بلیو اکانومی سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت

بلاشبہ دنیا کی معیشت میں تجارت کا اہم ترین ذریعہ بحری بندرگاہیں اور راہداریاں ہیں

(فوٹو: فائل)

وزیرِاعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے سمندری تجارت کا سب سے موزوں راستہ فراہم کرتا ہے، ان ریاستوں نے پاکستان کی بندرگاہوں کے استعمال میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے، جدید نظام اور بندرگاہوں تک آسان رسائی کی بدولت پاکستان اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم اتھارٹی اور نیشنل شپنگ کارپوریشن کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔

بلاشبہ دنیا کی معیشت میں تجارت کا اہم ترین ذریعہ بحری بندرگاہیں اور راہداریاں ہیں، اقوام کی تاریخ دیکھیں تو بحری تجارت پر خصوصی توجہ دینے والے ممالک نے نمایاں ترقی کی اور دنیا کے کئی خطوں میں اپنے مفادات کے لیے اثر و رسوخ قائم کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ آج سمندروں کے راستے 80 فی صد عالمی تجارت ہوتی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب اس سے بھی زیادہ ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی تجارت کا70 فی صد سے زائد حصہ بحری تجارت سے وابستہ ہے۔

پاکستان کی ساحلی پٹی ایک ہزار چھیالیس کلومیٹر پر محیط ہے، ملک میں تین فعال بندرگاہیں موجود ہیں، گوادر پورٹ کے ساتھ خطے کا اہم ترین منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری زیر تعمیر ہے جس کی تکمیل سے چین اور وسط ایشیائی ممالک کو پاکستان کے تعاون سے دنیا بھر سے تجارت کے لیے بیک وقت زمین اور بحری تجارتی راہداری دستیاب ہوگی۔ ملک کی بحری معیشت کو مستحکم بنا کر ملک کی مجموعی قومی پیداوار کو تین گنا تک لے جایا جا سکتا ہے۔

بحری وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ترقی کے امکانات روشن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون، صنعتی علاقے، ماہی گیری، اسٹوریج کی سہولیات بندرگاہوں کے قریب واقع ہوں، نیز ریل اور سڑک کے ذریعے بندرگاہوں سے منسلک ہوں، بندرگاہوں سے سامان کی اندرون اور بیرون ملک ریل اور روڈ ٹرانسپورٹ کا شعبہ بھی اہمیت اختیار کر رہا ہے۔

سمندروں میں موجود قدرتی وسائل، نیلے پانیوں اور ساحلوں پر موجود قدرتی وسائل سے وابستہ معاشی سرگرمیوں کو بلیو اکانومی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ معیشت کا ایسا تصور ہے جو محفوظ قدرتی وسائل کو رکھتے ہوئے توانائی، خوراک اور پائیدار اقتصادی ترقی کے متبادل ذرائع مہیا کرتا ہے جس سے دوسری کئی صنعتیں جڑی ہیں۔

دور حاضر میں پاکستان کے سمندری وسائل سے استفادے کی خاطر پاکستان اور چین کی جانب سے سی پیک کے ضمن میں پاکستان میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اس راہداری کی مدد سے مستقبل میں گوادر ڈیپ سی پورٹ کا فعال کردار مشرق و مغرب کی سر زمینوں کی تجارتی سرگرمیاں سمیٹ کر پاکستانی ساحلوں پر لے آئے گا۔ تجارتی سرگرمیوں کی یہ ریل پیل معاشی خوشحالی لائے گی اور نتیجتاً دیگر صنعتوں کو فروغ ملے گا۔

