غیرملکی مصنوعات بائیکاٹ اور من حیث القوم ہماری پستی
ہم من حیث القوم پستی کا شکار ہیں اور دھوکا دہی اور موقع سے فائدہ اٹھانے میں انتہائی ماہر ہیں۔
پاکستان سمیت پوری دنیا میں غیرملکی مشروبات کا نہ صرف بائیکاٹ کیا گیا بلکہ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر زور و شور سے مہم بھی چلائی گئی۔ اور یہ سوشل میڈیا کی طاقت ہے کہ یہ مہم کامیاب بھی رہی۔
اس مہم کا مقصد ان معروف کمپنیز کی جانب سے فلسطین کے معصوموں پر ہونے والے ظلم و ستم میں ساتھ دینے پر ان کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔ احتجاج نہ صرف ریکارڈ ہوا بلکہ اس کی بازگشت عالمی اقتصادی منڈیوں تک سنائی دی، کیوں کہ ان کمپنیز کی مصنوعات کی فروخت میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی۔ اور اسی طرح دیگر غیر ملکی برانڈز اور اسی معاملے سے جڑی کمپنیوں کو خواہ وہ کھانے پینے سے متعلق ہوں یا زندگی کی باقی ضروریات سے متعلق، ان کے خلاف مہم چل نکلی۔
یہاں سے مقامی سطح پر کھانے پینے اور روزمرہ کا سامان بنانے والی کمپنیز کا کردار شروع ہوتا ہے۔ جب عالمی برانڈز کے خلاف ایک باقاعدہ مہم شروع کی گئی تو لوگوں کے جذبات کو مزید کیش کرنے کےلیے ملکی مصنوعات کے برانڈز نے بھی اس میں حصہ بقدرے جثہ ڈالنا شروع کردیا اور اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی ہوئی۔ دیگر ممالک میں، اور خاص طور پر خلیجی ممالک میں، اس مہم کے اثرات نظر آنا شروع ہوگئے۔ وہاں بھی مقامی مصنوعات کو ترجیح دی جانے لگی۔ پاکستان میں بھی یہی منظرنامہ واضح ہوا کہ مقامی سطح پر تیار ہونے والے سازوسامان اور کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ مشروب ساز اداروں کا کاروبار بڑھنا شروع ہوگیا۔ یہ ادارے خود بھی اس مہم کا حصہ بن گئے اور ان کی تشہیری مہم میں بھی اس بائیکاٹ کا کردار نمایاں نظر آنے لگا۔ یہ لوگوں کے جذبات کو مزید ہوا دینے لگے اور اپنا منافع کھرا کرنے لگے۔
اب یہاں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کیونکہ کسی بھی غیرملکی کمپنی کو پاکستان میں کاروبار کے لیے اس ملک کے قوانین و ضوابط کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے زیادہ تگ و دو کرنی پڑتی ہے تو پاکستانی کمپنیوں کو اپنی پروڈکٹس کی قیمتیں نسبتاً کم رکھنی چاہیے تھیں کہ یہ مقامی کمپنیاں ہیں تو ان کی پیداواری لاگت میں یقینی طور پر فرق ہوگا۔ لیکن اس پورے قضیے میں حیران کن پہلو یہ سامنے آیا کہ مقامی کمپنیاں ہونے کے باوجود، پیداواری لاگت میں واضح فرق کے باوجود، اور پہلے قیمتیں کم ہونے کے باوجود مقامی برانڈز نے قیمتیں کم کرنے کے بجائے بڑھا دیں۔ اور سونے پر سہاگہ کہ اب یہ قیمتیں ان غیر ملکی برانڈز کے مطابق ہوچکی ہیں۔ راقم الحروف نے خود جب ایک صارف سے یہ سوال کیا کہ وہ غیرملکی برانڈ کے مشروبات کیوں استعمال کر رہے ہیں جب کہ مقامی بھی میسر ہیں تو ان کا جواب تھا کہ قیمتیں جب دونوں کی برابر ہیں تو ہم وہی برانڈ استعمال کریں گے جس کی کم از کم کوالٹی مقامی برانڈ سے بہتر ہے۔
مقامی برانڈز نے عوامی جذبات کو صرف کیش کرنا چاہا اور انہوں نے کچھ عرصہ کیش کیا بھی۔ ہمارا بطور مجموعی مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہم مقابلے اور مسابقت کی دوڑ میں سامنا کر نہیں سکتے لیکن ہم مفادات کے حصول کےلیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس پورے قصے میں بھی پاکستان کی مقامی کمپنیوں نے عارضی فائدے کے حصول کےلیے ایک طویل المدتی فائدے کا موقع گنوا دیا ہے۔ اور یقینی طور پر یہ اہم بھی ہے کہ یا تو کوالٹی کا معیار ایسا ہو کہ آپ یکساں قیمت پر عالمی کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ کر پائیں کہ کوالٹی میں تو کوئی فرق نہیں۔ یا پھر آپ کی پیداواری لاگت بھی عالمی کمپنیوں کے برابر ہو تو پھر بھی توجیہ پیش کی جاسکتی ہے ایک جیسی قیمتوں کی۔
موجود حالات میں جب پاکستانی قوم نے آپ کو موقع فراہم کیا کہ آپ اپنا کاروبار عالمی سطح پر لے جاسکیں تو آپ نے نہ صرف موقع گنوا دیا بلکہ صرف اور صرف لالچ کے پیش نظر اپنی پروڈکٹس کی قیمتیں بڑھا کر پاکستان کے عوام کے ساتھ بھی دھوکا کیا ہے۔ اس موقع سے یوں فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا کہ اپنی پروڈکٹس کی عالمی سطح پر تشہیر کی جاتی۔ اور نہیں تو خلیجی ممالک تک یہ دائرہ تو بڑھایا جاسکتا تھا۔ اس حوالے سے ایک جڑی بوٹیوں پر مشتمل مشروب، جو اسی نام سے پڑوسی ملک میں بھی رجسٹرڈ ہے، دونوں کی عالمی پذیرائی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہی حال ہمارا ہے۔ ہم نے ایک واضح موقع اپنی عاقبت نااندیشی اور لالچ میں بظاہر گنوا دیا ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں وہی عالمی برانڈز مارکیٹ میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلیں گے۔
اس پورے منظرنامے میں اگر حقیقت کا رخ کچھ اور بھی ہے تو ان مقامی برانڈز کو نہ صرف کوالٹی کے معیار کے حوالے سے توجیہ پیش کرنی چاہیے بلکہ لاگت کے حوالے سے بھی کھل کر بتائیں تو شاید عوام کا بھروسہ قائم ہوسکے، ورنہ پاکستانی عوام میں یہ سوچ پنپنا شروع ہوچکی ہے کہ مقامی برانڈز نے عالمی برانڈز کے بائیکاٹ کے دوران نہ صرف ایک مافیا کا روپ دھار لیا ہے بلکہ انہوں نے عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنا بھی شروع کردیا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