بزرگوں سے مذاق

بھارت کے مقابلے میں پاکستانی بزرگوں کو پاکستان ریلوے بہت کم مراعات دے رہا ہے


Muhammad Saeed Arain July 09, 2024
[email protected]

پاکستان ریلوے نے یکم جولائی سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی اضافے پر تین جولائی سے ریلوے کرایوں میں فوری طور پر تین فیصد اضافہ کر دیا ہے جب کہ حکومت نے گزشتہ دنوں پٹرولیم مصنوعات میں جو 35 فیصد تک کمی کی تھی اس کا شاید ریلوے حکام کو علم نہیں ہوا ہوگا، اس لیے ریلوے کرایوں میں معمولی سی بھی کمی نہیں کی تھی۔ ریلوے افسران بھی حکومتی افسر ہیں جن کی گاڑیوں کے لیے بھی پٹرول مفت ملتا ہے۔

اس لیے کوئی فکر نہیں مگر مسافروں کی جیبوں سے مزید رقم نکلوانے کے لیے وہ تیار رہتے ہیں اور انھوں نے ریلوں کے کرائے بڑھانے کا نیا ریکارڈ بنا دیا ہے جس کی وجہ سے اب مسافروں پر کرائے کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ریلوے نے اے سی کلاسز کے کرائے بہت زیادہ بڑھا دیے ہیں جب کہ اکنامی کلاس کے کرائے کسی حد تک قابل برداشت ہیں اور مسافر بھی لمبے سفر کے لیے اکنامی کلاس میں سفر پر مجبور ہیں کہ جہاں اکنامی بوگیوں کی حالت سفر کے قابل تو نہیں مگر مجبوری سفرکرا دیتی ہے۔

اکنامی کلاس میں ریلوے حکام نے سہولتیں فراہم کرنے سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں جہاں بلب خراب ہونے سے تاریکی اور پنکھے بند ملتے ہیں تو مجبور مسافر اپنے موبائلوں سے روشنی کر کے اور ہوا کے لیے کھڑکیاں کھول کر سفرکی صعوبتیں برداشت کر ہی لیتے ہیں۔ اے سی اسٹینڈرڈ بوگیوں اور اکنامی بوگیوں میں واش رومز کی حالت میں معمولی فرق ہے۔

اکنامی بوگیوں کے واش رومز میں لوٹے رکھنے کا تو تصور ہی نہیں ہے بعض دفعہ لوٹے اے سی لوئر بوگیوں میں بھی نہیں ملتے اور مسافر پانی کی خالی بوتلوں سے کام چلا لیتے ہیں، دونوں جگہوں پر واش رومز کے دروازے خراب ہوتے ہیں اور بعض واش رومز کے اندر کنڈی نہیں ہوتی جس سے مسافر کو گیٹ پر بھی توجہ مبذول رکھنی پڑتی ہے۔ اے سی بزنس پر ریلوے کی کچھ توجہ ضرور ہے کیونکہ اس کے کرائے زیادہ ہیں اس لیے واش رومز میں لوٹے، ٹشو پیپر اور صابن کی جگہ لیکوئیڈ ہینڈواش چھوٹی پلاسٹک گلاسز میں رکھ دیا جاتا ہے مگر وہاں ٹشو رول غیر معیاری بنوائے جاتے ہیں جو مارکیٹ کے ٹشو رولزکے مقابلے میں ہلکے ہوتے ہیں اور مسافر کم ہی استعمال کرتے ہیں۔

اے سی کلاسز میں کچھ گھنٹوں بعد صفائی کرنے والا عملہ آ کر صفائی کرجاتا ہے اور کچرا اٹھا لیتا ہے مگر صفائی کی یہ سہولت اکنامی کے مسافروں کو میسر نہیں اس لیے اکنامی بوگیوں میں کوڑا کرکٹ پھیلا رہتا ہے وہاں عملہ صفائی کرنے آتا ہی نہیں صرف پانی کی خالی کی گئی بوتلیں سمیٹنے آتا ہے جو بازار میں فروخت ہو جاتی ہیں۔ اے سی بزنس کے برعکس اے سی اسٹینڈرڈ کی بوگیوں میں ایک نہ ایک دروازہ ضرور خراب ہوتا ہے اور کولنگ ضایع ہوتی رہتی ہے۔