بلیو اکانومی کا تصور دراصل ایک جدید معاشی ماڈل کا قیام ہے جس کے ذریعے پائیدار معاشی ترقی کا حصول ممکن ہو سکے گا۔ معدنیات، تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ، وِنڈ اور سولر انرجی کے حصول سے توانائی کے میدان میں خاطر خواہ بہتری لائی جا سکتی ہے۔ آبی حیات، ماہی گیری اور فشریز کے شعبوں میں بھرپور توجہ نہ صرف ملکی غذائی ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی بلکہ زرِ مبادلہ کے ذریعے ملکی معیشت بھی مستحکم ہو گی۔ شپنگ انڈسٹری، جہاز سازی و مرمت، بندرگاہوں اور جہاز رانی جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری تجارتی و دفاعی سرگرمیوں میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔

خوبصورت ساحلوں پر توجہ دے کر سمندری و ساحلی تفریح اور سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں پائیدار معاشی مفادات کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کی معیشت کو ایک نئی جہت دے کر معاشی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔


آج وقت کا تقاضہ ہے کہ بلیو اکانومی کے روشن امکانات کا بھرپور فائدہ اْٹھاتے ہوئے قدرتی وسائل کو اپنے موافق استعمال کر کے ملکی غذائی اور توانائی کی ضروریات کو پورا کیا جائے اور پائیدار معاشی نظام کے لیے راہیں ہموار کی جائیں۔ فیصلہ سازوں اور سرمایہ کاروں کی بھرپور توجہ اس راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ معاشی معاہدے اور ان کا حجم ہی اس کے نتائج ہوں گے۔ ایسے اقدامات ایک مسلسل جدوجہد اور عمل کے متقاضی ہو ا کرتے ہیں۔ فیصلہ سازی کے بعد سرمایہ کاری اور لگا تار توجہ ہی ایسے اقدامات کے بھرپور نتائج برآمد کرنے میں معاون ثابت ہوا کرتے ہیں۔

سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی قدرتی حسن سے مالا مال ہے، سندھ میں 280 کلومیٹر اور بلوچستان میں تقریباً 800 کلومیٹر کا طویل ساحل خوبصورت مقامات اور نیلے پانیوں کا حسن رکھتا ہے۔ شہر کراچی ملک کی سب بڑی قدرتی بندرگاہ اور پرکشش ساحل رکھتا ہے۔ پورٹ قاسم سے ٹھٹھہ، بدین اور کیٹی بندر تک سمندری سلسلہ کئی سیاحتی مقامات رکھتا ہے،کراچی کے ساحل کلفٹن، سی ویو اور دو دریا پر کچھ توجہ ضرور دی گئی ہے لیکن دیگر ساحلی مقامات پر ترقی دینے کے لیے کام نظر نہیں آتا، ماضی میں کئی سرکاری منصوبے بنائے گئے لیکن وہ صرف کاغذوں تک ہی محدود رہے۔

کراچی جیسے میگا سٹی میں پرکشش ساحل کے سیاحتی مقامات نیلی معیشت کا اہم جز ہیں لیکن اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کا معاملہ اب تک فوکس نہیں کیا گیا۔ ہاکس بے، پیراڈائز پوائنٹ، سینڈزپٹ، فرنچ بیچ، منوڑہ، جزیرہ چرنا، بڈو، بنڈل، مبارک ولیج اور سونمیانی کے خوبصورت ساحل ترقی کے منتظر ہیں۔ انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے اصولوں کو شفاف طریقے سے عمل درآمد کرانا ہوگا۔

کراچی سے نکل کر حب بلوچستان سے شروع کریں تو گڈانی کا خوبصورت ساحل صرف جہازوں کو توڑنے کی صنعت کے علاوہ کوئی سیاحتی حیثیت حاصل نہیں کر پا رہا۔ اس ساحلی مقام پر توجہ کر کے سیاحت کو فروغ اور مقامی آبادیوں کو بہترین روزگار دیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کا ایک اور خوبصورت ساحلی مقام '' کنڈ ملیر'' سیاحوں کے لیے انتہائی کشش رکھتا ہے، پہاڑی سلسلے سے جڑے اس نیلے پانی کے ساحل کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا، پہاڑ کے دامن میں کھڑی کشتیاں ساحل پر آنے والوں کو مکمل تفریح بھی فراہم کرتی ہیں۔ کراچی سے 190 کلومیٹر سے شروع ہونے والا پاکستان کا سب سے بڑا قدرتی وسائل سے بھرپور ہنگول نیشنل پارک بھی توجہ کا مرکز ہے۔

