لیے عوام کو تنگ کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
حکومت وقت کو احساس کرنا چاہیے کہ عوام اس سے انتہائی تنگ اور نالاں ہیں۔ وہ اس کے ہاتھوں مہنگائی کی وجہ سے بہت ہی خفا ہیں۔ وہ اس وقت مجبور ہیں کیونکہ فکر معاش نے انھیں اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ کوئی بھرپور احتجاج ریکارڈ کروا سکیں۔ دوسری جانب اس وقت ایسی کوئی لیڈرشپ بھی اس ملک میں باقی نہیں رہی جس کی قیادت میں وہ یکجا اور متحد ہوکر یہ احتجاج ریکارڈ کروا سکیں۔ قوم اس وقت ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ سیاسی، مذہبی، لسانی اور فروعی گروپوں میں تقسیم قوم کبھی بھی کوئی مشترکہ جدوجہد شروع نہیں کرسکتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ حکومت ابھی تک عوام کے غیظ و غضب سے بچی ہوئی ہے۔ صرف روٹی سستی کرکے اور باقی تمام چیزیں مہنگی کرکے حکومت کا یہ کہنا کہ اس نے مہنگائی کی شرح بہت کم کردی ہے اسے کچھ کوئی زیب نہیں دیتا۔ حکومت کے تمام دعوے صرف زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں۔ عوام الناس کو ابھی تک کوئی ریلیف نہیں ملا ہے بلکہ وہ پہلے سے زیادہ برے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
وزیراعظم نے دنیا بھر کے دورے کر کے یہ تاثر دیا کہ تمام ممالک یہاں سرمایہ کاری پر رضا مند ہوگئے ہیں جب کہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے ۔ ہمارے اپنے سرمایہ دار لوگ اپنا سرمایہ یہاں سے نکال کر دوسرے ممالک میں منتقل کر رہے ہیں، کیونکہ یہاں کے حالات ابھی تک غیر مستحکم اور غیر یقینی ہیں۔ حکومت کو چاہے کہ زمینی حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا جیسے وہ سوچ رہی ہے۔ ذرا عوام میں نکل کر تو دیکھیں لوگ کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ بند محلات میں بیٹھ کر اصل صورتحال کا اندازہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اب بھی وقت ہے عوام کی تکالیف کا احساس کریں اور اگر انھیں ریلیف نہیں دے سکتے تو کم ازکم ان کی تکالیف میں مزید اضافہ نہ کریں۔ ایسا نہ ہوکہ وقت آپ کے قابو میں نہ رہے ۔