اے سی بزنس اور اے سی لوئر کے کرایوں میں اے سی کی وجہ فرق کم مگر اکنامی کلاس کے کرایوں میں بہت فرق اور سہولتیں نایاب ہیں۔ ریلوے نے اسٹاپ کم کر کے جو تیز رفتار ٹرینیں چلائی ہیں وہ شاذ و نادر ہی وقت پر منزل مقصود پر پہنچتی ہیں جب کہ دیگر ٹرینوں کا لیٹ ہونا تو معمول ہے جو وقت پر روانہ تو ہو جاتی ہیں مگر ان کی آخری منزل کے اسٹیشنوں تک پہنچنے کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ اپنے شہروں سے وقت پر روانہ ہونے والی ٹرینیں آگے جا کر لیٹ ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ان کے ڈرائیور حضرات رات کے سفر میں کم اسٹاپس کے باوجود یہ لیٹ دور کرنے کی کوشش اس لیے کرتے کہ انھیں اوور ٹائم ملتا ہوگا اور تاخیر کی جواب طلبی نہیں کی جاتی۔ ریلوے کی جہاں ڈبل لائنیں موجود ہیں وہاں کے اسٹیشنوں پر گاڑیاں روک کر کراس کرائے جاتے ہیں اور نان اسٹاپ ٹرینیں بھی راستے میں روک دی جاتی ہیں جو کبھی وقت پر منزل پر نہیں پہنچتیں ، البتہ وقت پر ضرور چل دیتی ہے۔

آج کل ریلوے کا کوئی وزیر ہے نہ یہ قلم دان کسی وزیر کو اضافی طور دیا گیا ہے اور سارا کام ریلوے افسروں کے سپرد ہیں جن کے سفر کے لیے بھی خصوصی سیلون یا وی آئی پی کیبن مختص ہوتے ہیں انھیں ہر چیز سفر میں مفت مل جاتی ہے انھیں پتا تو ہوگا کہ اسٹیشنوں کے مقررہ اسٹالوں اور ٹرینوں میں سفر کے دوران اشیا فروخت کرنے والے مہنگی اشیا فروخت کرکے کس طرح مسافروں کو لوٹ رہے ہیں۔ پانی کی بوتلیں ہر جگہ نہ صرف مہنگی فروخت کی جاتی ہیں بلکہ مقررہ اسٹالز پر بھی مقررہ نرخ پر نہیں ملتی جب کہ کولڈ ڈرنک کی بوتلیں دو نمبر اور مہنگی فروخت ہوتی ہیں جن کا معیار ہی چیک نہیں ہوتا۔

بھارت کے مقابلے میں پاکستانی بزرگوں کو پاکستان ریلوے بہت کم مراعات دے رہا ہے۔ کراچی جیسے بڑے شہر کے ریلوے بکنگ آفسز میں بزرگوں کے لیے کوئی کاؤنٹر مختص نہیں۔ لاہور میں کچھ سہولت ضرور ہے مگر کراچی میں ریزرویشن کے لیے کاؤنٹر کم اور اکثر خالی ہوتے ہیں لاہور میں ایسا کم ہے۔

پاک ریلوے 70 سال کے بزرگوں کو کرائے میں نصف رعایت دیتی ہے جو اکنامی سفر کے لیے ہے اے سی بوگیوں میں یہ رعایت صرف 25 فیصد ہے اور ہر ٹرین میں نہیں ہے۔ پاک ریلوے نے بزرگوں سے یہ مذاق بھی کر رکھا ہے کہ بزرگی کی یہ رعایت کسی ایکسپریس ٹرین میں میسر نہیں۔ تیزگام، خیبر میل اور بولان میل کے علاوہ کراچی، کوئٹہ، راولپنڈی، لاہور، پشاور روٹ کی تمام ٹرینیں ایکسپریس ہیں جن میں ستر اور 75 سال کے بزرگوں کو کوئی رعایت دستیاب نہیں۔ ریلوے نے ان بزرگوں سے مذاق کیا ہوا ہے کہ وہ بزرگوں کو کرائے میں رعایت دیتی ہے مگر ایسا ہے نہیں۔ بزرگوں کو ریزرویشن میں بھی سہولت نہیں۔ ریلوے صرف کرائے بڑھانے میں مصروف ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