کل 6100 اسکوائر کلومیٹر پر پھیلا یہ پارک میدانی، ساحلی اور پہاڑی سلسلے پر مشتمل خوبصورت مناظر سے بھرپور ہے۔ ضلع گوادر کی تحصیل پسنی ساحل کے کنارے ایک چھوٹا سا پرکشش شہر آباد ہے، کراچی سے 450 کلومیٹر دور ماہی گیروں کا شہر پسنی اپنے خوبصورت پرکشش ساحلوں اور نایاب آبی حیات کے لیے مشہور ہے معروف جزیرہ استولا بھی پسنی میں واقع ہے جسے محفوظ علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ مکران کوسٹل ہائی وے پر چلتے چلتے کئی پرکشش ساحلی مقامات سے ہوتے ہوئے ہم گیم چینجر پاکستان کا اہم جغرافیائی شہر اور بلوچستان کے ضلع گوادر تک پہنچتے ہیں، دنیا کی بہترین قدرتی بندرگاہ گوادر کے کنارے آباد اس شہر کو جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے۔ نیلے پانی کا یہ خوبصورت ساحل طلوع اور غروب آفتاب کے وقت دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔

ایک مؤثر حکمت عملی کے تحت گوادر کا ماسٹر پلان تیارکیا گیا ہے۔ گوادر کے مشرقی اور مغربی حصے کو ماسٹرپلان میں بہتر طور پر تقسیم کیا گیا ہے جہاں بندرگاہ، سامان کی ترسیل اور صنعتوں سے متعلق سرگرمیوں کے لیے زمین مختص کی گئی ہے جب کہ رہائش اور سیر و سیاحت اور تفریحی مقامات کی جدید خطوط پر تعمیر کے لیے بھی زمین مختص کی گئی ہے۔جیوانی تک اس پرکشش ساحلی پٹی کو بہتر بنانے کی منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے۔ نیلی معیشت سے استفادہ کرنے کے لیے پاکستان کی بحری حدود سے بین الاقوامی تجارت اور اس سے جڑے ایشیا کو جانے والے زمینی راستوں کو جدید خطوط پر استوار اور محفوظ کیا جا رہا ہے، یہ بات اہم ہے کہ نیلی معیشت سے ساحلی اقوام یعنی مقامی آبادیوں کو سب سے بہتر معاشی وسائل دستیاب ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں قدرتی وسائل کو مناسب استعمال کے ذریعے منافع بخش صنعت میں تبدیل کرنے کے رجحان کا فقدان رہا ہے۔ پاکستان میں بحری صنعت ابھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ پاکستان میں اب تک سمندری حیات اور معدنیات سے متعلق تحقیق و تلاش کا کام بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس جانب توجہ دینے کے لیے پاکستان کے 1000 کلو میٹر طویل ساحل اور گہرے سمندر میں بکھرے بلیو اکانومی کے روشن امکانات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، بحری صنعت میں دل چسپی کے حامل افراد کی ذہن سازی کے ذریعے پاکستانی ساحلوں اور سمندر میں موجود قدرتی وسائل کے استعمال سے ساحلی سیاحت اور دوسری معاشی و صنعتی تنصیبات کے لیے راہیں ہموار کرنے میں مفید ثابت ہو گی۔ جس کے نتیجے میں ساحلی و سمندری سیاحت، تجارت و محفوظ جہاز رانی، خوراک و توانائی کے وسائل کی تلاش اور پائیدار معاشی ذرائع کا حصول بھی ممکن ہو سکے گا۔
Load Next Story